سعودی سرمایہ کاری کے معیشت پر مثبت اثرات
بلاشبہ سعودی عرب معاشی استحکام میں پاکستان کا شراکت دار ہے
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 2.2 ارب ڈالر کے 28 معاہدوں پر دستخط ہوگئے۔ معاہدوں پر دستخط کی تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم شہباز شریف تھے، تقریب میں سعودی سرمایہ کار و کاروباری شخصیات، پاکستان کی صف اول کی تجارتی کمپنیوں کے سربراہان اور اعلیٰ حکومتی شخصیات نے شرکت کی۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ سعودی وزیر سرمایہ کاری کی سربراہی میں وفد کا پاکستان کا دورہ اہمیت کا حامل ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے لیے سعودی عرب، چین اور یو اے ای کے تعاون کے ممنون ہیں۔
بلاشبہ سعودی عرب معاشی استحکام میں پاکستان کا شراکت دار ہے، اور اس کی پچاس سے زائد کمپنیاں پاکستان میں کاروباری مواقع پر بات چیت کا حصہ بن رہی ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی وہ اپنی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے، یہ جذبہ دوستی کی دنیا میں ایک بہترین اور قابل تقلید مثال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں شہباز شریف کی حکومت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور ملکی معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر چڑھانے میں کامیاب رہی ہے۔
درحقیقت موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو سہارا دینے اور پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سخت فیصلے کیے ہیں۔ آئی ایم ایف کا پروگرام جو تعطل کا شکار تھا اس کو دوبارہ شروع کرانے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بھی قبول کیا، اور تین سالہ پروگرام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسری جانب زراعت، مویشی بانی، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں اصلاحات لا کر ان کو ترقی دینے اور ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے کے حوالے سے ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔
اسمگلنگ کی روک تھام، ٹیکس چوروں اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی اور زرعی پیداوار بالخصوص کپاس کی پیداوار میں اضافہ اور گندم کی موجودہ فصل کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کے حوالے سے ایس آئی ایف سی کے مثبت کردار کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے، ہمارے لیے منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانا ضروری ہو گا۔ گزشتہ روز طے پانے والے معاہدے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سعودیہ نے پاکستانیوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت کے مواقعے فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے جس سے نہ صرف بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی، بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی وطن عزیز کو حاصل ہوگا ، یعنی ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوگا، جس کے ملکی معیشت پر مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
سعودیہ سمیت خلیجی ممالک ، وسطی ایشیائی ریاستوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہونا اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ دنیا کے ممالک پاکستان پر اپنے اعتماد اور بھروسے کا اظہار کررہے ہیں جو کہ ملکی معیشت کے لیے مژدہ جانفزا ہے۔ دوسری جانب چند روز بعد اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے جا رہا ہے، جو کہ خطے کی ایک بڑی تنظیم ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک کی جانب سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع تر امکانات روشن ہوجائیں گے، کیونکہ پاکستان کا بنیادی ہدف بیرونی سرمایہ کاری کو لانا تھا، جسے میں اسے بتدریج اور مرحلہ وار کامیابی ملی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایک ایسی صنعتی پالیسی چاہیے جو ہماری مصنوعات کو برآمدات کے لیے عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنائے ۔
دوسری جانب یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اضافے کے بعد 10 ارب 80 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ زرمبادلہ کے قومی ذخائر کا حجم 4 اکتوبر کو مجموعی طور پر 16 ارب 4 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گیا ہے، جس میں کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 23 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور استحکام آنا بھی معیشت کی بہتری کا مثبت اشارہ ہے۔
