زباں فہمی نمبر226 ناچ رقص اور ڈانس حصہ آخر

زباں فہمی نمبر226 ؛ناچ ، رقص اور ڈانس (حصہ آخر)از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)


سہیل احمد صدیقی October 13, 2024
زباں فہمی نمبر226 ؛ناچ ، رقص اور ڈانس (حصہ آخر)از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)

ناچ ایسا موضوع ہے جس پر گفتگو اور تحریر میں خواہی نخواہی رُخ مذہب کی طرف ضرور مُڑجاتا ہے اور اس باب میں دینإ اسلام بھی ضرور زیرِبحث آتا ہے۔ یہاں بوجوہ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ اگر محض وقت گزاری یا شغل کے لیے رقص کیا جائے یا بطور پیشہ اپنایا جائے تو ظاہر ہے کہ اِسے شریعت میں 'لہَوولَعِب' (Lahv-o-La'eb) یعنی فضول کھیل تماشا قرار دے کر ممنوع ٹھہرایا گیا ہے، البتہ کسی روحانی محفل میں کسی خاص کلام میں محو ہوکر وَجد کرنے والے، رقص کرنے والے یا 'حال کھیلنے والے' کو فقہاء اس زُمرے میں شامل نہیں کرتے، کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ اس عمل میں بے اختیار ہوتا ہے، بے خود اور بے قرار، مضطرب ہوتا ہے اور شریعت ظاہر ہی پر حکم صادرکرتی ہے۔

یہاں مولانا روم (رحمۃ اللّہ علیہ) سے منسوب درویشوں کا رقص، رقصِ درویش بہت مشہور ہوچکا ہے جس میں کوئی متصوفانہ کلام گاکر دائرے میں اور چاروں طرف گھومتے ہوئے رقص کیا جاتا ہے۔ اس بابت بعض محققین کی رائے ہے کہ اس کا مولانا کے دورمیں، اُن کی خانقاہ میں رائج ہونا ثابت نہیں، البتہ مابعد کسی دور میں یہ شروع ہوا تو آج اُن کے مزار کی حدود ہی میں نہیں، بلکہ دنیا بھر میں جابجا بڑے شوق سے اس کی نقل کی جاتی ہے۔ جدید دور میں اسلام اور اسلامی شریعت کو سخت گیر اور ہر قسم کی آزادی کا مخالف گرداننے والے نام نہاد آزادی پسند۔ یا ۔لبرلز (Liberals) نے ایک نئی اصطلاح صوفی اِزم نکالی ہے جس میں شریعت سے متوازی ومتصادم بہت کچھ شامل ہے۔

رقص وسرود کے موضوع پر لکھتے ہوئے عموماً یہ اہم نکتہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ صوفیہ کرام شریعت کے پابند تھے اور اِس پر عمل کی تعلیم سب سے پہلے دیتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ متعدد صوفیہ کے کئی مشہور افعال اُن کے اپنے اختیارکردہ تھے نہ کہ شریعت کے عین مطابق۔ یہ بات اس لیے لکھ رہاہوں کہ لوگ باگ مسئلہ سمجھے بغیر، کسی بھی بزرگ کا نام لے کر کہتے ہیں کہ اگر غلط یا ناجائز۔ یا ۔ حرام ہے تو فُلاں کیوں کرتے تھے۔ آج کے دور میں جب ہر آدمی ہر موضوع کا چیمپیئن بنا پھرتا ہے تو ممکن ہے اس بابت بھی فیس بک اور واٹس ایپ پر 'فتوے ' جاری ہونے لگیں، بہرحال خاکسار نے تحقیق کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں رقص وسرود کی محافل کا انعقاد معمول کی بات تھی، ظاہر ہے کہ اس میں شرابِ خانہ خراب بھی خوب استعمال ہوا کرتی تھی۔ ظہورِاسلام کے بعد یہ سلسلہ تقریباً موقوف ہوگیا تھا، مگر خلفائے راشدین کے عہد اور خلفائے بنواُمیّہ کے ابتدائی دور کے بعد، پوشیدہ طور پر پھیلتی ہوئی قدیم روایت فروغ پانے لگی اور خلفائے بنوعباس تک آتے آتے رقص، مُوسیقی اور نشہ، اسلامی معاشرے میں عام ہوتے چلے گئے، ہرچند کہ یہ معاملہ مخصوص طبقے تک محدود تھا۔ عباسی عہد میں عجمی ممالک سے رقص سمیت مختلف فُنونِ لطیفہ کی درآمد کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری ہوا۔

