ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورۂ پاکستان

مغربی ممالک میں حقوق انسانی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے لیکن آزادی اظہار کے نام پر وہاں جو کلچر رائج ہو گیا ہے


عثمان دموہی October 11, 2024

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان ہم پاکستانیوں کے لیے باعث فخر ہے کہ وہ اس وقت پورے عالم اسلام میں ایک نڈر، باعمل اور دینی معلومات کا خزانہ ہیں۔ آپ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے اتحاد کے داعی ہیں۔ آپ مسلمانوں کو باہم متحد کرنے اور اسلام کی تبلیغ کے لیے ملکوں ملکوں سفر کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت بدقسمتی سے مغربی ممالک میں خاص طور پر اسلامو فوبیا کا مرض عام شکل اختیار کر گیا ہے۔

ویسے تو کسی بھی مذہب کی توہین کرنا ہر معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے، پھر اقوام متحدہ بھی اس کی اجازت نہیں دیتا مگر صد افسوس کہ یورپ میں بعض ایسے بہکے ہوئے لوگ موجود ہیں جو نہ خود اپنے مذہب کی عزت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کو اہمیت دیتے ہیں اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں بھی اس قسم کی حرکت پر کوئی خاص توجہ مرکوز نہیں کرتیں اور ان کی اسی نرمی کی وجہ سے ہی یہ مرض مزید پھیل رہا ہے۔ گوکہ یورپ کے تمام ممالک ترقی یافتہ ہیں اور انھیں دیگر اقوام کے مقابلے میں زیادہ مہذب سمجھا جاتا ہے مگر اسے کیا کہیے کہ سویڈن، ناروے اور ہالینڈ جیسے ممالک میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ' ایسے واقعات کے وقت وہاں پولیس بھی موجود ہوتی ہے مگر شرپسندوں کو روکنے کی بجائے انکی حفاظت کرتے ہیں۔ بعض دفعہ تو اس قسم کے توہین آمیز واقعات وہاں کی عدالتوں کے حکم پر بھی سرزد ہوئے ہیں۔

مغربی ممالک میں حقوق انسانی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے لیکن آزادی اظہار کے نام پر وہاں جو کلچر رائج ہو گیا ہے اس کے نقصانات بھی سامنے آ گئے ہیں۔ بھارت میں بھی اقلیتوں کے خلاف مظالم مسلسل ہوتے رہتے ہیں ۔ جب سے بھارت میں راشٹریا سیوک سنگھ (RSS) کے سیاسی ونگ بھارتی جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے وہاں مسلمانوں کے خلاف بھرپور مہم جاری ہے، وہاں مساجد کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

مسلمان اقلیت کو وہاں جتنا دبایا جا رہا ہے اس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی، بھارت میں ہندوتوا کا پرچار عام ہے اور کسی دوسرے مذہب کے پرچار کی اجازت نہیں ہے جب کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ اس نام نہاد سیکولر ملک میں مسلمانوں کو اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دینے کے لیے مدرسے کھولنے پر پابندی ہے۔ کوئی مدرسہ کیا مسجد بھی حکومت کی اجازت کے بغیر قائم نہیں کی جاسکتی۔ مسلمانوں میں مذہبی تعلیمی فقدان کی وجہ سے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے وہاں تبلیغی لیکچرز کا آغاز کیا تھا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے علاوہ غیر مذاہب کے پیروکاروں میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں انھیں دور کرنا تھا۔ان کے اجتماعات میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مذاہب کے لوگ بھی شریک ہوتے تھے۔ آپ نے پیس ٹی وی کے نام سے ایک اسلامی تعلیمات کا چینل بھی قائم کیا ہے جو اسلامی تعلیمات کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک 1965،میں بمبئی میں پیدا ہوا۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے والد عبدالکریم نائیک بھی ایک غیور مسلمان تھے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مسلمانان ہند کو، ہندوتوا کے پراپیگنڈے سے محفوظ بنانے کے لیے اسلامی نظریات، تاریخ اور اقدار سے روشناس کرانے کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔ آپ کو نہ صرف قرآن مجید اور احادیث پر ملکہ حاصل ہے بلکہ آپ نے ہندو، عیسائی، یہودی اور بدھ مذہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ آپ نے 1994 سے اپنی تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت اجتماعات منعقد کرنا شروع کیے تھے جو اتنے مقبول ہوئے کہ نہ صرف بھارت کے دور دراز شہروں سے بلکہ غیر ممالک سے لوگ ان میں شرکت کرنے کے لیے جوق در جوق آتے تھے۔ آپ کے دست مبارک پر ہزاروں ہندو مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ زور و شور سے جاری تھا کہ مودی کی متعصب حکومت اسے برداشت نہ کر سکی اور اس نے اس سلسلے کو روکنے کے لیے پہلے توتشدد کا سہارا لیا، جب کامیابی نہ ملی تو ان اجتماعات پر پابندی لگا دی اور ڈاکٹر صاحب پر طرح طرح کے مقدمات دائر کر دیے۔ ان میں ایک مقدمہ منی لانڈرنگ کا بھی تھا۔

بی جے پی کی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں سے تنگ آ کر بالآخر آپ نے ہندوستان چھوڑ دیا اور ملائیشیا میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ اس وقت آپ پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا مشن انجام دے رہے ہیں۔ آپ کا حالیہ پاکستان کا دورہ بہت کامیاب رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے آپ کے پاکستان کے دورے پر بھی تنقید کی جس کا ہماری وزارت خارجہ نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ اس وقت ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کے ایک بڑے مبلغ ہیں اور ان کی دشمنوں سے حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے ان کی مہمان نوازی کا نہ صرف حق ادا کر دیا ہے بلکہ خود کو اسلام کا ایک سچا خادم ثابت کر دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