مفاہمت
ماضی میں ہم نے بھٹو، بے نظیر ،نواز شریف کی سیاست ختم کرنے کی کوشش کی مگر نتیجہ ان کو کمزور نہیں کیا جاسکا
پاکستان کے عام آدمی کے مفادات کا تعلق قومی سطح پر مفاہمت اور امن کی سیاست کی پر ہے ۔مفاہمت اور امن کی ضرورت کو اقتدار کے کھیل تک محدود ہوکر دیکھنے کے بجائے اسے ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں دیکھا جانا چاہیے۔مگر ایسے لگتا ہے کہ قومی سیاست نہ صرف ڈیڈ لاک کا شکار ہے بلکہ بداعتمادی کے ماحول میں محاذآرائی ،ٹکراو، تناؤ بڑھ رہا ہے۔
سیاسی ،جمہوری ،آئینی اور قانونی اصول اور نظریات پیچھے رہ گئے ہیں جب کہ ذاتی خواہشات اور دشمنی کا ایجنڈا قومی سیاست کا حصہ بن گیا ہے ۔مسئلہ ایک یا دو افراد کے درمیان مفاہمت کا نہیں بلکہ ایک مجموعی مفاہمت کا جو پورے ریاستی و حکومتی یا سیاسی نظام کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر موجود سیاسی تقسیم کے خاتمہ کا سبب بن سکے ۔مگر ہماری ترجیحات مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اور زیادہ بگاڑ کو پیدا کرنا بن گیا ہے ۔
سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا یا اہل دانش یا اسٹیبلیشمنٹ سب ہی قومی سطح پر '' مفاہمت پر مبنی سیاست '' کی بات کرتے ہیں اور اسی کو وہ اپنا بڑا سیاسی ایجنڈا بھی قرار دیتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعی ریاستی اور حکومتی ترجیحات کا اہم حصہ ہے تو پھر عملی طور پر مفاہمت کی سیاست کا کھیل کمزور بنیادوں پر کیونکر کھڑا نظر آتا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے ہی انکاری ہے یا ان کے وجود کو ختم کرنے کو ہی اپنی ترجیحات کا حصہ بناتا ہے ۔مفاہمت کی سیاست چند بنیادی اصولوں پر کھڑی ہوتی ہے جن کو ہم مختلف امور کی بنیاد پر دیکھ سکتے ہیں ۔
ان میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام ، سیاسی وجود کی قبولیت ، محازآرائی تناو و ٹکراو کی بجائے مکالمہ اور بات چیت ، تنازعات کا خاتمہ ، الزام تراشیوں پر مبنی سیاست سے انکاری ، غداری اور ملک دشمنی جیسے فتووں سے گریز ،سیاسی حقوق کی قبولیت شامل ہے ۔اسی طرح مفاہمت کی سیاست میںافراد یا جماعتوں کے مقابلے میں ریاست،ملک ، عوام اور اداروں کے مفادات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جاتا ہے ۔لیکن ہم مفاہمت کی سیاست کو ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اورکسی کی حمایت اور مخالفت کو بنیاد بنا کر مفاہمت کی سیاست میںاپنا رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس وقت مسئلہ حکومت ، اسٹیبلیشمنٹ ، عدلیہ اور پی ٹی آئی یا عمران خان کے درمیان ٹکراو تک محدود نہیں بلکہ اس ٹکراو نے معاشرتی یا اداروں کی سطح پر جو خطرناک رائے عامہ پر مبنی سیاسی تقسیم پیدا کی ہے وہ ہمیں اجتماعیت کی بجائے انفرادیت اور ذاتی مفادات کی سیاست کی طرف دکھیل رہی ہے ۔ماضی میں ہم نے بھٹو، بے نظیر ،نواز شریف کی سیاست ختم کرنے کی کوشش کی مگر نتیجہ ان کو کمزور نہیں کیا جاسکا اورآج ہم جس شدت کے ساتھ اسی پرانے کھیل کی بنیاد پر عمران خان کو ختم کرنے یا دیوار سے لگانا چاہتے ہیں تو نتیجہ ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔سیاسی محاذ پر جب سیاست اور جمہوریت کا مقابلہ غیر سیاسی حکمت عملیوں یا طاقت اور ڈنڈے کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کی جائے تو ریاست اور حکمرانی کا نظام مزید مشکلات کا شکا رہوگا۔
اس حکمت عملی کی بنیاد پر صرف سیاست اور جمہوریت کا نظام ہی کمزور نہیں ہوگا بلکہ معیشت اور سیکیورٹی پر مبنی نظام کو بھی اس غیر مفاہمت سیاست کی منفی طور بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔یہ جو مفاہمت کی سیاست میں ہم ایک دوسرے پراپنا بڑا سیاسی غلبہ چاہتے ہیں یا کسی کو مفاہمت کے نام پر سرنڈر کروانا یا اس تاثر کو بنانا کہ ہمیں فتح او رمخالفین کو شکست کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا نتیجہ غیر حقیقی مفاہمت کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
