اسلامی بینکاری مفروضے اور غلط فہمیاں

پاکستان کی بینکاری صنعت نے اسلامی بینکنگ کےلیے دنیا میں مثال قائم کی ہے


Ehtisham Mufti October 15, 2024
پاکستان کا ماڈل دیگر مارکیٹوں کو قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں اسلامی بینکاری تیزی سے ترقی کررہی ہے اور اس کے مارکیٹ شیئرز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جو 2019 کے 14.9 فیصد سے بڑھ کر ستمبر 2023 میں 19.6 فیصد ہوگیا۔


اسلامی بینکاری روایتی بینکنگ کا بہترین متبادل ہے، جو شفافیت، عدل اور سماجی انصاف کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔ شریعت کے اصولوں کے مطابق اسلامی بینکاری میں رِبا (سود) اور غرار (قیاس آرائیوں پر مبنی سرگرمیوں) کی ممانعت ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ مالی لین دین ٹھوس اثاثوں اور باہمی فائدے پر مبنی ہو۔ یہ اخلاقی بنیاد ایک متوازن رسک اینڈ ریوارڈ سسٹم کو فروغ دیتی ہے، جس میں بینکوں اور صارفین دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، جو اقتصادی عدم استحکام کے اس دور میں اسے مزید پرکشش بناتی ہے۔


منافع بخش، اچھی طرح منظم اور مسابقتی شعبہ ہونے کی وجہ سے اسلامک بینکنگ نے عالمی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل کی ہے، جسے مضبوط ریگولیٹری فریم ورک اور اخلاقی مالیات کے صارفین کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔


22 اسلامی مالیاتی اداروں پر مشتمل پاکستان کے مالیاتی شعبے میں اب 6 مکمل اسلامی بینک (میزان بینک، فیصل بینک، دبئی اسلامک بینک پاکستان، بینک البرکہ، بینک اسلامی اور ایم سی بی اسلامک بینک) ہیں، جب کہ روایتی بینکوں (کنونشنل بینکوں) کے 16 اسلامی بینکاری ڈویژن 131 اضلاع میں کام کررہے ہیں۔ اس دوران 107 نئی اسلامی بینکاری شاخوں کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ان کی مجموعی تعداد 4534 اور روایتی بینکوں کے اسلامی بینکاری کاؤنٹرز کی تعداد 1834 پر پہنچ گئی ہے۔


یہ صنعت اگرچہ صدیوں پرانی روایات سے جڑی ہوئی ہے لیکن دور جدید کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اس میں جدید مالیاتی مصنوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ سکوک (اسلامی بانڈز) سے لے کر مضاربہ (نفع و نقصان میں شراکت داری) تک اسلامی بینکاری مختلف آپشنز پیش کرتی ہے، جو ریٹیل اور کارپوریٹ دونوں قسم کے صارفین کی ضروریات پورا کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اس نے مستحکم ترقی اور عالمی پہچان بنائی ہے۔


اسلامی بینکاری کی حقیقی نوعیت اور فوائد کو سمجھنا افراد اور کاروباری اداروں کو اپنی مالیاتی حکمت عملیوں کے حوالے سے درست فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اس سے ایک ایسے مالیاتی نظام میں شمولیت بڑھتی ہے، جس میں دولت کی منصفانہ تقسیم، سماجی فلاح و بہبود اور پائیداری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مالی شمولیت، معاشی استحکام اور اخلاقی اصولوں پر مبنی سرمایہ کاری کی صلاحیت نے اسلامک بینکنگ کو روایتی بینکاری کا مضبوط متبادل بنادیا ہے، جس سے منصفانہ اور پائیدار عالمی مالیاتی نظام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔



مفروضوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کےلیے چند وضاحتیں



لط فہمی نمبر 1: اسلامی بینکاری صرف مسلمانوں کےلیے ہے


ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اسلامی بینکاری صرف مسلمانوں کےلیے مخصوص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری شرعی اصولوں پر مبنی ہے، جس میں اخلاقی طریقوں اور انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ یہ اصول عالمگیر ہیں اور ہر اُس شخص کے لیے پرکشش ہیں جو شفافیت اور اخلاقی مالیاتی نظام کا متلاشی ہے۔ اسلامی بینک تمام عقائد اور پس منظر کے حامل صارفین کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ایسی مصنوعات پیش کرتے ہیں جو شرعی اصولوں کے مطابق ہوں اور اُن لوگوں کےلیے مفید ہوں جو اخلاقی مالیاتی حل کو پسند کرتے ہیں۔



