پڑوسی تبدیل نہیں ہوسکتے
1947 سے 2024 تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کبھی اتنی دوری نہیں آئی تھی
بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی شنگھائی تعاون کونسل کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آمد دونوں طرف کے امن کے خواہاں لوگوں کے لیے ایک امید افزاء خبر ہے، اگر اس سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم مودی بھی شرکت کرتے تو دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا عمل تیز ہوجاتا۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے بھارت سے کلائمیٹ ڈپلومیسی کی تجویز پیش کر کے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ایک نئے دروازے کو کھولا ہے جوکہ قابلِ رشک عمل ہے۔
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ سال مئی میں بھارت کے ساحلی شہر گوا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی تھی مگر پھر پاکستان میں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو جاری نہ رکھ سکی۔ دوسری طرف نئی دہلی کی دائیں بازو اور مذہبی انتہا پسندوں پر مشتمل حکومت نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی۔
1947 سے 2024 تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کبھی اتنی دوری نہیں آئی تھی جتنی تحریک انصاف کی حکومت میں آئی جب بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا اور کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت نے بھارت سے تجارت ختم کردی تھی اور دونوں ممالک کے ہائی کمشنروں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا گیا تھا۔
اسلام آباد اور نئی دہلی میں دونوں ممالک کے ہائی کمیشن کا بیشتر عملہ واپس چلا گیا تھا، بھارت و پاکستان نے دونوں ممالک کی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی۔ بھارت مذہبی انتہا پسندوں کے دباؤ پر پاکستانی فنکاروں پر بھارت آمد اور فلموں اور کنسرٹ میں کام کرنے پر عملی طور پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کے قدیم اتحادیوں سعودی عرب اور متحدہ امارات اور بھارت کے درمیان سرمایہ کاری اور صنعتی منصوبوں کے لیے اربوں ڈالرکے معاہدے ہوئے تھے تو ان دونوں مسلمان ممالک نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ اب تو یو اے ای نے اپنی ایٹمی تنصیبات کا انتظام بھی بھارتی کمپنیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے خلاف اپنے دوست ملک سمیت دیگر ممالک کو ہم نوا بنانے کے لیے سفارتی مہم چلائی تھی مگر دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کی بناء پر عمران خان کی حکومت کو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ مگر دوسری طرف بھارت سے تعلقات ختم کرنے کے دباؤ کا نقصان پاکستان کو ہوا۔ بھارت نے میڈیکل کے شعبے میں بے انتہا ترقی کی ہے۔ نئی دہلی، ممبئی اور بنگلور وغیرہ میں اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال قائم ہیں۔ ان اسپتالوں میں یورپ اور امریکا کے اسپتالوں کے مقابلے میں سستا علاج ہوتا ہے۔
جب ہائی کمیشن کا درجہ کم ہوا تو بھارت نے پاکستان کے شہریوں کی ویزوں کی درخواستوں کو التواء میں ڈالنا شروع کیا، وہ خوش نصیب تھے جنھیں موذی امراض کے علاج کے لیے بھارت جانے کا ویزا ملا۔ ان میں ایک دو تو وہ تھے جو دیر سے بھارت پہنچنے کی بناء پر زندہ نہ بچ سکے مگر کئی ایسے افراد ہیں جو بھارت سے صحت مند ہو کر واپس آئے۔ تجارت پر پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ بھارت میں ادویات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والا خام مال چین اور دیگر ممالک سے سستا ملتا ہے۔ تجارت بند ہونے سے خام مال کی درآمد رک گئی۔ کچھ تاجر دبئی کے راستے یہ خام مال لاتے ہیں جو اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ بھارت سب سے زیادہ ویکسین تیارکرتا ہے۔ تجارتی پابندیوں کی بناء پر کتے کے کاٹنے کے مرض کی ویکسین ناپید ہوگئی۔