جب خلافت کا ادارہ کمزور پڑا تو رفتہ رفتہ دینی تعلیمات کا حکمراں طبقے پر اَثر بھی کم ترین ہوتا گیا اور پھر ایک وقت آیا کہ عرب وعجم میں بھانت بھانت کے رقص عام ہوگئے۔ موجودہ عرب ممالک میں قدیم لوک ناچ کے علاوہ جدید طرز کے مختلف رقص بھی بہت مقبول ہیں جن میں بیلے رقص (Ballet dance) اور بیلی رقص (Belly dance) شامل ہیں۔ مؤخرالذکر میں عرب، مصری، ترکی اور ہندوستانی طرز بہت مشہور ہے اور اِس کا استعمال وزن گھٹانے اور جسم کو متناسب بنانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

برِّعظیم پاک وہند میں رقص وسرود کا رِواج خصوصاً ہندومَت کی ابتداء سے جُڑا ہوا معلوم ہوتا ہے جو درحقیقت برہمن مَت ہے (مزید تحقیق طلب یہ نکتہ ہے کہ آیا برہمن ہی آریا ہیں یا آریوں اور دراوڑوں کے اختلاط سے جنم لینے والا کوئی کٹّر پنتھی فرقہ جس نے دیگر ذاتوں کو اپنے نگیں کرتے ہوئے ذات پات پر مبنی دھرم تشکیل دیا) اور جس میں مختلف مذاہب کی الہامی وغیراِلہامی کتب وصحائف سے خوشہ چینی کرتے ہوئے اپنی مذہبی کتب مرتب کی گئیں۔ اس باب میں توحید وشرک ایسے خلط ملط ہوگئے کہ اکثر محققین شرک میں توحید تلاش کرتے ہوئے ہندومت کو کوئی الہامی مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔

ہندومذہبی رسوم میں شامل، نیز کلاسیک کا درجہ رکھنے والے چار قسم کے رقص بہت زیادہ مشہور ہیں: بھرت ناٹیم، کتھاکلی، کتھک اور منی پوری۔ بھرت ناٹیم کا ماخذ، مذہبی کتاب 'ناٹیہ شاستر' (ناٹ۔ے) ہے۔ یہ بھارتی ریاست (صوبے) تمِل ناڈ کا خاص رقص ہے (تامل ناڈو غلط ہے)۔ کتھا کلی، کیرل (کیرالہ غلط) کا مخصوص رقص ہے جس میں مختلف اداؤں سے کہانی پیش کی جاتی ہے۔ یعنی ڈراما جسے آج ہم دوسرے طریقے سے تیار کرتے اور پیش کرتے ہیں۔

ویسے اکثر کلاسیکی، مذہبی اور لوک (عوامی) ناچ کسی نہ کسی شکل میں ناٹک یا ڈراما ہی پیش کرتے ہیں، مگر اِس کی تفہیم ہر خاص وعام کے لیے آسان نہیں۔ قدیم آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے مندِر میں پُجاریوں کی خوشنودی اور ہَوَس کی آگ بُجھانے اور بظاہر بھگوان کے بُتوں کے سامنے پرارتھنا یا عباد ت کرنے کے لیے کنواری لڑکیاں تادمِ مرگ مخصوص کی جاتی تھیں جنھیں 'دیوداسی' یا محض داسی (کنیز یا لونڈی) کہا جاتا تھا۔ وہ اپنے رقص سے کسی ناٹک یا ڈرامے کی صورت پیدا کرتے ہوئے اپنے تماشائی کا دل موہ لیا کرتی تھیں۔

