اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا اٹل موقف
پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت کے خلاف ووٹ دے کر اپنے موقف کا ثبوت دیا
حکومتی سرپرستی میں آل پارٹیز کانفرنس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو دارالحکومت بنانے کا مطالبہ کردیا۔ مشترکہ اعلامیے میں غزہ میں فوری غیر مشروط جنگ بندی، فلسطینی عوام پر مظالم کے خاتمے، اسرائیل کو جنگی جرائم کی کارروائیوں پر جوابدہ ٹھہرانے اور او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایوان صدر میں فلسطین پر آل پارٹیز کانفرنس میں بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان و رہنما شریک ہوئے۔
بلاشبہ اہل پاکستان کے دل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد قطع نظر اس کے کہ حکومت کا تعلق کس جماعت سے تھا، ہر حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان کے عوام کے جذبات شدید ترین رہے اور حکومتوں کے لیے ان جذبات کی بعینہ ترجمانی ہر دور میں ہو سکی ہے، لیکن یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ کسی بھی حکومت نے تمام تر دباؤ کے باوجود اسرائیل کو آج تک تسلیم نہیں کیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد اور قائدانہ فکرکا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ قرار داد منظورکر کے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا، پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت کے خلاف ووٹ دے کر اپنے موقف کا ثبوت دیا ، قائداعظم کی اِس غیر مبہم، واضح اور بایقین بصیرت کے پیشِ نظر فلسطینی قربانیوں سے عوامِ پاکستان کا تعلق پختہ تر و مضبوط تر ہے ۔ بین الاقوامی مسائل کے پیشِ نظر قائدِ اعظم عالم اسلام کی مسلم ریاستوں کا ایک بلاک قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے عزائم کا مقابلہ اتحاد کے ساتھ کرسکیں۔
اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے خلاف نہ صرف اقوامِ متحدہ میں سب سے زیادہ قراردادیں پیش ہوئیں بلکہ اس کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں منظور بھی ہوئیں لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں پر آج تک اس نے عمل نہیں کیا۔ اسرائیل کی یہ جرات اس لیے ہے کہ اس کا پشت پناہ امریکا ہے اور اس کے اتحادی ممالک اور حکومتیں ہیں ۔ غزہ میں اسرائیل کیجارحانہ کارروائیاں عروج پر ہیں۔
اسرائیل کی ایک طرف حماس کے ساتھ جنگ جاری ہے تو دوسری طرف لبنان اور ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اسرائیل خطے کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ اب تک ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ غزہ کو کھلی جیل بھی کہا جاتا ہے۔ فلسطینی آزادی کے احساس سے محروم ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ جذبہ آزادی کے لہو میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے۔ غزہ میں بہترین پناہ گاہ اسپتال سمجھا جاتا ہے، تاہم اسرائیلی درندگی اور مظالم کی وجہ سے فلسطینی علاج کے لیے بنائی گئی جگہوں پر بھی محفوظ نہیں، زخمی فلسطینی امت مسلمہ کی خاموشی پر سوالیہ نشان ہے۔ بچے اور والدین بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔
بے گھر فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی قبضہ 75 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سوائے زبانی جمع خرچ کے اب تک کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکی ہیں۔ رفح پر اسرائیلی بمباری سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں وحشت کی تصویر بن چکی ہے۔ جنگی طیاروں نے معصوم بچوں اور بزرگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اسرائیل کسی وقفے کے بغیر غزہ پر بم برسانے میں مصروف ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع ایک ایسا صدمہ ہے جس سے انسانی حقوق کی تنظیمیں محسوس کیے بغیر شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل ایک دہشت گرد ملک ہے، جس کو لگام دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک انسانی قدروں کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔
اسرائیلی وزیر نے پیرس میں ایک تقریر کے دوران گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ پیش کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن حلقوں کی وہ نمایندگی کرتے ہیں، وہ اسی تصورکو اسرائیل کا جائز مستقبل سمجھتے ہیں۔ اسی تصورکا استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کی موجودہ حکومت میں غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کو مسلح کرنے، ان کی حمایت اور تحفظ فراہم کر کے اسے حقیقت میں بدل دیا ہے۔ غیر قانونی اسرائیلی آباد کار زبردستی فلسطینیوں کے زیتون کے باغوں کو جلا کر، انھیں ان کے گھروں سے بے گھر کرکے اور ڈرا دھمکا کر انھیں اپنی حفاظت کے لیے بھاگنے پر مجبورکررہے ہیں اور مغربی کنارے میں نئی بستیاں قائم کر رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں اِن دنوں اسرائیل خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ اُس زمانے میں جہاں کوئی قاعدہ، قانون نہیں تھا، انسان کا دامن تہذیب و تمدن سے خالی تھا، طاقتور جو چاہتا وہ کرگزرتا تھا، کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا اور مظلوم کی داد رسی کا کوئی اصول وضح نہیں کیا گیا تھا۔اسرائیل جس حد تک جاچکا ہے۔
وہاں سے بہت پہلے انسانیت کی سرحدیں ختم ہوچکی تھیں، لیکن حیرت اُس پر نہیں بلکہ اُس مغربی دنیا اور اس کے طاقتور ممالک پر ہے جو خود کو انسانیت دوست کہتی ہے، دنیا کو انسانی حقوق کے تحفظ کا سبق دیتی ہے، خطرناک اسلحے کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ریاستوں پر طرح طرح سے دباؤ ڈال کر انھیں معاہدے کرنے پر مجبورکرتی ہے، جانوروں پر تشدد کے خلاف بھی آوازیں بلند کرتی ہے، ماحولیاتی بگاڑکو درست کرنے کے لیے ہر برس عالمی سطح کی مجلس منعقد کرتی ہے اور اس مقصد کے لیے کروڑوں ڈالرز مختلف ممالک کو عطیہ کرتی ہے۔
اگر حماس کے گزشتہ اکتوبر کے حملے میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی شہریوں کی تعداد کو بارہ سو کے قریب مان لیا جائے اور اس کے جواب میں نام نہاد '' حقِ دفاع'' کو بھی قہراً، جبراً درست مان لیا جائے توکہاں بارہ سو اور کہاں بیالیس ہزار۔ اور لبنان، شام اور یمن میں اسرائیل کی خوں آشامی کی بھینٹ چڑھنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ وہ جبر و استبداد اور مظالم کی جو بہیمانہ داستانیں رقم کررہا ہے، اُن سے نظریں یکسر پھیر لی گئی ہیں۔
مڈل ایسٹ میں تیزی سے بدلتی صورت حال بارے سرِدست کوئی پیشگوئی تو ممکن نہیں تاہم بظاہر یہی سمجھ لیا گیا کہ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف تباہ کن حملوں کے ذریعے اسرائیل نے غزہ جنگ میں بالا دستی حاصل کر لی اور اب وہ ایران میں عسکریت پسند گروپ کے''حمایتیوں''کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف جائے گا لیکن اسرائیل کی بے لگام جارحیت اُس کی حربی ناکامیوں کا غبار نظر آتی ہے، اگر ہمارا اندازہ درست ہے تو پھر صیہونی قوتیں دنیا کو تیسری عالمی جنگ کا مزہ چکھانے کی کوشش ضرورکریں گی۔
مغربی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ لبنان میں تازہ اسرائیلی جارحیت نے علاقائی طاقت کی حرکیات میں تبدیلیوں کی راہ ہموار بنا دی، یعنی وہ اب محسوس کرتے ہیں کہ حزب اللہ اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہی، اگرچہ امریکی حکام نے اسرائیل کو ایران اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ بڑھتے تنازعہ میں کمی لانے کا کہا، تاہم نیتن یاہو کی فوجی حکمت عملی کو کنٹرول کرنے کی امریکی صلاحیت محدود ہونے کی وجہ سے گزشتہ منگل کے ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل براہ راست ایران کو نشانہ بنا کر کسی بڑی جنگ کی شروعات کر سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہفتے کو کہا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کا قتل خطے کے لیے طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوگا، یعنی اسرائیل کے رہنما اِسے مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی تشکیل نو کے لیے ایک موقعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں تاہم اسرائیل کی مکمل فتح کی توقع مضحکہ خیز ہے،جو لوگ کامل تسخیر کی خواہشمند ہیں انھیں پچھتاوا ہو گا۔
یہ بجا کہ 17 ستمبر کے بعد سے، اسرائیل نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ کو ایک کے بعد ایک جسمانی دھچکوں سے دوچار کیا، پہلے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے، پھر جنوبی بیروت پر سفاکانہ فضائی حملے جس میں سینئرکمانڈر ابراہیم عاقل کے مارے جانے سمیت تین دن کی وحشیانہ بمباری میں کم و بیش دو ہزار انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جمعہ کی شام تک جب،حسن نصراللہ بم دھماکا میں شہید ہوگئے۔
اُس کے بعد گویا حزب اللہ کی پوری اعلیٰ قیادت موت کی وادی میں اتار دی گئی لیکن اس سب کے باوجود غزہ بلکہ اسرائیل کے اندر اب بھی مزاحمت جاری ہے۔ حالیہ تاریخ اسرائیلی رہنماؤں کے لیے تلخ اسباق کے سوا کچھ نہیں۔وقت کی صرف ایک کروٹ اسرائیل، فلسطین تنازعہ کی سمت بدل سکتی ہے، بین الاقوامی برادری، دیرنیہ تنازعہ کے خاتمہ، تمام قیدیوں اور یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی، غزہ تک محفوظ اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے فوری قدم اٹھائے۔