سیاہ فیصلے
ہمارے سماج میں صدیوں پہلے سے ناکارہ یا وقت پر کام نہ کرنے والوں کو کہیں کلموئی سے تشبیہ دی جاتی ہے
متحدہ ہندوستان سے پاکستان بننے کے سفر میں ہمارے سماج کے طور طریقوں میں طویل عرصے سے ساس اور بہو کے رشتے میں کلموئی ہمیشہ بہو ٹھہرائی جاتی ہے،ماں بیٹی کے رشتے میں کلموئی بیٹی قرار پاتی ہے اور باپ کے لیے بیٹا ہی ہمیشہ کلموئا تصور کیا جاتا ہے جبکہ لاقانونیت اور انتشار پھیلانے والوں کے نزدیک متوازن انصاف ہی کلموئا نظر آتا ہے،ناکارہ اور ناہنجار کے نکتہ نظر سے کارآمد قسم کے کلموئے کا وجود بے کار اور بے سود قرار پاتا ہے اور اب تو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں وہی کلموئا ہے جو نہ میم بنا سکے اور نہ ہی فراوانی سے ٹک ٹاک کرسکے اور نہ ہی موبائل پوسٹ کے ذریعے جھوٹ اور فریب کو سچ ایسا ثابت کردے۔
جدید دور میں کہی جانے والی سیاست کے بھی چلن اب وی لاگر اور ٹویٹر کی پوسٹ طے کرنے لگے ہیں ،ان وی لاگر کے نزدیک وہ افراد کلموئے ہیں جو ان کی بات پر یقین نہ کریں یا ان کے جھوٹ کو سچ نہ سمجھیں،اب آپ خود دیکھ لیں کہ امریکا کا کلموئا نسل پرست ٹرمپ ہیرو ہے تو انڈیا کا نسل کش مودی اوتار اور پاکستان کا ہر وہ سیاستدان اور غیر سیاستدان جو انتشار اور افراتفری پیدا کرے ۔
ہمارے سماج میں صدیوں پہلے سے ناکارہ یا وقت پر کام نہ کرنے والوں کو کہیں کلموئی سے تشبیہ دی جاتی ہے اور کہیں وہ کلموئا ٹھہرتا ہے،آج کل ہمارے نظام انصاف میں آئین و انصاف پر مبنی فیصلے ایسے قرار پا رہے ہیں جبکہ مرضی و منشا سے خواہشات پر مبنی آئین کو تحریف کرنے کے فیصلوں کو حق اور سچ سمجھنے کے لیے وی لاگ ٹوئیٹر اور من پسند پوسٹ ذریعے درست قرار دے رہے ہیں،ہمارے ہاں آجکل سماجی انتشاریوں کو آئین و قانون کی رو سے کیے گئے فیصلوں کو ''ڈالری انتشار'' کی آڑ میں ساس بہو کی لڑائی میں جھونک کر اسے ''کلموئا فیصلہ'' کہہ دیاجاتا ہے،جبکہ یہی انتشاری گروہ دوسری جانب آئین و قانون کو نہ سمجھنے کی ضرورت پر زور دیے جارہے ہیں،لگتا ہے کہ ٹک ٹاکر کا یہ طبقہ پورے سماج کو کلموئا کرکے ہی چھوڑے گا کہ بقول مرزا غالب!
