ہوس اقتدار ہے کیا
رات کا سفر جاری ہے چاروں طرف مہیب اندھیرا چھایا ہوا ہے
رات کا سفر جاری ہے چاروں طرف مہیب اندھیرا چھایا ہوا ہے ہر طرف سکوت ہے چرند، پرند، انسان غرض یہ کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق سو رہی ہے مگر ایسے میں اللہ کا ایک بندہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے دیوانہ وار اپنی مملکت کی گلیوں میں چکر کاٹ رہا ہے کہ کہیں کسی کو اس کی مدد کی ضرورت تو نہیں اچانک ایک گلی میں ایک گھر میں کچھ باتیں کرنے کی آوازیں آتی ہیں غور سے سننے پر پتا چلتا ہے کہ ایک بچہ رو رہا ہے اور میاں بیوی میں کچھ بحث ہو رہی ہے وہ شخص زور سے دروازے پر دستک دیتا ہے آواز سن کر ایک آدمی دروازہ کھولتا ہے آپ سوال کرتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے وہ آدمی جواب دیتا ہے کہ میں ایک غریب آدمی ہوں خلیفہ کی طرف سے اناج کھانے والوں کا وظیفہ مقرر کیا گیا ہے مگر میرا یہ بیٹا ابھی دو سال کا بھی نہیں ہوا۔
ماں کا دودھ پیتا ہے تو ہم اس کا دودھ چھڑوا رہے ہیں آج سارا دن ماں نے اس کو دودھ نہیں پلایا جس کی وجہ سے یہ بچہ بلک بلک کر رو رہا ہے مگر ہم اس کو غذا کھلانا چاہتے ہیں تاکہ خلیفہ کی طرف سے وظیفے کے حقدار ہوجائیں وہ شخص جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ تھے یہ سن کر واپس لوٹ آئے واپس آکر بہت روئے اور دوسرے دن سے پیدا ہونے والے بچوں کا بھی وظیفہ مقرر کردیا مگر ہم اس کے برعکس جب اپنے حکمرانوں کا طرز عمل دیکھتے ہیں اور منہ سے اسلام کی سربلندی کے قصے سنتے ہیں تو قول و فعل کے تضاد کے جھمیلوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ کیا یہی اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کے حکمران ہیں جن کے پیش نظر صرف اور صرف ذاتی زندگی اور عیش و عشرت ہے۔
آپریشن جاری ہے لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر ملک کے مختلف علاقوں میں آرہے ہیں۔ اس وقت ملک کی صورت حال بہت خراب ہے مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے ایک وہ حکمران تھے جو بچے کے پیدا ہوتے دیکھ کر ہی وظیفہ مقرر کردیتے تھے ایک یہ حکمران ہیں جو کہتے ہیں ان پیدا ہونے والے بچوں کے منہ میں دودھ کا ایک قطرہ نہ جانے پائے۔ دو وقت کی روٹی کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا جا رہا ہے مگر وزیر خزانہ ہوں یا وزرائے اعلیٰ یا عوام کے منتخب نمائندگان ان سب کے پیش نظر اپنے ذاتی مسائل ہیں عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ہم جب بھی ان کی خبریں، تصاویر دیکھتے ہیں اور قیمتی کپڑوں، بیش قیمت رسٹ واچ، مہنگے جوتوں کو دیکھتے ہیں تو پچھلے دور کے بادشاہوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
ہمارے یہ حکمران نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ ان میں خوف خدا نہیں ہے اور نہ ہی یہ احساس کہ ہم ان عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوکر اس مسند اقتدار کا مزہ چکھ رہے ہیں انھوں نے تو اپنے کان اور آنکھیں عوام کے لیے بند کر لیے ہیں اس لیے عوام کے فائدے کے لیے نہ کوئی حکم جاری ہوتا ہے نہ کوئی سوچ ابھرتی ہے اس وقت چاروں طرف دیکھ لیں ہر سیاسی پارٹی اپنا ایجنڈا لیے ہوئے شور مچا رہی ہے کسی کو انقلاب لانا ہے تو کوئی پنکچر مافیا سے نجات چاہتا ہے تو کسی کو اپنا ہی رونا ہے مگر کسی ایک سیاسی پارٹی کے پیش نظر عوام کی بھوک عوام کے دکھوں کا ایجنڈا نہیں ہے۔