یہی رقص آج بھی کم وبیش انہی اداؤں اور جزئیات کے ساتھ رائج ہیں۔ سلاطین ِدہلی کے دور میں ہندومسلم مخلوط معاشرہ تشکیل پاتا رہا اور آپس میں شادیاں یا ویسے ہی غیرمشروع جنسی تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا جسے مغلیہ دور میں عروج ملا۔ (ہرچندکہ وہ تُرک ہیں اور تھے، مگر ہم مجبوراً اُن کا غلط العام نام لکھتے ہیں)۔ مغلوں نے رقص، موسیقی، شاعری، سنگ تراشی، مصوری وخطاطی سمیت تمام فنونِ لطیفہ کی سرپرستی کی، اُن کے عہدِ زوال میں صوبے آزاد ہوکر خودمختار یا نیم مختار ریاست بنے تو بعض ہندو اور کچھ مسلمان راجوں اور نوابوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ نواب واجدعلی شاہ اخترؔعرف جانِ عالم ورنگیلے پیا ؔنے اس جہت میں ناٹک پر بھرپور توجہ دی اور یوں رقص، موسیقی اور شاعری کے ساتھ ساتھ ڈرامے کا باب روشن ہوگیا۔

یہاں بطور ِ خاص ایک رقص 'ڈانڈیا ' یا ڈانڈیا راس کی بات کرنا چاہتا ہوں جس کا رواج وطنِ عزیز میں بھی مختلف اقوام یا برادریوں کے یہاں مقامی ثقافت کے حصے کے طور پر پایا جاتا ہے۔ یہ رقص ہندوستان کے طول وعرض (ازکشمیر تا کنّیا کماری) کے علاوہ پاکستان کے علاقے سرائیکی وسیب میں جھُمر (جھومر)، بلوچستان میں لاٹوکی آ چاپ ("Latuki a Chap") یعنی ڈنڈا رقص (براہوی) اور سندھ میں ڈاکا (سندھی: Daaka) کہلاتا ہے۔ اس بابت اردو، انگریزی، سرائیکی اور سندھی سے بخوبی آشنا، براہوی محقق جناب نذیر شاکر براہوی نے ہمیں بتایا کہ ''براہوئی میں اس ڈانس کا نام دراوڑی زبانوں میں اسے ''kolattam'' کہتے ہیں۔ اس لفظ کا پہلا پریفکس''ko '' کو حذف ہوکر lattam رہ گیا جو براہوئی میں ''latt'' کی صورت اختیار کی، جس کے معنی ڈنڈی، لاٹھی ہے۔ اردو کا ''لاٹھی'' لفظ بھی براہوئی کی طرح دراوڑی اوریجن کا ہے، مگر اردو میں اسے ڈنڈی ناچ کہا جاتا ہے۔ ہم ''لٹکی آ چاپ'' یعنی ''ڈنڈی یا ڈنڈے والا ڈانس '' کہتے ہیں''۔ ڈانڈیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے قطع نظر، بنیادی فرق کوئی نہیں!

اردو میں رقص، ناچ اور ڈانس کے الفاظ عام ہیں، لیکن شاعری میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کوئی ایک پوری غزل اس موضوع سے جُڑی ہوئی ایسی ہو جو کئی شاعروں سے منسوب ہو، ہاں، فارسی میں ایسا ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دم ِدیدار می رقصم

مگر نازم بر اِیں ذوقے کہ پیش ِیار می رقصم

(مجھے کچھ خبر نہیں کہ آخر محبوب کو دیکھتے ہی، میں رقص کیوں کر رہا ہوں لیکن پھر بھی مجھے اپنی اس خوش ذوقی پر ناز ہے کہ میں اپنے محبوب کے سامنے رقص کر رہا ہوں)۔ یہ مطلع ہے اُس مشہورِزمانہ غزل کا جسے اکثر لوگ لال شہباز قلند ر سے منسوب کرتے ہیں اور اُن کا اصل نام شیخ سید عثمان مروَندی لکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ :

