اﷲ تعالیٰ نے اس زمین کو درختوں کے وجود و شادابی سے مزیّن کیا ہے اور جنگلوں کی ہریالی سے اس کرۂ ارض کو حسن و جمال بخشا ہے۔
قرآن مجید میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم:
’’بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعے خوش نما باغات (اور جنگلات) اگائے، جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا، کیا اﷲ تعالی کے سوا کوئی دوسرا خدا بھی (ان کاموں میں شریک) ہے؟ (نہیں) بل کہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلتے ہیں۔‘‘
یہ درخت بھی اپنے وجود کے شُکرانے کے طور پر اﷲ تعالی کے سامنے سر بہ سجود ہوتے اور سجدہ کرتے ہوئے مراسم عبودیت بجا لاتے ہیں، جس پر قرآن مجید میں بتایا گیا، مفہوم: ’’ستارے اور درخت (سب) اﷲ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔‘‘
سورہ حج میں اﷲ تعالی نے فرمایا، مفہوم:
’’کیا آپ دیکھتے نہیں ہوکہ اﷲ تعالی کے آگے سر بہ سجود ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سورج چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔ (بھی)‘‘
اسی طرح سورۃ لقمان میں اﷲ تعالی نے اپنی شان خداوندی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا مفہوم: ’’زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (روشنائی بن جائیں) جسے سات مزید سمندر روشنائی فراہم کریں تب بھی اﷲ تعالی کی نشانیاں (لکھتے ہوئے) ختم نہ ہوں، بے شک! اﷲ تعالی زبردست اور حکیم ہے۔‘‘ سورۃ یٰس میں اﷲ تعالی نے درختوں سے ایندھن کا کام لیتے ہوئے فرمایا، مفہوم:
’’وہی ہے جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولھے روشن کرتے ہو۔‘‘
درختوں کے بابرکت ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالی نے اپنے نُور کی تفہیم کے لیے ایک مقدس درخت کی مثال دی اور سورۃ نور میں فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالی آسمانوں اور زمین کا نُور ہے، اس کے نُور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں رکھا چراغ ہو، چراغ فانوس میں دھرا ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہُوا ستارہ، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو۔‘‘
کتنے ہی انبیائے علیہم السلام ہیں جن کی حالات زندگی میں درختوں کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنّت میں جگہ ملی تو اﷲ تعالی نے حکم دیا، مفہوم: ’’پھر ہم نے آدم سے کہا کہ آپ اور آپ کی زوجہ دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘ پھر شیطان نے ان پر حملہ کیا اور کہا، مفہوم: ’’پھر شیطان نے ان کو بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں۔
ان کے سامنے کھول دے۔ شیطان نے ان سے کہا: تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے، اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا: میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں، اس طرح دھوکا دے کر رفتہ رفتہ دونوں کو اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔ تب ان کے رب نے انہیں پکارا کہ میں نے تمہیں اس درخت سے روکا نہ تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
حضرت موسی علیہ السلام کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کا واقعہ ایک درخت سے منسوب ہے جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، مفہوم:
(حضرت موسیؑ) ’’وہاں (کوہ طور پر) پہنچے تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا: اے موسیؑ! میں اﷲ تعالی ہُوں سارے جہانوں کا رب۔‘‘
حضرت یونسؑ جب مچھلی کے پیٹ سے برآمد ہوئے تو ارشاد ہُوا، مفہوم:
’’آخرکار ہم نے انہیں بڑی ہی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا اور ان پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔‘‘
قرآن مجید نے محسن انسانیت ﷺ کی سیرۃ طیبہ میں بھی ایک درخت کا ذکر آیا ہے، مفہوم: ’’اﷲ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ ﷺ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں کا حال اﷲ تعالی کو معلوم تھا اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل کی اور ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی۔‘‘
آپ ﷺ چوں کہ کائنات کے لیے رحمۃ اللعالمین ہیں اس لیے آپ ﷺ نے رات کے اوقات میں درختوں کی کانٹ چھانٹ سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ درختوں، پودوں کے آرام کا وقت ہوتا ہے۔
اﷲ تعالی نے ایک اچھی اور عمدہ بات کو اچھے درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ ابراہیم میں فرمایا، مفہوم: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو اﷲ تعالی نے کلمۃ الطیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑیں زمین میں گہری جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اﷲ تعالی اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔‘‘
اس کے مقابلے میں بُری بات کی مثال بھی ایک درخت سے ہی دی اور اسی سورۃ میں فرمایا، مفہوم: ’’اور کلمۃ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں۔‘‘
اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی میں بھی درختوں کی مثالیں بھری ہیں۔ دوزخیوں کے لیے جس کانٹے دار درخت سے کھانے کا انتظام ہوگا اس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے بتایا، مفہوم: ’’پھر اے گم راہو اور جھٹلانے والو! تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والے ہو، اسی سے تم پیٹ بھروگے اور اوپر سے کھولتا ہُوا پانی۔‘‘
سورۃ صافات میں فرمایا، مفہوم: ’’تو یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟ ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے۔ وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہہ سے نکلتا ہے، اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔ جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے پھر اس پر پینے کے لیے کھولتا ہُوا پانی ملے گا۔‘‘ سورۃ دخان میں اس درخت کی مزید حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا مفہوم:
بے شک! زقوم کا درخت گناہ گار کا کھاجا ہوگا، تیل کی تلچھٹ جیسا، پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتا ہُوا پانی جوش کھاتا ہے، پکڑو اسے اور رگیدتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچ و بیچ۔‘‘
اﷲ تعالی ہمیں اس عذاب سے محروم رکھے، آمین۔
نیک لوگوں کو جہاں رکھا جائے گا وہ جگہ درختوں سے ہی مستعار ہے اور اسے جنت یعنی باغات کا نام دیا گیا ہے۔ سورۃ رعد میں اﷲ تعالی نے فرمایا، مفہوم:
’’خدا ترس لوگوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے، یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔‘‘
سورۃ رحمن میں کیا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے جنت کے باغات کا، مفہوم:
’’ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو اس کے لیے دو باغ ہیں۔ پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور۔ پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
دونوں باغوں میں دو چشمے رواں۔ پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں۔ پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑی ہوں گی۔ پس اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
قرآن مجید اور احادیث کے مجموعے جنت کے اندر باغات، ان کے پھل، ان پھلوں کے ذائقے اور ان سے پھوٹنے والی خوش بُو کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے اور درخت و باغات اور جنگلات فطرت کا مظہر ہیں۔ ماہرین ارضیات بتاتے ہیں ایک انسان کے مقابلے میں تین درخت ہوں تب اس زمین کی فضا کو خوش گوار رکھنا ممکن ہوجائے گا۔ اس طرح درختوں سے نکلنے والی آکسیجن جو انسانوں سمیت کل حیاتیاتی مخلوق کے لیے ضمانت حیات ہے، اس کی وافر مقدار میسر آسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی آلودگی جس سے باغات اور درختوں کی حیات کو شدید ترین خطرات لاحق ہو چکے ہیں سرمایہ دارانہ تہذیب کی کارستانیاں ہیں۔
دنیا بھر میں آبادی کو کم کرنا اور کارخانوں کو خوب بڑھانا ایک ایسا رویہ ہے جس سے جنگلاتی حیات ختم ہوتی چلی جا رہی ہے اور زندہ رہنے والی مخلوق کادم گھٹتا چلا جا رہا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات انسان کو فطرت کے قریب تر لاتی ہیں جب کہ سرمایہ دارانہ تہذیب کے خیالات فطرت سے متصادم ہیں اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔
درخت لگائیں، ثواب کمائیں اور آلودگی مٹائیں۔