شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس کامیاب ہوگا
کانفرنس ایام میں وفاقی دارالحکومت کے رَیڈ زون میں سیکیورٹی ریڈ الرٹ نافذ رہے گا۔
کل اورپرسوں (15اور16اکتوبرکو) اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی دو روزہ عالمی سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے۔ حکومت اِسے ہر لحاظ سے کامیاب کروانا چاہتی ہے۔ ہر قسم اور ہر نوعیت کے اختلافات سے بالا رہ کر ہر پاکستانی کی کوشش اور خواہش ہے کہ یہ کانفرنس ہر رُخ سے کامیابی سے ہمکنار ہو۔ تقریباً ایک درجن غیر ملکی صدور اور وزرائے اعظم پاکستان تشریف لا رہے ہیں ۔ رُوس اور چین ایسے دو ایٹمی اور ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک کے وزرائے اعظم (Mikhail Mishustin اورLi Qiang) بھی تشریف لا رہے ہیں ۔ یہ معمولی منظر نہیں ہے ۔ سب غیر ملکی اعلیٰ مہمان ہمارے لیے معزز اور محترم ہیں ۔ مہمانانِ گرامی کے استقبال کے لیے وفاقی دارالحکومت کو ہر ممکنہ طریقے سے سجایا گیا ہے۔
اگرچہ چند دن پہلے ہی ہماری ایک سیاسی جماعت کے وابستگان نے اِسی اسلام آباد میں احتجاج کے نام پر دھما چوکڑی مچائی تھی۔ حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ پارٹی SCOکو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے ؛ چنانچہ حفظِ ماتقدم کے طور پر مرکزی حکومت نے حکم جاری کر دیا ہے کہ ،SCOکانفرنس کے خاتمے تک، بانی پی ٹی آئی سے اُن کا کوئی رشتہ دار ، دوست اور وکیل ملاقات نہیں کرے گا۔ حکومت نے اسلام آباد میں سیکیورٹی کے انتظامات بھی سخت ترین کر دیے ہیں ۔ پنجاب کے کئی شہروں میں دفعہ144بھی نافذ ہے ۔ تین روز کے لیے (چودہ ، پندرہ اور سولہ اکتوبر) اسلام آباد میں تعطیلات بھی کر دی گئی ہیں ۔ کانفرنس ایام میں وفاقی دارالحکومت کے رَیڈ زون میں سیکیورٹی ریڈ الرٹ نافذ رہے گا۔
اسلام آباد کے پُر شکوہ جناح کنونشن سینٹر (جہاںSCOکانفرنس منعقد ہوگی) کی از سر نَو تزئین و آرائش کرکے انتظامیہ کے حوالے کیا جا چکا ہے ۔ وطنِ عزیز کے معاندین کی کوشش اور سازش ہے کہ کسی طرح SCOکی یہ سربراہی کانفرنس کامیاب نہ ہونے پائے کہ اگر یہ کامیاب ہو جاتی ہے (اور انشاء اللہ کامیاب ہی ہوگی) تو دُنیا بھر میں پاکستان کا امیج بھی اُبھرے گا اور موجودہ حکومت کی کامیابیوں کا جھنڈا بھی لہرائے گا؛ چنانچہ یہ بات مشاہدے میں آ رہی ہے کہ جوں جوں SCOکے انعقاد کے دن قریب آ رہے ہیں، پاکستان کے دشمنوں کی گھاتیں اور وارداتیں بڑھ گئی ہیں ۔
مثال کے طور پر(1) 12اکتوبر کو کُرم میں پاک افغان سرحد پر شدید فائرنگ ۔ 12افراد جاں بحق(2) 10اکتوبر کو بلوچستان کے علاقے '' دکی''( لورا لائی ڈویژن) میںکوئلہ کان کے بے گناہ مزدوروں پر مسلّح افراد کا حملہ۔ 20 کانکن قتل (3) 6اکتوبر کو کراچی میں ایک ہوٹل کے باہر خود کش دھماکا جس میں2چینی انجینئرز اور ایک پاکستانی لقمہ اجل بن گئے ( مبینہ طور پر بی ایل اے نے حملے کی ذمے داری قبول کی) اِس سانحہ کی حساسیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ SCOسر پر ہے ۔ چین نے بجا طور پر اِس سانحہ پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔
چین کی غمخواری کے لیے ہمارے وزیر اعظم صاحب اور صدرِ مملکت صاحب چینی سفارتخانے گئے اور چینی سفیر سے اظہارِ تعزیت کیا۔ لاہور میں آئی جی پولیس چینی قونصل جنرل سے ملے ہیں ۔ دوسرے کئی سرکاری حکام اور سیاسی زعما بھی چینی حکام سے ملے ہیں۔ خصوصاً اس لیے بھی کہSCOکانفرنس میں چین کے وزیر اعظم صاحب بھی تشریف لا رہے ہیں ۔ یوں ہم بخوبی اور بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے معاندین اور دشمنوں نے اِن خونی وارداتوں سے کئی سطحوں پر پاکستان اور پاکستانیوں کو نقصان پہنچانے کی (ناکام) کوشش کی ہے ۔