یہ کھیل مفاہمت نہیں بلکہ جبر کی بنیاد پر راستہ نکالنے کا نام ہے اور اس سے سیاسی وجمہوری عمل ایک بڑے ڈیڈ لاک کا حصہ بن جاتا ہے ۔ایک طرف مفاہمت کا کھیل اور دوری طرف اپنے سیاسی مخالفین کو ملک دشمن، غدار یا عالمی قوتوں یاملک دشمنوں کے ایجنٹ کے طور پر پیش کرکے کونسی مفاہمت آگ بڑھ سکتی ہے ۔اجتماعی طور پر تمام فریقوں کے موجودہ طرز عمل کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کی جاسکتی او رذاتیات پر مبنی سیاست اور اس سے جڑے فیصلے ہماری سیاست کے دروازوں کوبند کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موجودہ حالات میں اور مفاہمت کی سیاست سے انکاری یا سیاسی دشمنی کے کھیل کی بنیاد پر ہم جمہوریت اور سیاست کی سپیس کو کم کررہے ہیں ۔انسانی حقوق،فکری آزادیاں ، متبادل آواز کو قبول کرنے یا ان کی رائے کو احترام نہ دینے کی سوچ یا بنیادی انسانی حقوق پر قدغنوں کا کھیل کمزور اور ایک کنڑولڈ نظام جہاں جبر نمایاں ہو اسے بالادستی حاصل ہورہی ہے ۔ اسی طرح اداروں کے مقابلے میں طاقت ور افراد کی اجارہ داری کے کھیل نے بھی قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی اہمیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی سب ہی قوتوں سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ان ہی غلطیوںکی وجہ سے ہم بطور ریاست مختلف نوعیت کے چیلنجز یا مسائل کا شکار ہیں ۔ہماری ریاست اور حکمرانی کے نظام پر سوالات کی ایک لمبی بوچھاڑ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر موجود ہے او رہمیں اس سے باہرنکلنے کا راستہ درکار ہے ۔جو بھی ریاست ماضی میں رہ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتی ہے اسے سوائے ناکامی کے کچھ نہیںملتا بلکہ اس کے برعکس حکمت عملی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے پر مبنی ہونی چاہیے ۔مگر ہم خود ہی مسائل کی وجہ بنے ہوئے ہیں اور اپنی اناوں کے خول میں قید ہیں یا ہمارے ذاتی مفادات ہمیں مفاہمت کی سیاست سے انکار کی طرف لے کر جاتے ہیں ۔ملک نے اگر واقعی آگے بڑھنا ہے تو ہم سب کو اپنے مفادات کے خول سے باہر نکلنا ہوگا ۔
عمران خان ہو ں یا حکومت یا اسٹیبلیشمنٹ سب کو قومی سیاست میں ایک درمیانی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔درمیانی راستہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کی قبولیت سے جڑا ہوا ہے ۔اگر اسٹیبلیشمنٹ یا حکومت طاقت ور ہیں تو عمران خان بھی کم پاپولر یا کمزور نہیں ۔ ان سب کو اپنی توانیاں اور طاقت سمیت عوامی حمایت کو ریاست کے مفاد کے پیش نظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔سیاسی انتقام کے کھیل نے ماضی میں بھی ہمیں نقصان پہنچایا اور آج بھی سیاسی انتقام کا کھیل قومی سیاست کو ہر محاذ پر تقسیم کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔یہ جو سوچ ہے نہ کہ ہم ہی طاقت ور ہیں او رہمارے پیچھے اسٹیبلیشمنٹ کھڑی ہے اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔کیونکہ جیسے ہی سیاسی حرکیات بدلتی ہیں تو سیاست کا سارا منظرنامہ بھی بدل جاتا ہے اور لوگ ہیرو سے زیرو ہوجاتے ہیں ۔
اس کا ایک حل یہ ہی ہے کہ عمران خان سمیت سب ہی فریق اپنی اپنی سیاسی تلخیوں کوکم کریں اور ایک دوسرے کی قبولیت کے لیے اپنے اندر جگہ پیدا کریں ۔یہاں مقصد کسی کو شکست دینا یا ان کو دیوار سے لگانا نہیں ہونا چاہیے۔آج نہیں تو کل ہمیں ہر صورت میں مفاہمت ہی کی طرف عملا بڑھنا ہے ۔پہلے ہی ہم مفاہمت کی سیاست میں کافی دیر کرچکے ہیں اور اگر ہم نے اس عمل میں مزید دیر کی تو پھر نہ صرف مفاہمت کی سیاست کو نقصان پہنچے گا بلکہ ریاست کے مفادات کی بھی ایک بڑی قیمت ہمیں ادا کرنا پڑے گی ۔پہلے ہی ہم کافی دیر کرچکے ہیں او رجس انداز سے اس نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے یا جو جبر کا راستہ اختیا رکیا جارہا وہ چلانے والوں پر بھی خود چلانے والوں کے لیے بھی ایک بڑا بوجھ بن گیا ہے ۔کیونکہ ہمارا داخلی ،علاقائی اور عالمی سطح پر موجود بحران کی نوعیت معمولی نہیں بلکہ سنگین صورتحال اختیار کرگئی ہے ۔
علاقائی محاذ پر جو سیکیورٹی اور معیشت کے تناظر میں ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کی حکمت عملی سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کا کھیل کی مدد سے ممکن نہیں ہوگا۔ جب ریاست او رحکومت آئین و قانون کو پس پشت ڈال کریا سیاسی و جمہوری اصولوں کو قربان کرکے محض طاقت پر مبنی حکمرانی کے نظام کو طاقت دیں گے تو لوگوں میں غیر یقینی صورتحال بھی پیدا ہوگی اور ریاست و حکومتی نظام پر ان کا اعتماد بھی کمزور ہوگا۔پہلے ہی مختلف فریق میں ایک دوسرے کے خلاف خلیج بڑھ رہی ہے او رلوگوں کو لگتا ہے کہ ریاست وحکمرانی کا نظام عوام کے مقابلے میں خواص کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اس لیے مفاہمت کی کنجی کو اختیار کریں اور یہ ہی کنجی ہمیں بحران یا دلدل سے باہر نکالنے میں مدد دے سکتی ہے ۔