ہمارے بھارتی مہمان
ہماری سابقہ سفارتکار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اس دورے سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کے فرائض اسلام آباد کے سپرد کیے گئے ہیں ۔ اس اجلاس کی اب تک کی خاص بات یہ سامنے آئی ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں۔ بھارتی مہمان کی آمد پر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں ۔ جو شخصیات بھارت کی خارجہ پالیسی اور ہندوسوچ کا ادراک رکھتی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جے شنکر کا یہ دورہ خالصتاً کانفرنس کی شرکت تک محدود ہو گا۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر بات نہیں ہوگی۔
ہماری سابقہ سفارتکار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اس دورے سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں، انھیں نہیں لگتا کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کی برف پگھلنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن ایک بھارتی صحافی سہا سنی سنہا کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی دورہ امید جگا دیتا ہے اگر لیڈر بات آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پاکستان کو پہل کرنا ہوگی۔ ہماری سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کہتی ہیں کہ بھارتی وزیر کوخوش آمدیدکہنا چاہیے۔
یہ تو خوش فہمی ہے کہ جے شنکر پاک بھارت تعلقات پر بات کرنے ہیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور بھارتی یہ تالی بجانے کو تیار نہیں ہیں ۔بھارتی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ دورہ سربراہی اجلاس تک محدود ہو گا ،کوئی اور سوچ نہیں آنی چاہیے۔ گزشتہ روز ہی بھارتی وزارت خارجہ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دورہ پاکستان اور ان کے استقبال کا مذمتی بیان جاری کیا ہے ۔
یعنی بھارت نے واضح عندیہ دیا ہے کہ ان کے وزیر خارجہ صرف ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آرہے ہیں لہٰذا ان سے کسی قسم کی امیدیں وابستہ نہ کی جائیں اور نہ کسی دوستی وغیرہ کے ڈھونگ رچائے جائیں۔ بھارت کے ہندواتہ نظریئے میں پاکستان کہیں فٹ نہیں بیٹھتا اور وہ اپنے آپ کو اس خطے کا سرخیل سمجھتا ہے، اس کے لیے اس کے ہمسائیہ ممالک کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ بھارت کے اردگرد نظر دوڑائیں تو اس کے اپنے کسی بھی ہمسائیہ ملک سے خوشگوار تعلقات نہیں ہیں جس کی بنیادی وجہ تھانیداری کا وہ کردار ہے جو بھارت ادا کرنا چاہتا ہے لیکن اس تھانیداری کی راہ میں اسے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہی نظر آتا ہے ۔
ایک دہائی کے بعد کسی بھارتی وفد کی آمد کی خبر کے بعد پاکستان میں چند ناعاقبت اندیش اور سیاسی طفل مکتب اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ انھیں بجا طور پر جھڑک دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنماء کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ کو اپنے سیاسی احتجاج میں خطاب کی دعوت وہ بھونڈا مذاق ہے جسے پاکستانی قوم کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتی۔
بیرسٹر سیف نے اپنے بیان میں بھارتی وزیر خارجہ کو پاکستانی کی مضبوطی کے لیے اپنے احتجاج میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔ موصوف بغض حکمرانی میں یہ بات شاید بھول گئے کہ بھارت کا اولین ایجنڈا ہی پاکستان کا عدم استحکام ہے اور وہ کیونکر پاکستان کے استحکام کی کوششوں میں شامل ہوں گے۔ اقوام متحدہ میں جے شنکر کی حالیہ تقریر کے بعد بھی کیا کوئی گنجائش باقی رہ گئی تھی کہ انھیں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ایک رہنماء اس قدر شرمناک دعوت دیتے۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گھس بیٹھئے سیاسی کردار وہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے بھول سکتے ہیں جو بھارت میں اور کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک رو ارکھا جارہا ہے۔
ان کی اس دعوت نے ہر پاکستانی کو دکھی کر دیا ہے اور اس دعوت کی مذمت کی ہے۔ یہ وہ پاکستانی عوام کے نام نہاد رہنماء ہیں جو سیاسی دشمنی میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انھوں نے ایک دشمن کو پاکستانی عوام سے خطاب کی دعوت ڈالی، اس پر ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو کیسے کیسے نام نہاد رہنماء میسر آگئے ہیں جو ماضی میں بھارت دوستی کے نام پر ووٹ کی خواہش کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں اور آج ملکی سلامتی کو پس پشت ڈال کر دشمن کی گود میں بیٹھنے کو تیار نظر آتے ہیں۔
بیرسٹر سیف کے بیان کے بعد ملک کے مختلف طبقات کی جانب ان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شایع کیا گیا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور دشمنی ایک نازک معاملہ ہے اور پاکستانی عوام اپنی اندرونی لڑائیاں خود سے بہتر لڑ سکتے ہیں لیکن وہ بھارت کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ان کے اندرونی اختلافات میں مداخلت کرے۔ ہمارے نادان رہنماء نے ہر محب وطن کو رنجیدہ کر دیا ہے ۔ انھیں اپنے بیان پر آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے قوم سے غیر مشروط پرمعافی مانگی چاہیے ۔
اگر وہ اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ رکھتے ہیں تو پارٹی کے بانی چیئر مین کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فی الفور انھیں عہدے سے برطرف کر دیناچاہیے۔ یہ قوم سب کچھ برداشت کر سکتی ہے مگر بھارت کی بالادستی ہر گز قابل برداشت اور قبول نہیں کر سکتی ۔ بھارتی مہمان جم جم آئیں مگر ان مہمانوں سے دونوں ممالک کے درمیان خیر سگالی کی توقع خام خیالی ہو گی اور اب نہ ہی کرکٹ ڈپلومیسی کا وقت رہا ہے۔مہمانوں کو جپھیاں ضرور ڈالیں مگر اتنی ہی زور دا ر جتنا اگلا برداشت کر سکے۔ معلوم نہیں ہم دوستی کی خواہش میں اتنے کیوں بے صبرے ہیں جب کہ دوسرا فریق ہمیں گلے لگانے کو تیار ہی نہیں ہے ۔