اِدھر اسلام آباد میںSCOکی اہم ترین عالمی سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں ہو رہی ہے اور اُدھر بد قسمتی سے پی ٹی آئی نے15اکتوبر کو پھر اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی ہے ۔ اِس پر ہمارے ممتاز دانشور، مصنف اور سابق سفار تکار ، جناب حسین حقانی، نے 12اکتوبر2024کو بھارتی اخبار(انڈین ایکسپریس) میں لکھے گئے ایک مفصل آرٹیکل میں کہا ہے کہ '' خان صاحب کے پیروکار حکومت کے خلاف احتجاجات کے باوجود اسٹیٹس کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔'' دریں اثنا چین کے ایک اہم اخبار (South China Morning Post) نے9اکتوبر کو اِس سرخی کے ساتھ یہ خبر شایع کی ہے :China warns against Pakistan travel in wake of deadly blast near Karachi airportچین ایسا ہمارا ازلی اور آہنی دوست ملک کا ایک روزنامہ اگر ایسی دلدوز خبر شایع کررہا ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں بروئے کار چینیوں کے خلاف پے درپے ہونے والے مہلک حملوں سے چین کا دل کتنا دُکھا ہوگا ۔پاکستان اور چین کے بدخواہ اور معاندین بار بار دونوں دوست ممالک کے دل دُکھا رہے ہیں۔
اِسی لیے سابق سینیٹر ، جناب مشاہد حسین سید ، نے چینی اخبار کی مذکورہ خبر پر تبصرہ کرتے ہُوئے یوں کہا ہے کہ '' خطرات سے پُر یہ ٹریول ایڈوائزری واشنگٹن یا لندن سے نہیں آئی ہے، بلکہ پاکستان کی جانب سفر نہ کرنے کا یہ انتباہ چین ایسے ہمارے ہمسایہ ، دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر کی طرف سے آیا ہے ۔ اِسے الارمنگ سمجھنا چاہیے ۔'' واقعہ بھی یہ ہے کہ چینی اخبار کی یہ خبر ہم سب کے لیے غیر معمولی نوعیت کی حامل ہے ۔
رنج و تاسف سے بھرپور مشاہد حسین سید کا یہ بیان شاید اپنی جگہ درست ہی ہے ۔ آج تک پاکستان کے مختلف حصوں میں چینی انجینئروں پر حملہ کرنے والے کسی بڑے مجرم کو گرفتار کیا گیا ہے نہ سزا دی گئی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس سے چند دن قبل دکی اور کراچی میں مزدُوروں کے قتلِ عام اور خود کش دھماکا کرکے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جن مفسدین اور شیطانوں نے ایک بار پھر پاکستان کو نادم کرنے کی ناکام اور مذموم سعی کی ہے، حکومت اُن کے تعاقب میں ہے ۔ مبینہ خود کش بمبار( شاہ فہد) کا ایک مبینہ سہولت کار کراچی سے گرفتار بھی ہو چکا ہے ۔ باقی بھی عنقریب دھر لیے جائیں گے ۔ ایک اور بڑا ملزم بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
شنید ہے کہ گرفتار ملزم کے ڈانڈے بھارت سے ملے ہیں۔ دشمنوں کے اِن مذموم ہتھکنڈوں کے باوجود کانفرنس مذکور بہرحال کامیابیوں سے ہمکنار ہو کر رہے گی۔ بد خُو اور مغضوب الحاسدین کا کہنا ہے کہ کیا فائدہ ایسی عالمی کانفرنس کے انعقاد کا جو خوف اور تلواروں کے سائے میں ہو رہی ہو؟ ایسے بدبختوں کو خبر ہو کہ ہر ملک میں کسی بھی سربراہی کانفرنس کے لیے ایسے ہی سیکیورٹی کے سخت انتظامات اور اقدامات کیے جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان اِس وقت کررہا ہے ۔ یہ بین الاقوامیSOPsہیں ۔
اِس عالمی سربراہی کانفرنس سے قبل سعودی عرب کے ایک بڑے اور اہم تجارتی وفد (جس کی قیادت سعودی وزیر تجارت ، محترم خالد بن عبدالعزیز، کررہے تھے) نے اسلام آباد کا دَورہ کیا ہے ۔ 2ارب ڈالرز کے ایم او یوز پر دستخط بھی کیے ہیں ۔ اِس وفد اور اِس کے قائد نے وزیر اعظم ، وفاقی کابینہ کے اہم ارکان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے بھی تفصیلی اور ثمر آور ملاقاتیں کی ہیں۔
شہباز حکومت اطمینان محسوس کررہی ہے۔ SIFCکی کوششیں بھی رنگ لا رہی ہیں ۔ سفارتکاروں، عالمی تجارتی وفود اور عالمی سربراہوں کی پاکستان آمدورفت کے یہ مناظر دراصل پاکستان پر عالمی اعتبار کا مظہر ہیں ۔ SCOکانفرنس سے قبل کے پی کے اور مرکزی حکومت میں صلح صفائی کی مثال بھی سامنے آئی ہے ۔یہ سب کوششیں دراصل اِس امر کا شاخسانہ ہیں کہ خدا کرے SCOکانفرنس کا ایونٹ خیر خیریت سے گزر جائے۔ہماری بعض سیاسی جماعتیں مگراُس گھڑی کی بیقراری سے منتظر ہیں کہ کب SCOکانفرنس ختم ہو اور کب آئینی ترامیم منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں ۔