سندھ اور بلوچستان میں صورتحال زیادہ خراب ہوئی، اگر بھارت سے ویکسین درآمد کی جاتی رہی تو پھر ویکسین بازار میں آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔ شوگر کے لیے انسولین اور دل کے امراض کی ادویات کی درآمد رک گئی۔ دوسری طرف ڈالر کی قیمت بہت بڑھ گئی جس کے نتیجے میں پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جب حکومت نے فارماسوٹیکل کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں کمی کے لیے کہا تو انتہائی اہم امراض کی ادویات بازار سے غائب ہونا معمول بن گیا، اگر بھارت سے ادویات درآمد کی جاتیں تو ادویات کی قیمتیں نہیں بڑھتیں۔ گزشتہ سال ملک میں گندم، دالوں، سبزیوں اور گوشت کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا، اگر بھارت سے ان اشیاء کو درآمد کرنے کی اجازت ہوتی تو مہنگائی اتنی نہیں بڑھتی جتنی بڑھ گئی۔
اس کے ساتھ ہی بھارت سے اخبارات اور کتابوں کی درآمد پر بھی پابندی لگادی گئی۔ بھارت میں ہر موضوع پر سستی اور معیاری کتابیں شایع ہوتی ہیں۔ مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ لاہور اور کراچی کے بعض بازاروں میں بھارتی سامان مہنگے داموں مل جاتا ہے مگر دونوں طرف سے اسمگلروں کو بھی کتابوں سے عدم دلچسپی ہے، اس بناء پر اسمگلنگ کے سامان میں کتابیں شامل نہیں ہوتیں۔ اس سال ملک میں کپاس کی فصل انتہائی کم ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل ملز کے بند ہونے کا رجحان تقویت پا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیکسٹائل ملوں اور پاور لومز کے مالکان کا کہنا ہے کہ چین اور دیگر ممالک سے درآمد کی جانے والی کپاس مہنگی ہے جس کی بناء پر اشیاء کی لاگت بہت بڑھ جاتی ہے، اگر فوری طور پر بھارت سے کپاس درآمد کی جائے تو ٹیکسٹائل کی صنعت کا بحران ختم ہوسکتا ہے۔
برسوں سے پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مقابلے اپنے اپنے وطن میں منعقد نہیں ہوئے۔ یہ مقابلے دبئی اور برطانیہ میں منعقد ہوئے، اب تو امریکا میں بھی پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا مگر ان مقابلوں سے دونوں ممالک کی ایلیٹ ہی لطف اندوز ہوسکی، اگر پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں میں دونوں ممالک کی ٹیمیں کرکٹ میچ میں حصہ لیں تو دونوں ممالک کے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے شائقین بھی ان کھیلوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ بھارت کو پاکستان میں ہونے والی چیمپیئن ٹرافی میں اپنی ٹیم ضرور بھیجنی چاہیے۔
اس دوران بھارت میں بھی انتہا پسند گروہوں نے پاکستانی فلموں کی نمائش پر زبردستی پابندی عائد کرائی ہے۔ اس ماہ مشہور فلم '' لیجینڈ آف مولا جٹ'' بھارتی سینما میں ریلیز ہو رہی ہے۔ بھارت میں انتہاپسند مذہبی گروہ پاکستان سے تعلقات معمول پر لانے کی ہر کوشش کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں مگر پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح اور بھارت کے بانی مہاتما گاندھی ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے حق میں تھے۔ بیرسٹر جناح نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایسے ہی ہونگے جیسے امریکا اور کینیڈا کے تعلقات۔ پھر جب بیرسٹر جناح گورنر جنرل بنے اور نئی دہلی میں مہاتما گاندھی کو قتل کردیا گیا تو بیرسٹر جناح کے حکم پر پاکستان کا پرچم سرنگوں کردیا گیا تھا اور سوگ میں عام تعطیل کردی گئی تھی۔ مہاتما گاندھی اکتوبر کے مہینے میں پیدا ہوئے تھے۔
مہاتما گاندھی نے پاکستانی اثاثوں کی پاکستان کو واپسی کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی۔ گاندھی نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ پاکستانی پنجاب کے شہروں اور گاؤں میں جا کر قیام کریں گے۔ وہ اس طرح ہندو مسلمان دشمنی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ گاندھی کا یہ اعلان ان کی ہلاکت کی وجہ بنا۔ ایک انتہا پسند ہندو نے انھیں قتل کردیا۔ پاکستان اور بھارت پڑوسی ہیں، پڑوسی تبدیل نہیں ہوسکتے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو اس خطے کے عظیم مفاد میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بنیادی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ غربت کے خاتمے کی مہم کو تقویت ملے۔