ا)۔ اوّل تو اُس دور میں ایسے نام نہیں ہوا کرتے تھے اور ب)۔ شیخ اور سیّد دونوں نسبتیں یکجا کیسے ہوگئیں؟

اسی غزل کا دوسرا انتساب بعض محققین ، خواجہ عثمان ہَرونی (ہارونی غلط ہے) رحمۃ اللہ علیہ، (مرشدِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ) سے کرتے ہیں۔ ان دونوں حضرات کے نام کا مقطع بھی موجود ہے۔ ایک تیسرا نام یکسر مختلف اور ہمارے لیے نامانوس ہے۔ وہ ہے حکیم سید نذر اشرف فاضلؔ کچھوچھوی۔ اب غزل کا مکمل متن مع اردو ترجمہ ویب سائٹ صوفی نامہ کے شکریے کے ساتھ پیشِ خدمت ہے:

نگاہش جانب من چشم من محو تماشایش

منم دیوانہ لیکن با دِلِ ہشیار می رقصم

اس کی نگاہ میری طرف ہے اور میری نظر اسے دیکھنے میں مصروف ہے، میں دیوانہ ہوگیا ہوں لیکن ہوشیار دل کے ساتھ رقص کر رہا ہوں۔

(ہمارے ایک معاصر جناب اُسامہ سرسری نے یوں منظوم ترجمہ کیا ہے:

نہیں معلوم وقتِ دید کیسے رقص کرتا ہوں

مگر اک ناز سے دلبر کے آگے رقص کرتا ہوں

جبکہ ایک دوسرے شاعر جناب رامشؔ عثمانی نے قدرے فارسی آمیز ترجمہ یوں کیا:

نہیں واقف کہ آخر کیوں دم دیدار ہوں رقصاں

مگر اس سوچ سے خوش ہوں حضور ِ یار ہوں رقصاں: س اص )

نگاہش جانب من چشم من محو تماشایش

منم دیوانہ لیکن با دِل ِہشیار می رقصم

(اس کی نگاہ میری طرف ہے اور میری نظر اسے دیکھنے میں مصروف ہے، میں دیوانہ ہوگیا ہوں لیکن ہوشیار دل کے ساتھ رقص کر رہا ہوں)۔

زہے رندے کہ پامالش کنم صد پارسائی را

خوشا تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم

(کیسی اچھی وہ رندی ہے کہ سیکڑوں پارسائی کو پامال کرتی ہے، کیا خوب تقویٰ ہے کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص میں ہوں یعنی جبہ و دستار اہل تقویٰ کی علامت ہے اور رقص رندوں کا طریقہ ہے لیکن محبت میں بے خودی کا یہ عالم ہے کہ جبہ و دستار کی اہمیت بھی باقی نہ رہی)۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جاں بازاں

بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

(اے معشوق! آ دیکھ کہ جانبازوں کے اس مجمع میں بصد سامان رسوائی میں رقص کر رہا ہوں)۔

تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی

من آں بسمل کہ زیر خنجر ِخونخوار می رقصم

(تو وہ قاتل ہے کہ برائے تماشا میرا خون بہانا چاہتا ہے، اور میں وہ بسمل ہوں جو خنجرِخونخوار کے نیچے رقص کر رہاہوں)۔

تپش چوں حالتے آرد بروئے شعلہ می غلطم

خلش چوں لذتے بخشد بہ نوک خار می رقصم

(تپش کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ گویا میں شعلے کے اوپر لوٹ رہا ہوں۔ خلش کی وجہ سے مجھے ایک ایسی لذت مل رہی ہے کہ میں کانٹے کی نوک پر رقص کر رہا ہوں)۔

زہے رنگ تماشایش خوشا ذوق دلم فاضلؔ

کہ می بیند چو او یک بار من صد بار می رقصم

(اس کے تماشے کے رنگ کا کیا کہنا اور اے فاضلؔ میرے ذوقِ دل کا کیا کہنا، وہ مجھے ایک بار دیکھتا ہے اور میں سیکڑوں بار رقص کرتا ہوں)۔

ویب سائٹ کے منتظم صاحب نے یہ عبارت بھی ساتھ ہی دی ہے:

