فلسطینیوں کا ’’ہولو کاسٹ‘‘
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہزاروں نظمیں، ڈرامے اور ناول لکھوائے گئے اوراس واقعے کو ''ہولوکاسٹ'' کا نام دیا گیا۔ ہولو کاسٹ کے مرنے والوں کو اس قدر مقدس درجہ عطا کیا گیا کہ ان کے خلاف لب کشائی کرنے والا نفرت پھیلانے والا قرار دے کر قابل تعزیر بنادیا گیا۔ ہولوکاسٹ کی نہ صرف تردید کرنا جرم ٹھہرا، بلکہ یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ ''مقتولین'' کی ساٹھ لاکھ تعداد میں چند ایک کی کمی کرنا بھی قابل سزا جرم بنا دیا گیا۔
متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کردیے گئے۔ ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے۔ حالانکہ تحقیق کا دروازہ کبھی اور کسی ملک میں بند نہیں ہوتا، لیکن ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنا اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے ہیں۔
بہت سے ممالک میں ہولوکاسٹ پر زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی، صرف یورپ کے تقریباً تین درجن ممالک میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے، جس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ برطانیہ کی لبرل پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں صرف یہ لکھ دیا تھا کہ ''میں ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں کے لیے پیش آئے ناقابل یقین واقعات پڑھ کر غم زدہ ہوجاتا ہوں، لیکن یہودی جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے ہیں، وہ کیونکر فلسطینیوں کے خلاف مظالم ڈھا رہے ہیں۔''
اس بلاگ کے بعد ڈیوڈ وارڈ پر اس قدر دبائو بڑھا کہ اسے مجبوراً معافی مانگنا پڑی ۔ دوسری جانب ہولوکاسٹ کے حوالے سے اسرائیل کی پارلیمنٹ حکومت کو یہ اختیار دے چکی ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی،کسی بھی جگہ کوئی شخص اگر 60 لاکھ کی تعداد کو کم بتانے کی کوشش کرے،اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس ملک سے اسے نفرت پھیلانے کے جرم میں Hate Criminal کے طور پر مانگ سکتی ہے، گرفتار کرسکتی ہے، سزا دے سکتی ہے۔
عالمی برادری نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے بغیر تحقیق کیے سخت سے سخت تر قوانین بنا دیے، لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیا دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودی آباد بھی تھے یا نہیں؟اور جو آباد بھی تھے ان میں سے بیشتر کو ہٹلرکے حکم پر جنگ عظیم کے شروع ہونے سے پہلے ہی ملک بدر نہیں کردیا گیا تھا؟
عالمی برادری کی ناانصافی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف یہودیوں کے ''افسانوی واقعہ'' ہولوکاسٹ کے حوالے سے تقریباً پون صدی بعد بھی سخت قوانین نافذ ہیں، لیکن دوسری جانب اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انھی یہودیوں کے ہاتھوں گزشتہ 66 سالوں سے مظلوم فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ جاری ہے،انھیں تہہ و تیغ کیا جا رہا ہے، بمباری کرکے بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس سب کچھ کے بعد بھی عالمی برادری کی زبانیں گنگ ہیں، آخر کیوں؟
ایک طویل عرصے سے فلسطین پر قابض اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے،لیکن عالمی برادری نے اپنے لب سی لیے ہیں، آخر کیوں؟عالمی برادری کہاں ہے؟ یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین بنانے والے ممالک کیا اسرائیل سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فلسطینیوں پر کس جرم کی پاداش میں بربریت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے؟ گزشتہ دنوںنامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے جانے والے صرف تین یہودیوں کے بدلے سیکڑوں فلسطینیوں کو گرفتارکیا گیا۔ ایک فلسطینی نوجوان کو اغوا کر کے زندہ جلا دیا گیا اور پھر غزہ پر گولا بارود کی بارش کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ معصوم بچوں اور خواتین سمیت فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو شہید کیا گیا۔
غزہ میں انسانیت سوز اور نسل کش ظلم ڈھاتے ہوئے اسرائیل کو عالمی برادری کا رتی بھر خوف نہیں ہے۔ بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ''غزہ پر حملوں کو روکنے کے لیے ان پر کوئی عالمی دباؤ نہیں اور اگر کوئی ایسا دباؤ ڈالا گیا تو اس کی مزاحمت کی جائے گی اور غزہ پر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ حملے کریں گے۔'' حقیقت یہ ہے کہ روز اول سے ہی فلسطینیوں پر ظلم کرنا اسرائیل کا مقصد ٹھہرا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم منانم بیگن کی کتاب ''انقلاب'' میں یہ الفاظ درج ہیں کہ ''اے اسرائیلیو تم پر ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے میں کبھی نرم نہ پڑو اور ان پر ترس نہ کھائو،تاکہ ہم عربی کلچر نام کی چیز ختم کر دیں اور اس کے کھنڈروں پر اپنی تہذیب کھڑی کریں،فلسطینی محض کیڑے ہیں، جن کو ختم کر دینا چاہیے۔''
انسانیت سوز مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وقفے وقفے سے اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں پر بربریت کا سلسلہ تیزکردیا جاتا ہے، جو کہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ اب جہاں اسرائیل ہے، وہاں صدیوں تک فلسطین اور مسلمان تھے۔ 1948سے اسرائیل نے فلسطینیوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کر کے اسرائیل کے قیام کے لیے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، ان کی بستیوں کو تاراج کیا گیا اور انھیں دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ پڑوسی ملکوں میں ان کے کیمپوں کو وقتاً فوقتاً حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
2002 میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی کیمپ جنین کا 15دن تک محاصرہ اور اس پر ہوائی جہازوں اور ٹینکوں سے حملہ کرکے ایک ہزار فلسطینی شہید اور نہ جانے کتنے زخمی کیے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے 1948 میں دیریاسین کا قتل عام، 1956میں قصر قاسم کا قتل عام، 1982 میں صابرہ اور شتیلہ کا قتل عام، 1990میں مسجد اقصیٰ کا قتل عام، 1994 میں مسجد اقصیٰ کا دوسرا قتل عام اور 1996 میں مسجد ابراہیم کا قتل عام کیا۔ سر زمین انبیاء فلسطین میں اسرائیل گزشتہ 66 برسوں سے خون کی ندیاں بہا رہا ہے، لیکن عالمی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
عالمی سامراجی طاقتوں کے جہاں کہیں مفادات ہوتے ہیں وہاں تو جنگ سے لے کر مذاکرات اور کانفرنسوں سمیت ہر قسم کے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں، لیکن یہاں زبانیں گنگ ہیں۔ یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر شور مچانے والی عالمی برادری کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام پر ہمیشہ اسرائیلیوں کو قانون کے کٹہرے سے آزاد رکھا جاتا ہے۔
فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل عام پر اسرائیل کو نہ عالمی برادری کی کسی کارروائی کا خدشہ ہوتا ہے، نہ بڑی طاقتوں کی طرف سے کسی روک ٹوک کا اندیشہ ہوتا ہے،کیونکہ اسرائیل مغرب کا سرکش و مغرور بچہ بنا ہوا ہے، اسرائیل کو ظالمانہ کارروائیوں میں امریکا اور مغرب کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے، مغرب صہیونیت کے دفاع میں ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اسی لیے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتے ہوئے اسرائیل کو نہ کسی عالمی برادری کے دبائو کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عالمی قانون کا پاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کا تمام قوانین سے آزاد خیال کرتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے۔