خدائی خدمت گار تحریک
اس تحریک نے خود یہ بات فرض کی تھی کہ فرنگی کی ان اسلام دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرے۔
ہندوستان کی آزادی کے لیے بہت سی تحریکیں چلیں۔ انگریز سرکار نے ریاستی تشدد کے ذریعے ان تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ ریاستی جبر کی بناء پر لاکھوں لوگوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ہزاروں لوگوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جانوں کی قربانیاں دیں۔
آزادی کی تحریک کے کچھ رہنما ہندوستان سے دور جزائر انڈیمان میں مرکھپ گئے، کچھ زندہ واپس آئے۔ آزادی کی ان تحریکوں میں پختون خوا صوبے میں چلائی جانے والی خدائی خدمت گار تحریک ہے جو خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کی قیادت میں چلائی گئی اور تاریخ میں خدائی خدمات گار تحریک کہلائی۔ اس تحریک کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ اس تحریک کا بنیادی اصول عدم تشدد تھا۔ یہ تحریک گزشتہ صدی کی 20کی دہائی کے آخری عشرہ میں شروع ہوئی اور 1947 تک جاری رہی۔ خدائی خدمت گار تحریک کے ساتھ ملک کے حکمرانوں نے ویسا ہی سلوک کیا جیسا سلوک انگریزوں کے دور میں رواں رکھا گیا تھا۔
خدائی خدمت گار تحریک کے ایک کارکن احمد نے باچا خان کی شخصیت اور خدائی خدمات کار تحریک پر پشتو زبان میں معرکتہ الآراء کتاب تحریر کی ہے۔ ایک اور رہنما قاسم جان نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد ہمیشہ تحریک آزادی سے متعلق دستاویزات کی تلاش میں رہتے ہیں اور نادر کتابیں شایع کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ کتاب دو جلدوں میں اپنے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے تحت شایع کی۔ اس کتاب کی دونوں جلدیں 790 صفحات پر مشتمل ہیں۔
اس کتاب کو اردو میں منتقل کرنے والے قاسم خان نے کتاب کے آغاز پر لکھا ہے کہ خان عبدالغفار خان کی زندگی اور جدوجہد پر مختلف زبانوں میں کتابیں لکھی گئیں لیکن خدائی خدمت گار تحریک کے نام سے احمد کاکا کی یہ کتاب نایاب کتاب ہے۔ قاسم خان نے مزید لکھا ہے کہ اس کتاب کی اہمیت کا اندازے اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب باچا خان کی خواہش پر لکھی گئی تاکہ اس تحریک کی تاریخ کو آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرلیا جائے۔
معروف دانشور ریاض تسنیم لکھتے ہیں کہ پشتونوں کی سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو خوشحال خان کے بعد عبدالغفار خان وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے پشتونوں کو اپنی شناخت دی، شعور دیا اور سماجی مسائل کا ادراک دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ قارئین کو یہ بات پڑھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ آزادی کے لیے پشتونوں کی قربانیاں اور جدوجہد دنیا کی کسی قوم کے مقابلے میں بے مثال اور قابلِ فخر ہیں۔ معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے '' ایک تاریخی دستاویز'' کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد ہماری حکومتوں، مقتدر اداروں اور فیصلہ ساز حلقوں نے ماضی کی تاریخ کو کچھ اس طرح مرتب کیا اورکروایا، ہندوستان میں استعمارکا کردار اور استعمار مخالف رجحانات اور تحریکیں ہمارے تاریخی بیانیہ کا حصہ نہیں بنائی گئیں۔