شعبہ توانائی کے حوالے سے گزشتہ روز اہم خبر سامنے آئی ہے کہ حکومت نے 5 نجی کمپنیوں کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدے ختم کر دیے ہیں، جن میں ملک کی سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ بھی شامل ہے، جو 2027 تک جاری رہنا چاہیے تھا۔ یہ خبر وزیر توانائی اویس لغاری کے گزشتہ ماہ رائٹرز کو دیے گئے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ حکومت بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کے لیے آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کررہی ہے کیونکہ گھرانوں اور کاروباری اداروں کو توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔
ہم اس حقیقت سے واقف ہیں شعبہ توانائی کی وجہ سے ملک پر گردشی قرضوں کا بہت زیادہ بوجھ ہے، آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی یا پھر از سرنو معاہدوں کی وجہ سے جہاں گردشی قرضوں کا بوجھ کم ہوگا ، وہیں بجلی کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں میں فی یونٹ کی سطح پر کمی سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا، ہم ان سطور کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ بجلی خریداری کے معاہدے ختم ہونے سے قومی خزانے کو جو بچت ہوگی ، اس میں سے عوام کو بھی ریلیف فراہم کیا جائے۔
آئی پی پیز کے ہماری معیشت پر گہرے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم حکومت پاکستان سے ان سطور کے ذریعے جرات مندانہ اور اختراعی اقدام کی سفارش کرسکتے ہیں تاکہ ایک منصفانہ اور دوستانہ معاہدے کے ذریعے اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔ موجودہ صورتحال آئی پی پیز کے مفاد میں بھی نہیں کیونکہ صارفین یا حکومت کی جانب سے انھیں ادائیگیاں اب ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس کتابوں میں بڑے منافعے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ ان کی تجارتی قابل وصول اور واجب الادا رقوم بھی بہت زیادہ ہیں۔
اس کے علاوہ، بجلی کی مانگ میں کمی کی وجہ سے آئی پی پیز کی آمدنی میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی مینوفیکچرنگ صنعت ختم ہو رہی ہے، جو مینوفیکچرنگ کمپنیاں اب بھی منافع کما رہی ہیں، وہ اپنے منافع سے دیگر شعبوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ حکومت کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے تمام کاروباری خطرات اور اخراجات کو صارفین اور ٹیکس دہندگان پر منتقل کرتے ہیں، اگرچہ معاہدوں سے پیچھے ہٹنا پسندیدہ نہیں ہے، لیکن مسئلے کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہماری پہلی ترجیح ایک باہمی رضامندی پر مبنی حل ہونا چاہیے جس کا مقصد خطرات اور فوائد کے اشتراک میں توازن پیدا کرنا ہو۔ آج بھی، حکومت آئی پی پیز کو بعض شرائط تبدیل کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے، جیسے کہ انڈیکسیشن پر حد مقرر کرنا، خاص طور پر کیپسٹی پیمنٹس کے لیے۔ کم از کم پاکستان کی ملکیت والے آئی پی پیز کے لیے حکومت کی ذمے داریوں کو کم کرنا ممکن ہے۔ دوسرا، نیپرا کو ٹیرف ریٹس میں نظرثانی کے لیے معیارات کی سفارش کرنی چاہیے اور پروڈیوسر اور صارف کے مفادات کے درمیان توازن تلاش کرنا چاہیے۔ تیسرا، حکومت اور نیپرا کو بجلی خریداری کے معاہدوں میں تمام توسیعات کو روکنا چاہیے۔
عالمی سطح پر کموڈٹی کی قیمتوں میں بھی کمی آ رہی ہے، جو مہنگائی میں اضافے کے بغیر مزید مالیاتی گنجائش فراہم کر سکتی ہے۔ تیل کی قیمتیں تیزی سے کم ہو رہی ہیں، جس سے صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ کیے بغیر حکومت کو پٹرولیم لیوی بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ مہنگائی میں کمی اور بیرونی کھاتے میں استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ اس سے اسٹیٹ بینک کو کرنسی کی قدر کم کیے بغیر سود کی شرحیں کم کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
فیڈرل ریزرو کی جارحانہ شرحوں میں کمی بھی اس مثبت رفتار میں حصہ ڈال رہی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ماضی قریب کے مقابلے میں موجودہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ترقی کے حالات سازگار نظر آتے ہیں۔ تاہم، پائیدار ترقی کے حصول کے لیے توانائی کی قیمتیں، ٹیکس اور سیاسی استحکام جیسے تین عوامل پر توجہ دینا ضروری ہے۔ درحقیقت بیرونی سرمایہ کاری کے آیندہ مہینوں میں حوصلہ افزا نتائج سامنے آئیں گے، بلاشبہ معیشت اب درست سمت میں گامزن ہوچکی ہے اور یہ سفر مزید تیز رفتاری سے جاری رہنا چاہیے، تاکہ پاکستان خطے میں ایک طاقت ور معاشی قوت بن کر ابھرے۔