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اب اس مرحلے پر ''کلموئا سماج'' جائے تو جائے کہاں،یہ سوال بہت سے سماج کے افراد کو گھن کی طرح کھائے جارہا ہے کہ انہیں یا ان کی نسل کو کس جانب لے جایا جا رہا ہے،کہیں بانسری ساز اپنی پوری سازندوں کی ٹیم کے ساتھ ''پیڈو فیلیا'' پر ابہام پیدا کروا رہا ہے تو کہیں عورت کو دیکھ کر مرد میں نفسیاتی ہیجان پیدا نہ ہونے پر سماج کے مرد کو نفسیاتی مریض بنانے کی کوشش میں راگ الاپے جارہے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ملک ''سماجی تجربہ گاہ'' ہے جہاں جمہوریت اور جمہوری سوچ کو ناتواں کرنے کے لیے کبھی مذہب کی چادر پہنائی جائے تو کبھی دہشت اور وحشت کے وحشی سماج کے مرد و زن کو بم دھماکوں اور گولیوں سے چھلنی کرتے رہیں اور کان کن مزدوروں کا خون دہشت گردوں کے لیے ارزاں بنا دیا جائے؟
اور ریاست کے ماہ ولی اور اقتداری ذمہ داران سالہا سال سے طاقوں میں سجے بیانات کہ ہم کسی قیمت پر ملک میں دہشت گردوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے کے ساتھ لواحقین سے اظہار افسوس اور مذمت،آخر کار طاقوں میں پڑے یہ گلے سڑے بیانات جاری کرکے کیوں ملک کی نسل کو وطن پرستی سے دور کرنے کی کوشش جاری و ساری ہیں اور ریاست وہ ریاستی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی جو کہ ملک کے آئین و قانون میں درج ہے۔کیا دہشت و وحشت سے خوف زدہ سماج موشگافیوں سے بہلا رہے گا؟ ایسا ہر گز نہیں ہوگا،سماج کی سمت درست کرنے کا آسان اور اثر پذیر نسخہ یا فیصلہ یہ ہے کہ ملک کو''سیاہ فیصلوں''کے بجائے تحریک پاکستان کے جمہوری رویوں کی بنیاد پر آئین و قانون پر جمہوری طریقے سے عمل کیا جائے۔
سماج کے ہر فرد کو انسانی حقوق کی آئین میں دی گئی مکمل ضمانت دی جائے اور آئین و قانون کے ضابطوں کی روشنی میں ایسے فیصلوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو آئین و قانون سے متصادم ہیں اور ان فیصلوں پر مکمل عمل کیا جائے جو آئین و قانون کے ترجمان ہوں،اسی کے ساتھ ہر فرد سے لے کر ہر ادارے کو آئین کے تحت نہ صرف اپنا دائرہ نہیں چھوڑنا چاہییے بلکہ کسی ادارے یا ملک کے بالادست ادارے پارلیمان کے دائرے میں دخل اندازی یا دیے گئے اختیار سے تجاوز بھی نہ کیا جانا چاہیے،اس ضمن میں یاد رکھا جائے کہ جو ریاست کھیل تماشے سے سماج کی توجہ ہٹانے کو عقل و دانش سمجھے گی اس سماج کو تہہ و بالا اور برباد ہونے سے مداریوں کا اسٹیج تماشہ کبھی نہیں بچا پائے گا۔
دہشت گرد سیاسی بازی گری کا کھیل تماشہ تاریخ کے صفحات میں برباد قوموں کی نشانی کے طور پر عبرت کے لیے لکھا جاتا ہے،اس کے بعد ہمارے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہ ہوگا،یہی تاریخ کی سچائی کے ساتھ چتاونی بھی ہوتی ہے۔عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ کہیں انتشار ہے کہیں ملائیت اپنے ذہنی دیوالیہ پن دکھا رہی ہے اور کہیں سیاست دان سمجھے جانے والے شہرت یافتہ جھوٹوں کے بیانیے کو چوما اور پوجا جا رہا ہے،کبھی ریاست کے سورما اس پر بھی غور کر لیں کہ بے ترتیب سماج بنانے کی کوشش میں کہیں وہ عوام کے اس جوار بھاٹے سے تو بے خبر نہیں ہیں جو خودغرضانہ اقدامات کی وجہ سے عوام میں آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہا ہے اور حکمران نیرو کی بانسری بجا کر عوام کے مسائل اور عوام کے لوٹے جانے والے وسائل سے بے خبر ہیں؟
کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ریاست کی سطح پر کئے جانے والے فیصلے آنے والے کل کے لیے ریاست واسطے وہ ''سیاہ فیصلے'' بن جائیں کہ جن سے نجات پانا پھر نا ممکن ہو جائے۔؟