ڈاکٹر جعفر مزید لکھتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں استعمار کے کردار اور اس کی مزاحمت کو قومی آزادی کا محور بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں جس چیزکو آزادی کی تاریخ کہا جاتا ہے وہ دراصل ہندوستان کے مسلمان تضاد اور مسلم لیگی علیحدگی پسندی سے اس تضاد کو حل کرنے کی خاطر تقسیمِ ہند کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ میں انگریزی استعمارکا ذکر ضمناً تو آتا ہے لیکن خود یہ استعمار ہماری تاریخ کا کوئی بنیادی مسئلہ بن کر سامنے نہیں آتا کیونکہ ایسا نہیں ہوتا، لہٰذا نوآبادیاتی دور کے تمام سماجی و اقتصادی اور سیاسی عوامل جنھوں نے آزادی کے بعد ہمارے معاشرہ، ملک اور ریاست کو ایک حقیقی جمہوری معاشرہ اور ریاست نہیں بننے دیا۔ وہ بھی ہمارے سیاسی بیانیہ میں کوئی جگہ نہیں پاتے۔ ہم غیر محسوس طریقے سے نوآبادیاتی دور سے نکل کر ایک جدید نوآبادیاتی دور میں داخل ہوئے۔
باچا خان کے صاحبزادہ خان عبدالولی خان نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ خدائی خدمت گار تحریک اس ماحول اور گرد و پیش کی پیداوار ہے۔ اس تحریک نے خود یہ بات فرض کی تھی کہ فرنگی کی ان اسلام دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرے۔ خدائی خدمت گار فرنگی کی اندرونی پالیسیوں کی بھی مخالفت کر رہی تھی اور اس کو یقین تھا کہ پورے ہندوستان کے لوگ مل کر کمر باندھ لیں تو فرنگی کا بستر گول کیا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں فرنگی تحریک کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا۔ یہ ملک اورگرد و پیش کے حالات تھے کہ باچا خان اور ان کے ساتھی فرنگی کی عظیم قوت کے خلاف کمربستہ ہوئے اور خدائی خدمت گارکی بنیاد رکھی۔
ولی خان نے اپنے پیش لفظ کے آخر ی پیراگراف میں لکھا ہے کہ پورے پختون خوا میں کوئی درہ اور پہاڑ کی کوئی چوٹی ایسی نہیں ہوگی جہاں فرنگیوں اور پختونوں کا خون نہ بہا ہو، اگر دل تھام کر اس کتاب کے آخر تک پہنچیں تو خود سمجھ ہی لیں گے کہ آزادی کے لیے پختونوں نے کیا کیا قربانیاں دی تھیں۔ اس کتاب کے مصنف احمد کا کا ایک ناخواندہ غریب شخص ہے۔
وہ کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نہ تو میں ادیب ہوں اور نہ ہی فن تحریرکا تجربہ رکھتا ہوں۔ پشتوکی کہاوت ہے کہ '' میراثی نہیں ہوں لیکن غربت نے مجھے میراثی بنا دیا ہے۔'' یہی وجہ ہے کہ وقت کے تقاضوں نے مجھے اس تحریر لکھنے پر مجبورکیا۔ میری تحریرکا مقصد ان تاریخی حالات کو منظر عام پر لانا ہے جو گزرے ہوئے زمانہ میں پیش آئے، وہ لکھتے ہیں کہ تحریر حقیقت میں وہ حالات ہیں جو انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں سے لے کر اس دوران اس زمین پر جو کچھ گزرا ہے، آسمان نے خود دیکھا ہے وہ بیان کیے ہیں۔ احمد کاکا لکھتے ہیں کہ کب سے اس تحریک میں شامل ہوا، ابتداء سے۔ میں نے کتاب کے یہ دو حصے 1963میں حیدرآباد جیل میں باچا خان کو سنائے تھے۔ 1939 میں مجھے منٹگمری (ساہیوال) جیل بھیجا گیا جو پورے پاکستان میں بدمعاشوں کی جیل تھی۔ باچا خان کو اس جیل میں نظربند کیا گیا تھا۔