ہمارے یہ حکمران یہ سیاسی پارٹیاں صرف ہوس اقتدار، ہوس زر میں مبتلا ہیں ان کا اوڑھنا بچھونا صرف یہ ہے کہ اپنے سے طاقتور کے آگے جھک جاؤ اور اپنے سے کمزور پر گولیاں برسا دو، ساری سہولتیں اور آرام صرف حکمرانوں کے لیے ہی مختص ہے بقول وزیر خزانہ غربت کی لکیر کے نیچے جانے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ہمارے حکمرانوں سے یہ نہ ہوا کہ عوام دوست بجٹ تیار کر لیتے بجٹ میں حصہ ہے تو صرف ٹیکس کے لیے جو ان سے فوراً وصول کرلیا جاتا ہے مگر ٹیکس چور مافیا کی کارگزاری دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھاری سرمایہ دار جن کی ذاتی ملیں دبئی، انڈیا، لندن میں چل رہی ہیں وہ چند لاکھوں کا ٹیکس دے کر سمجھتے ہیں کہ بڑا تیر مار لیا اور یہ ٹیکس ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے سارا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔
اس غریب عوام کے لیے نہ صاف پانی ہے نہ تازہ خوراک 46 فیصد بچے مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ہیضہ، ہیپاٹائٹس، خون کی کمی کا شکار ہیں مگر علاج معالجہ بھی ان کی قسمتوں میں نہیں ہے لطف کی بات تو یہ ہے کہ ان حکمرانوں نے صحت کی مد میں جو بجٹ رکھا ہے وہ فی آدمی 147 روپے سالانہ ہے کس قدر مذاق اڑایا ہے غریبوں کی بے بسی کا کیا یہ حکمران اس رقم میں کسی معمولی بیماری کا علاج بھی کروا سکتے ہیں۔ ہر حکومت جو آتی ہے وہ یہ راگ الاپتی آتی ہے کہ سابقہ حکمرانوں کی نااہلیوں کی وجہ سے حکومت کا خزانہ خالی ہے پاکستان مشکلات کا شکار ہے عوام قربانی دیں وغیرہ وغیرہ مگر اس نظام کو بچانے ملک کو مشکل سے نکالنے کی بجائے وہ اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے الیکشن سے پہلے اعلان کیے تھے کہ وہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے ملک چور لوگوں کو چوک پر الٹا لٹکادیں گے مگر ہوا اس کے برعکس ان کی پالیسیوں کی اور بدانتظامی کی وجہ سے آج غریب عوام ہی لٹکے ہوئے ہیں کہاں تک کہوں کہاں تک سنوگے ان حکمرانوں کے ظلم کی تو ایک لمبی داستان ہے کہیں یہ عوام کی صحت کی مد میں رکھا جانے والا روپیہ اپنی حفاظت کے لیے بلٹ پروف گاڑیوں کی خرید پر لگا دیتے ہیں تو کہیں صاف پانی کا پیسہ ان کے محلات کی تزئین وآرائش میں لگ جاتا ہے کیونکہ ان کی جانیں قیمتی ہیں۔
یہ حکمران طبقہ ہے اس کو کچھ ہوگیا تو مملکت اسلامیہ پاکستان کا کیا ہوگا رہے عوام تو ان کا کام تو مرنا ہے کبھی بھوک و افلاس کے ہاتھوں تو کبھی سنگین بیماریوں کے ہاتھوں تو کبھی ملاوٹ زدہ خوراک کے ہاتھوں تو کبھی دہشت گردوں کی گولیوں سے تو کبھی اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں۔آخر میں ان تمام قارئین کا شکریہ جنھوں نے میری والدہ کے لیے دعائے مغفرت کی اللہ پاک سب کو جزائے خیر دے (آمین!)