سسٹم اور پٹڑی
حکومت کا خوف اس وقت کم ہوا ہوگا جب امریکا نے یہ یقین دہانی کرا دی کہ 4 اگست کو ڈی چوک پر ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا
حکومت کا خوف اس وقت کم ہوا ہوگا جب امریکا نے یہ یقین دہانی کرا دی کہ 4 اگست کو ڈی چوک پر ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا جس سے سسٹم پٹڑی سے اتر جائے۔ امریکا کا یہ بیان بھی ایسا ہی تھا جو بغیر NOC کے نہیں دیا جاتا۔ امریکا نے بھی اپنے ذرایع سے پتا کیا ہوگا جب ان کو سمجھ آیا کہ حکمران خوامخواہ رسی کو سانپ سمجھ بیٹھے ہیں، تو وہ بھی بالآخر بول پڑے۔ اب یہ کہنا کیا ایسا بیان امریکا ہندوستان کے اندرونی معاملات کے بارے میں دے سکتا ہے وغیرہ، کسی اور بحث میں الجھنے کے برابر ہوگا۔
سب کو پتہ ہے ہم کتنے خودمختار ہیں اور آج کے زمانے میں ہم اگر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا یورپ و امریکا سے تجارت چاہتے ہیں، مراعات چاہتے ہیں تو پھر ان کا اثرورسوخ بھی چلے گا، اور اگر نہیں چلے گا تو دوسری ڈگر جو یہاں کے جہادیوں کی خواہش تھی اگر ہم چل پڑتے تو وہ اور بھی بھیانک تھی۔ حکمرانوں پر یہ وقت بھی اسی لیے آیا کہ وہ ان جہادیوں کے نرغے میں آگئے۔
جب لاہور میں کچھ سال پہلے طالبان نے دھماکے کیے تو حکمران بول پڑے کہ طالبان ان پر حملہ نہ کریں ۔کہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، وہ شاید طالبان کے حق میں وکالت تو کرتے تھے مگر دل سے نہیں۔ اور طالبان نے بھی یہ ثابت کیا کہ انھوں نے خیبر پختونخوا کی حکومت پر حملے کیے۔اب جب ضرب عضب نے اپنا کام کرکے دکھایا تو عمران خان صاحب کے لیے بھی طالبان کے خطرات کم ہو گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو آج کل عمران خان وغیرہ ان کے ساتھ کرنے جا رہے ہیں۔
جب یہ رسے سے باندھ دیا جائے کہ سسٹم پٹڑی سے نہیں اتر رہا۔ پھر سب ٹھیک ہی تو ہے۔ یہاں تک کہ اگر درمیانی مدت والے انتخابات بھی ہوجائیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا پتہ نہیں مگر بیٹھے گا ضرور۔ اور وہ بھی بغیر کسی مدد کے۔ ہاں اس ملک میں جمہوری قوتیں بھی ہیں تو غیر جمہوری قوتیں بھی۔ ان کی خواہش ہے کہ فوج آجائے، لیکن ایسا کام ان کی یا کسی کی خواہشات پر نہیں ہوتا۔
پاکستان میں کبھی بھی طاقتور وزیراعظم نہیں ہوسکتا۔ لیاقت علی خان صاحب تھے اور بھٹو بھی تھے، تو ان کے ساتھ کیا ہوا وہ بھی آپ کو پتا ہے۔ طاقتور وزیراعظم بننے کا ارمان آج کے حکمرانوں سمیت ہر حکمران کے دل میں امڈ آتا ہے مگر ضروری نہیں یہ خواہش بھی پوری ہو جائے۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ امریکا نے سمجھا کہ آصف علی زرداری طالبان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ وہ کیا کرتے جب دیگر طاقتور حلقے کچھ نہیں کرنا چاہتے ہوں۔ ان کو موجودہ حکمرانوں سے امیدیں وابستہ ہوئیں کہ وہ کچھ ڈلیور کریں گے کیونکہ وہ طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاسکتے ہیں۔
اس کے برعکس موجودہحکمران امریکا سے سعودی عرب کے ذریعے بات کرنا چاہتے تھے، تو پھر لیجیے جواب۔ سعودی عرب امریکا و یورپی یونین کی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ سعودی عرب کو پاکستان میں پھیلتی ہوئی فکر اپنے دفاع میں ہتھیار کی صورت میں نظر آئی اور ایسے لوگوں کو اپنے محافظوں کے دستے میں بھرتی کرنے کے لیے بہتر سمجھا۔ اور پھر اسی تنگ نظر دائیں بازو کی فکر کو جوکہحکومت کا ووٹ بینک ہے، جنرل مشرف پر بہت غصہ تھا۔ خود طالبان کو لال مسجد کے پس منظر میں ان پر حساب رہا ہوا تھا۔
طاہرالقادری ایسے موقعوں کو بھانپ لیتے ہیں، ان کو اشارہ ملا ہو یا نہیں وہ ایسی صورتحال کو اشارہ ہی سمجھتے ہیں۔ ادھر حکمران گولی چلا بیٹھے ۔