یہ جیل ہمیشہ کیچڑ اور مٹی سے بھری ہوتی تھی۔ مکھی، مچھر اور چیونٹی اس جیل کے خاص تحفے تھے۔ باچا خان کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ میں جب یہاں پہنچا تو باچا خان نے بتایا کہ دس مہینوں میں، میں نے کسی کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ باچا خان دفعہ چالیس (40) میں بند تھے اور تین سال قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے تھے۔ انھیں انتہائی کم مقدار میں خوراک دی جا رہی تھی اور مشقت کے طور پر چرخہ چلاتے تھے۔ احمد لکھتے ہیں کہ ایک رات میں نے جیل میں چہل قدمی کے دوران باچا خان سے پوچھا کہ '' آپ کے دل میں قوم سے محبت کا جذبہ کب پیدا ہوا؟'' انھوں نے بتایا کہ ''جب میں مشن اسکول میں پڑھ رہا تھا تو اس کا ہیڈ ماسٹر انگریز فوجی جرنیل تھا جو تنخواہ کے بغیر قومی خدمت کر رہا تھا۔
ان سے متاثر ہوا۔ ان دنوں حاجی صاحب ترنگزئی نے دینی مدرسوں کا کام شروع کیا تھا۔ میں بھی اس پر غور کررہا تھا کہ پختون علم کی روشنی سے محروم ہیں۔ جب تک ان میں علم نہیں آئے گا ان کی مشکلات دور نہیں ہونگی۔'' باچا خان نے بتایا کہ '' میں حاجی صاحب ترنگزئی کے ہمراہ گاؤں جاتا تھا اور اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے مدرسے بن گئے تھے۔ مدرسوں کی تعداد بڑھنے لگی تو فرنگی خوفزدہ ہوگیا اور حاجی صاحب کی گرفتاری کا حکم ہوا۔'' ان دنوں ہندوستان میں خلافت کے جلسے ہوتے تھے جن میں باچا خان شامل ہوتے تھے، مسلمانوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ باچا خان نے چند ساتھیوں کے ساتھ ہجرت بھی کی۔
ہجرت ناکام ہوئی اور لوگ واپس آگئے۔ باچا خان واپس آئے تو انھوں نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کوئی بھی قوم علم حاصل کیے بغیر انھیں منزل تک نہیں پہنچا سکتی۔ تمام ساتھی متفق ہوئے تو پختون جوانوں کا جرگہ بنایا گیا ۔ اپریل 1921میں آزاد اسلامیہ مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسہ میں قرآن شریف، فقہ،تاریخ اسلام کے ساتھ عربی، اردو اور انگریزی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ٹیلر ماسٹری،کار پینٹری اور کلاسازی وغیرہ سکھائی جاتی تھی۔ مصنف نے لکھا ہے کہ انھوں نے اسکول کی پانچویں جماعت میں داخلہ لیا۔ احمد نے لکھا ہے کہ گاؤں سے آرہا تھا تو سامنے سے باچا خان آرہے تھے۔ میں نے باچا خان کو بتایا کہ میں یتیم ہوں، میرے پاس کتابیں بھی نہیں ہیں اور نہ فیس ہے۔
باچا خان نے فورا مجھے اپنے قریب کیا۔ میرے چہرہ پر تھپکیاں دیں اور باچا خان نے کہا کہ میں اپنے بچے کوکتابیں،کپڑے اور روٹی دوں گا اور مجھے بھائی جان استاد کے نام پر خط دیا کہ مجھ سے فیس نہ لی جائے۔ احمد نے لکھا کہ ایک وقت تھا کہ چارسدہ کے تمام پختون باچا خان کے ساتھ تھے۔ احمد نے باچا خان کی پہلی دفعہ جیل سے رہائی کے بعد استقبال کا آنکھوں دیکھا حال تحریرکیا ہے۔
مصنف نے سائمن کمیشن پشاور آمد کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ پشاور کے لوگوں نے بھی کمیٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کو جمعے کو پشاور آنا تھا۔ اس سے قبل ڈاکٹر گوش کی رہنمائی میں ایک بڑا جلوس نکالا گیا۔ جلوس کے شرکاء کے پاس کافی جھنڈیاں تھیں۔
پشاور میں کمیشن کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا، یوں کمیشن ناکام ہوکر واپس چلا گیا۔ احمد نے تحریک کے دوران ان اشتہار شایع کرنے کے خفیے طریقہ کو بھی خوب بیان کیا ہے۔ اس دوران احمد بظاہر حکومت کے ساتھ مل گئے تھے مگر دراصل وہ تحریک کو منظم کرنے کے لیے خفیہ تحریر بھی شایع کرتے تھے۔ مصنف نے بہشت نگر میں تحریک کے کارکنوں اور ان کے رشتے داروں پر انگریزوں کے ظلم اور تشدد کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے اورکئی خواتین کی بہادری کی داستانیں تحریرکی ہیں۔