''حکیم سید نذر اشرف فاضلؔ کچھوچھوی کی یہ معرکۃ الآرا (معرکہ آرا درست ہے : س ا ص) اور اپنی خصوصیات میں بے مثل غزل ہے، جس کی عام مقبولیت اور آستانوں میں محفلِ سماع کی زینت نے اس کو تعارف و مداہی سے بے نیاز کریا ہے، یہ پُرکیف نظم خواجہ معین الدین چشتی کی نظم کے اتباع میں بہِار کے ضلع بھاگل پور میں تیار ہوئی تھی اور بجلی کی طرح ہندوستان میں پھیل گئی، قوالوں کی معمولی تحریف نے اگر چہ غزل کی صورت بدل دی، چند اشعار کو خلط ملط کردیا ہے بلکہ تخلص تک بدل گیا ہے، نورالحسن مودودی صابری نے 1935 میں 'نغماتِ سماع ' نامی کتاب میں اسی غزل کو خواجہ عثمان ہارونی کا بتایا ہے جس کے بعد یہ عام طور پر نقل ہونا شروع ہوا جبکہ اس سے قبل یہ غزل آپ (یعنی فاضلؔ کچھوچھوی) کی مقبول ہوچکی تھی''۔

ماخذ: ویب سائٹ پر ماخذ کا نام پارسی قند (فاضلِ گلدستہ) درج کیا گیا ہے جبکہ یہ عنوان ''گلدستہ ٔ فاضل''ؔ (قندِ پارسی) صحیح ہوگا۔

https://sufinama.org/persian-kalam/ namii-

daanam-ki-aakhir-chuun-dam-e-diidaar-mii-

raqsam-hakim-nazr-ashraf-ashrafi-persian-

kalam?lang=ur

فارسی مترجم ومحقق جناب محمد وارث نے ایک ویب سائٹ پر اسی غزل کا دوسرا شعر یہ درج کیا ہے:

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم

بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

(تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں)۔ مترجم موصوف نے پہلے تو عثمان مروندی یعنی لال شہباز قلندرکے نام والا مقطع درج کیا:

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم

ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

(میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور حلّاج میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں)۔ پھر اُنھوں نے اپنی لاعلمی کے سبب، یہ بھی لکھا کہ ''اس شعر کے لیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علی خان نے عثمان ہارونی کے نام کے ساتھ گایا ہے۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہوجائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں، یہ بھی علم نہیں ہوسکا کہ کیا 'ہارون' ان کے کسی مرشد کا نام تھا جس کی طرف انہوں نے نسبت کی ہے۔ بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کے لیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے''۔ معلوم ہوا کہ وہ خواجہ عثمان ہرونی عرف ہارونی کے نام نامی سے ناواقف ہیں۔

جناب اُسامہ سرسری اور جناب رامشؔ عثمانی کے تراجم میں متن چند مزید اشعار پر مشتمل ہے اور یہ تمام مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، جبکہ ولی الدین نامی ایک گم نام شاعر نے اسی ردیف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے فارسی میں غزل کہی جو جناب الف نظامی نے جناب محمد وارث کے ترجمے کے فوری بعد پیش کی۔

'می رقصم' کی ردیف والی فارسی غزل کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں یہ بھی عرض کردوں کہ ہمارے بزرگ معاصرجناب انورشعور (پ: 11اپریل 1943) کا مجموعہ کلام اسی نام سے 2006ء میں لاہور سے شایع ہوچکا ہے۔ 'می رقصم' کے عنوان سے جناب نیّراقبال علوی کے افسانوں کا مجموعہ منظرِعام پرآیا، جبکہ ''سر بازار می رقصم'' عنوان ہے، ممتاز ادیب ڈاکٹر محمد حسن (یکم جولائی 1926ء تا 24اپریل 2010ء) کے خودنوشت سوانح پر مبنی کتاب کا جو اُن کی وصیت کے مطابق، اُن کی وفات کے بعد،2022ء میں منصہ شہود پر آئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں