دہشت گردی کا عذاب
یاد رہے کہ قرآن مجید میں واضح طور پر یہود ونصاریٰ کا ساتھ دینے والوں کے متعلق لکھ دیا گیا ہے،
ISLAMABAD:
غزہ پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت عالمی طاقتوں کے لیے ایک کھلا اشارہ ہے کہ اب مسلمان ممالک پر دہشت گردی اور جہاد کو دہشت گردی سے جوڑنے کے سلسلے کو منقطع کردینا ہی مناسب ہے، کیونکہ جس دہشت گردی اور بربریت کا مظاہرہ اسرائیل کھلے عام کر رہا ہے اس سے یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ بڑی قوتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔
محض بیانات اور دعوؤں سے یہ جنگ کی گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی، یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پہلے عراق پھر مصر اور شام میں جو کارروائیاں ہوئیں وہ کسی اندرونی خلفشار کا نتیجہ تھیں بلکہ اب کھل کر سامنے آتا جا رہا ہے کہ یہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، اس تمام پلاننگ اور دہشت گردی کی بدترین صورتحال کا مقصد کیا ہے؟ یہ سوال بظاہر جتنا مشکل نظر آتا ہے اس کا جواب اتنا ہی آسان ہے یعنی فلسطین کو اس کے بچے کچھے حصے سے بھی فارغ کردینا، ایک طویل عرصے سے یہودی لابی اپنے حدود اربعہ کو بڑھانے کی کوششوں میں جتی ہوئی تھی جو 1947 کے بعد سے بتدریج وسیع ہوتا گیا اور اس وسیع ہونے کے عمل میں شاطرانہ چالیں اور پیسہ شامل ہے جس سے بڑی طاقتوں کے منہ کو سی دیا گیا ورنہ جس طرح مسلم ممالک سے عیسائی اقلیت کی جارحانہ علیحدگی کی کوششوں کو سراہتے انھیں عالمی طاقتوں نے علیحدہ کرا دیا۔
روس کے ٹکڑے ہوئے کیا اس طرح کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو حل کرانا کیا واقعی مشکل تھا یا اسے حل کرانا ان کی اپنی پالیسی میں شامل نہ تھا، درحقیقت یہ تمام بڑی طاقتیں جو دنیا کی ٹھیکیدار بنتی ہیں۔ مسلمان ممالک کے وجود سے انجانے خوف میں مبتلا ہیں اور یہ خوف انھیں قدرت کے فیصلوں کے خلاف مجبور کرتا ہے۔ کیا انسان کی قتل وغارت گری کسی بھی مذہب میں جائز ہے، لیکن مذہب کی بنیاد پر کھلے بندوں انسانیت خون میں نہا رہی ہے، حماس کو جو ان دنوں فلسطین میں واحد مضبوط جماعت ہے جو اسرائیل کے مدمقابل کھڑی ہے ایران کے ساتھ ناتا جوڑ کر مسلمان ممالک الگ نہیں کھڑے ہوسکتے۔
یاد رہے کہ قرآن مجید میں واضح طور پر یہود ونصاریٰ کا ساتھ دینے والوں کے متعلق لکھ دیا گیا ہے، پروردگار نے اس عمل کو پسند نہیں فرمایا جب اوپر والے نے اس عمل کو پسند نہیں کیا تو اب کوئی اور سیاست چلانا احمقانہ بات ہے، ایران وہ بارہواں کھلاڑی تھا جسے حماس سے جوڑ کر میچ جیتنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جب کہ ایران کی ناراضگی کا سبب عراق میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں سے جڑا ہے ، گو اس سلسلے میں اب تک بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے لیکن یہ ناتے یہ رشتے بڑے فیصلوں کے اتار چڑھاؤ میں اہم ثابت ہو رہے ہیں، جس کی تازہ مثال فلسطین میں جاری ہے۔
اگر اب بھی اس مسئلے کو ڈھیل دی گئی تو عرب خطے کی زمین مزید سکڑ جائے گی اور بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جائے گا، یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک طویل عرصے سے ایران میں ہونے والی فوجی کارروائیوں اور اس سے منسلک جنگی ہتھیار و تجربات پر نظر رکھے ہوئے تھا جس کا ثبوت بھارت کے دور دراز علاقے میں وہ سائنسی لیبارٹری تھی جو اسرائیل کی ملکیت تھی۔ ایران نے ایک عرصے اس بات پر احتجاج بھی کیا تھا، لیکن امریکا اور ایران کی نئی دوستی نے بہت سے پرانے مسئلوں کو نئے رشتوں میں سمیٹ لیا تھا۔
یہ طے تھا کہ اسرائیل کا ہدف فلسطین کی بچی کچھی سرزمین ہے، اس کے لیے تمام مسلم ممالک میں اندرونی طور پر ریشہ دوانیوں کو ہوا دے کر غیر متوازن حکومتوں کی پشت تھپتھپائی گئی تاکہ ایک دوسرے کے الجھاؤ میں کسی بھی مسلم طاقت میں فلسطین کے حق میں بولنے کی ہمت نہ ہو، نااتفاقی کی فضا کس کے لیے سازگار تھی واضح ہوچکا ہے، یہ تو ہے تصویر کا ایک رخ۔
بی جے پی کی حکومت کیا آئی بہت سے بوڑھے دلوں میں اکھنڈ بھارت کا منصوبہ پھر سے جواں ہوگیا گو متعصب ہندوؤں سمیت بہت سے مخالفین پہلے ہی اس کے تانے بانے بنتے رہے ہیں لیکن اسرائیل کو اپنے گھر کا مہمان بنا رکھنے اور امریکا کی جی حضوری کے بعد فلسطین میں حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں نے بہت سے لوگوں کے منہ اتنے کھول دیے ہیں کہ اگر دوبارہ ان مسائل کو سنجیدگی سے لیا گیا تو لینے کے دینے نہ پڑجائیں لیکن فطرت بدل نہیں سکتی بی جے پی جس فطرت سے اٹھی تھی وہ اس کے انگ انگ میں رچی ہے۔
اس سے الگ ہونا اتنا آسان نہیں ہے پہلے نریندرمودی کا نام خود ہندوستان سے لے کر امریکا تک میں بدنام تھا جسے دھو دھو کر اتنا شفاف و اجلا کردیا گیا کہ انھیں وزیر اعظم کے اعلیٰ منصب پر بٹھا دیا گیا اب امریکا کے بھی ویزے کھل گئے اور اسرائیل کے بھی۔ ایک پرانے اصل حقیقی مسئلے کو ماضی میں بھی حل نہ کیا جاسکا فلسطین کا نام نہتا مسلمان کے جہاد کی علامت بن گیا ہے، لیکن بی جے پی سرکار اس کو اپنے سے جوڑ کر اتنی بے پر کی چھوڑ رہی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ بی جے پی کے ڈاکٹر براس کھلے عام جس انداز سے پاکستان کو فتح کرلینے اور ایٹم بم کی باتیں کر رہے ہیں ۔
ان کی نظر میں پاکستان کے عوام کے خون کی کوئی اہمیت نہیں ، موصوف کو پاکستان سے نہیں چین سے خوف ہے، فرماتے ہیں کہ پاکستان کو شکست دینے کے لیے چین کو غیر جانبدار ہونا چاہیے،کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے جنگ کی باتیں کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ ڈائیلاگ نہیں جنگ ہے بھارت کو پاکستان پر ایٹم بم پھینک دینا چاہیے اور اگر دس کروڑ لوگ مر جائیں گے تو کوئی بڑی بات نہیں۔
نریندر مودی نے اپنے دفاع کے لیے جو نئی خریداریاں کی ہیں کیا وہ اسی جنگ کی تیاری کا حصہ ہیں یا ان سب باتوں کو درمیانی سے بڑھتی عمر کا پاگل پن سمجھ کر نظرانداز کردیا جائے۔
کیا واقعی ہمیں فلسطین اور کشمیر کے مسئلے، محض مسئلے بناکر رکھ دینے چاہئیں کیا، ان کا حل کبھی نہیں ہوگا یا مسلم امہ کی سردمہری اسلامی خطوں کو مزید سکیڑ دے گی، یہ ساری زمین پروردگار کی ہے وہ جسے چاہے عطا کردے لیکن وہ اپنی مخلوق سے بہت پیار کرتے ہیں، ان کی مخلوق کا بہتا لہو ہم سب کو ان کے عذاب میں مبتلا کرسکتا ہے، سوچیے تو...!