پاک بھارت تعلقات کا جمود ٹوٹ سکے گا
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت امریکا کا پورا جھکاؤ خطے کی سیاست میں بھارت پر ہے
پاکستان بھارت تعلقات میں موجود بداعتمادی کے ماحول میں اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی اجلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی آمد یقینی طور پر ایک بڑا سیاسی بریک تھرو ہے ۔کیونکہ دس برس سے پاک بھارت تعلقات میں موجود مسائل کے حل میں کوئی براہ راست مذاکرات کا بریک تھرو نہیں ہوسکا ۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی پاکستان آمد دس برس کے بعد ہوگی ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بھارت اول تو اس شنگھائی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا اور دوئم اگر وہ شریک بھی ہوتا ہے تو محض ایک غیر معروف نمایندہ کو بھیج کر رسمی کارروائی کرے گا۔اگرچہ شنگھائی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کی آمد بڑی خبر لیکن دونوں ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی کا ماحول بہت زیادہ ہے اور بالخصوص بھارت اور نریندر مودی کا مجموعی رویہ دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں وہ نہیں جو اصولی طور پر ہونا چاہیے جو دونوں ممالک سمیت خطے کی مجموعی صورتحال کی بہتری میں رکاوٹ ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم خطے کی ایک علاقائی تنظیم ہے جس کا قیام 2001 میں عمل میں آیا اور اس تنظیم کا مقصد خطے میں سیاسی ،اقتصادی و سیکیورٹی سے جڑے معاملات اور امکانات میں تعاون کرنا ہے ۔تنظیم میں چین ، روس، پاکستان،بھارت قازقستان ،کرغزستان ، تاجکستان سمیت ازبکستان شامل ہیں۔ 2023 میں ایران بھی اس کا مستقل رکن بن گیا جب کہ کچھ دیگر ممالک مبصر کے طور پر شامل ہیں یا شراکت کے طور پر عملی تعاون کرتے ہیں۔ ان حالات میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان عملاً تمام معاملات پر نہ صرف ڈیڈ لاک ہے بلکہ بھارت کا مجموعی رویہ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر بہت زیادہ جارحانہ ہے۔ بھارت کے موجودہ سفارت کاری کے محاذ پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی خواہش بہت پرجوش نہیں کیونکہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطہ کاری منقطع یا ڈیڈ لاک کے ماحول کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت خود ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کے بقول وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کا ایجنڈا محض شنگھائی سربراہی اجلاس تک ہی محدود ہوگا اور اس کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی سوچ پاکستان کو رکھنی چاہیے۔ بنیادی طور پر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے سفارت کاری کے محاذ پر پاکستان کو سیاسی ریلیف دیا یا جو ڈیڈ لاک ہے اسے توڑ کر مفاہمت یا مذاکرات کا دو طرفہ راستہ نکالا تو اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ کیونکہ اس وقت پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی خواہش بھارت سے زیادہ خود پاکستان کی بڑی سیاسی مجبوری ہے۔
ماضی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج 2015میں آخری بار پاکستان آئی تھیں جس کا مقصد افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنا تھا ۔پاکستان نے مجموعی طور پر تواتر کے ساتھ بھارت سے تعلقات کی بحالی میں کئی اہم اقدامات اٹھائے اور یہ اقدامات کی نوعیت محض سیاسی حکومتوں تک محدود نہ تھی بلکہ ہماری فوجی قیادت نے بھی معاملات کی بہتری کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا مگر اول نہ تو ہمیں بھارت کی جانب سے کوئی مثبت عملی تعاون ملا اور نہ ہی پہلے سے موجود ڈیڈ لاک کو توڑا جاسکا ۔یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اپنے وزیر خارجہ کو پاکستا ن بھیجنا ان کا ذاتی فیصلہ ہے یا اس فیصلہ کے پیچھے چین سمیت کسی اور ملک کی سفارت کاری کا بھی عمل دخل ہے ۔
کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ کہیں نہ کہیں سے بھارت پر پاکستان میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک ہونے کا دباؤ موجود ہوگا۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو بڑی بداعتمادی یا ڈیڈ لاک ہے اس کو توڑنا اور مفاہمت کا راستہ نکالنے میں کسی بڑے ممالک کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔دونوں ممالک کے درمیان انتہا پسندی، دہشت گردی ، سیکیورٹی کے معاملات ، پانی ،تجارت یا کاروبار، مقبوضہ کشمیر اور اب پاک افغان تعلقات اور بالخصوص سی پیک سے جڑے معاملات کے حل کی ایک کنجی جہاں دو طرفہ تعاون اور ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہے وہیں خطہ کی سطح پر جو بھی علاقائی سیاسی ،سماجی ، معاشی ، ثقافتی ، سیکیورٹی سمیت فورمز ہیں ان کو فعال کرنا اور باہمی معاملات یا تنازعات پر بات چیت کی مدد سے ممکنہ حل کو تلاش کرنا ہے ۔
اس لیے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی پاکستان آمد اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت نے دونوں ممالک بالخصوص ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ بات چیت یا کسی کے آنے اور جانے کے رسمی یا غیررسمی اقدامات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگرچہ ہمیں بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد سے کوئی بڑی توقعات یا خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس دورہ سے کوئی ایسا بریک تھرو ہوسکے گا جو کسی نہ کسی شکل میں جادو کی طرح سب کچھ ٹھیک کردے گا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت نے اس دورہ کو شنگھائی ایجنڈے تک محدود رکھا اور نہ ہی کوئی سائیڈ لائن پر ایسی میٹنگز ہوں گی جن کا براہ راست تعلق پاک بھارت معاملات پر ہوگا۔لیکن اس کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان آنا ہی ایک بڑی خبر ہے اور ہمیں اس دورہ سے سفارت کاری کی سطح پر معاملات کو آگے بڑھانے میں کچھ نہ کچھ مدد مل سکتی ہے اور اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری یا ڈیڈ لاک کو بریک کرنے میں امریکا ، چین ، برطانیہ اور روس کوئی بڑا کردار ادا کریں تو دونوں ممالک کی سطح پر ڈیڈ لاک ٹوٹ سکتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت امریکا کا پورا جھکاؤ خطے کی سیاست میں بھارت پر ہے اور وہ اسے اس علاقہ میں اپنا بڑا اسٹرٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے ۔اسی بنیاد پر وہ پاکستان پر بھی دباؤ ڈالتا ہے کہ خطے کی مجموعی صورتحال میں بھارت کی بالادستی کو قبول کرے اور بھارتی شرائط کی بنیاد پر آگے بڑھے جس پر پاکستان کے تحفظات کا ہونا فطری بات ہے ۔اسی طرح امریکا کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ پاکستان کا ایک بڑا جھکاؤ چین پر بڑھ رہا ہے اور اگر اس میں کوئی بریک تھرو ہوتا ہے تو جہاں امریکا کو تشویش ہوگی وہیں بھارت بھی چین پاکستان تعلقات کی بہتری کو کامیابی سے نہیں دیکھنا چاہتا ۔اس وقت جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈیڈ لاک ہے اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہو رہے ہیں بلکہ عملا تجارت سمیت دیگر اہم معاملات پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔
اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک سمیت خطہ کی سیاسی صورتحال میں علاقائی تعاون کی تنظیم سارک بھی اپنی اہمیت کھوبیٹھی ہے ۔اصولی طور پر تو دونوں ممالک اور بالخصوص بھارت ایک بڑے ملک ہونے کے ناطے زیادہ ذمے داری رکھتا ہے اور اسے لیڈ لینا چاہیے کہ جو بھی تنازعات دونوں ممالک کے درمیان ہیں اس کے خاتمے یا کمی میں خود ایک کلیدی کردار کے طو رپر پیش ہو اور استحکام کی سیاست کو تقویت دے ۔