آمر آ تو جاتا ہے مگر اس کی رخصت بری۔ اسکندر مرزا کو لے لیجیے، ایوب ہوں یا یحییٰ، ضیا الحق کے ساتھ تو بہت برا ہوا۔ مشرف نے امریکا کا کہنا مانا تو پھر بے نظیر بھی چارٹرڈ جہاز میں لندن سے ابوظہبی پہنچ گئی تھیں۔ ٹھیک ہے یوسف رضا صاحب نے انکشاف کیا ہے مگر اصل حقیقت اس سے پہلے کی ہے۔ پھر محترمہ آئیں، ان کو ختم کیا گیا۔ وہ مشرف کو بھی وارا نہ کھاتی تھیں تو انتہا پرست دائیں بازو کی سوچ کو بھی، جو سوچ مشرف کے بھی خلاف تھی۔ پھر بعض حلقے مشرف کو صدر کی حیثیت میں دیکھ کے اپنی طاقت کو بڑھانے کے تصادم میں دیکھتے تھے۔ یہ موقع زرداری صاحب کے لیے اچھا تھا۔ امریکا نے ثالثی کی۔ مشرف صاحب چلے گئے۔
لیکن واپس لوٹے، مشرف نے کورٹوں کے دھکے کھائے۔ لیکن بعد میں مشرف کے پھر اچھے دن شروع ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے مشرف کو رخصت ہونے کے لیے باعزت طریقہ نکالا تو کوئی برا نہیں کیا۔ اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ یہ کام وہ GT Road کی طاقت پر کرسکتے ہیں تو پھر ان کو بارہ اکتوبر 1998 بھی یاد رکھنا ہوگا۔ GT Road کے لوگ مڈل کلاس ہیں، وہ دھندے کو ترجیح دیتے ہیں نہ کہ ایسی حرکتوں کو۔ کیونکہ اس سے پھر ان کا دھندہ خراب ہوتا ہے۔ اب GT Road کے دو مالک ہیں، ایک عمران خان تو دوسرے حکمران خود۔ اب یہ دنگل پھر ڈی چوک یا GT روڈ پر ہوگا۔
شواہدات سے یہ عکس ہو رہا ہے کہ امریکا و پاکستان ایک ہی بنچ پر ہیں۔ بالآخر پاکستان کے مقتدر حلقوں میں طالبان میں اچھے اور بری والی تفریق ختم ہوئی۔ کچھ کچھ یوں دکھائی دیتا ہے اس ملک کے سب فریق اب امریکا کا کہنا مانتے ہیں اور امریکا کے مفاد میں اس سسٹم کا چلنا ہے جو کہ خود اس ملک کے مفاد میں بھی ہے۔
لانگ مارچ تو بے نظیر نے بھی کیا تھا تو کون سا سسٹم ٹوٹا تھا، صرف یہ ہوا تھا کہ اس وقت کی حکومت گئی تھی۔ آج پیپلز پارٹی کی جگہ پی ٹی آئی نے لے لی ہے۔ اس کی ایک وجہ پارٹی کے اندر ابہام کہ اگر وہ حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ بنے تو جیسے غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل گئے اور اگر نہیں بنتے تو پھر ان پر نام نہاد حزب اختلاف کے بہتان لگیں گے۔ بالآخر زرداری صاحب بھی دھاندلیوں پہ موقف اختیار کر بیٹھے، مگر وہ عمران خان کی لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جتنے بڑے جلسے آج عمران خان کرسکتے ہیں اتنے بڑے کوئی بھی نہیں کرسکتا۔
حکومت کی حرکات نے اسٹیبلشمنٹ کا ڈیفیکٹو پاور اور بڑھا دیا۔ تو خود عمران خان تحریک نے بھی یا طاہر القادری کے انقلاب نے بھی تو متحدہ قومی موومنٹ کے جلسوں نے بھی، اتنا کافی ہے ۔
وہ تو خواجہ آصف کی عرض عرش پر پہنچ گئی کہ بارش ہوئی ورنہ بجلی کے بحران نے بھی لانگ مارچ میں ہوا بھر دینی تھی۔ اب سنا ہے ایک اور عرض عرش تک پہنچانے کے چکر میں ہیں کہ 14 اگست کو ڈی چوک پر ایسی طوفانی بارش ہو کہ خود سونامی کے ساتھ سونامی ہوجائے۔
مختصر یہ کہ 2014 کا سال اس ملک کے لیے اچھا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان عدم استحکام سے استحکام کی طرف گامزن، یوں کہیے کہ اگر حکومت مضبوط نہیں ریاست تو ہے۔ یہی وجہ ہے حصص کی مارکیٹ تین ہزار کا ہدف بھی پار کرگئی۔ ڈالر مستحکم، زر مبادلہ کے ذخائر بھی، ہاں لیکن شرح نمو والی کہانی من گھڑت تھی۔
اب کون سمجھائے حکومت کو کہ نہ یلو کیب، موٹروے، ٹرمینلوں سے یا لیپ ٹاپ سے قوموں کی تقدیریں بدلا کرتی ہیں۔ اس کے لیے اب نچلی سطح، غربت میں پھنسے لوگوں کو ملک کی مجموعی پیداوار میں عمل پیدا کرنا ہوگا ان کے معیار زندگی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