غلط فہمی نمبر 2: اسلامی بینکاری منافع بخش نہیں


اپریل تا جون 2023 کی سہ ماہی کے دوران اسلامی بینکوں کے اثاثوں میں 586 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور جون کے اختتام تک اثاثے 8 ٹریلین روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ اسلامک بینکنگ کا ڈپازٹ 5870ارب ریکارڈ کیا گیا، جس سے مجموعی بینکاری صنعت میں مارکیٹ شیئر 21.9فیصد ہوگیا۔ اس عرصے کے دوران اسلامی بینکاروں اداروں کی مجموعی سرمایہ کاری اور فنانسنگ میں بالترتیب 354 ارب اور 98 ارب روپے اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر بینکنگ سیکٹر میں اسلامی بینکاری کا مارکیٹ شیئر 16.1 فیصد اور فنانسنگ 27.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔


ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی بینکاری روایتی بینکنگ کے مقابلے میں کم منافع بخش نہیں۔ ناقدین اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ رِبا (سود) اور غرار (قیاس آرائیوں پر مبنی لین دین) کی ممانعت منافع کو محدود کرتی ہے۔ تاہم اسلامی بینک نفع و نقصان میں شراکت، لیزنگ اور دیگر تجارتی طریقے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے منافع روایتی بینکوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتا۔ اسلامی بینک اکثر ٹھوس اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اپنے صارفین کے ساتھ منافع اور نقصان دونوں میں شراکت کرتے ہیں، جس سے پائیدار اور مساوی مالیاتی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری منصوبوں کا انتخاب اور ریسرچ کا عمل انتہائی محتاط ہوتا ہے، جس میں تمام ممکنہ شکوک و شبہات کو دور کیا جاتا ہے اور شرعی اصولوں کی فہرست میں سب سے بہترین راستے پر عمل کیا جاتا ہے۔



غلط فہی نمبر 3: اسلامی بینکاری مختلف اصطلاحات کے ساتھ روایتی بینکاری ہی کی طرح ہے


کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلامی بینکاری روایتی بینکنگ ہی ہے، بس اس کا نام تبدیل کردیا گیا ہے، جو اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص مارکیٹ کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اسلامی بینکاری میں مرابحہ (لاگت کے ساتھ منافع)، اجارہ (لیزنگ) اور مضاربہ (نفع و نقصان میں شراکت) جیسی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں، لیکن بنیادی اصول کافی حد تک مختلف ہیں۔ اسلامی بینکاری بنیادی طور پر اثاثوں پر مبنی ہوتی ہے اور اخلاقی اصولوں پر مبنی سرمایہ کاری، نفع و نقصان میں شراکت اور سماجی انصاف پر توجہ دی گئی ہے۔ اس میں ایسی سرگرمیوں سے گریز کیا جاتا ہے جو معاشرے کےلیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں۔ جیسے شراب، جوا اور ممنوعہ صنعتوں میں سرمایہ کاری۔



غلط فہمی نمبر 4: اسلامی بینکاری غیرمنظم اور کم محفوظ ہے


اسلامی بینک روایتی بینکوں کی طرح سخت ضابطوں اور نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی بینکاری قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہیں اور اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹنگ آرگنائزیشن فار اسلامک فنانشل انسٹی ٹیوشنز (اے اے او آئی ایف آئی) اور اسلامک فنانشل سروسز بورڈ (آئی ایف ایس بی) جیسے اداروں کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ یہ ضابطے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اسلامی بینک شفافیت، جوابدہی اور حفاظت کے اعلیٰ معیارات پر عمل کریں۔ علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اسلامی بینکاری صنعت کے لیے علیحدہ سے قواعد و ضوابط بنائے ہیں۔



غلط فہمی نمبر 5: اسلامی بینک مسابقتی مالیاتی مصنوعات فراہم نہیں کرتے


اسلامی بینک مالیاتی مصنوعات اور خدمات کی ایک وسیع رینج پیش کرتے ہیں، بشمول بچت اکاؤنٹس، ہوم فنانسنگ، کاروباری قرضے اور سرمایہ کاری فنڈز۔ یہ مصنوعات مارکیٹ میں مسابقتی رہتے ہوئے شرعی اصولوں کے مطابق تشکیل دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرابحہ معاہدہ ہوم فنانسنگ کےلیے استعمال ہوتا ہے، جس میں بینک جائیداد خریدتا ہے اور اسے منافع پر صارف کو فروخت کردیتا ہے۔ اس طرح صارف کو سود کے بغیر گھر کی ملکیت مل جاتی ہے۔


مثال کے طور پر فیصل بینک مختلف صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے شریعت کے مطابق سلوشنز بناکر مسابقتی اور جامع مالیاتی مصنوعات پیش کرتا ہے، جس میں انفرادی اور کارپوریٹ بینکاری خدمات شامل ہیں۔ ان مصنوعات نے ایف بی ایل کو پاکستان کا دوسرا بڑا اسلامی بینک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ میزان بینک سب سے بڑا اسلامی بینک ہے۔ مختلف کنونشنل بینک اپنی نمایاں شاخوں کو اسلامی بینکاری ونڈوز میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اسلامی بینکوں نے بھی آسان اور جدید خدمات کی فراہمی کےلیے ڈیجیٹل بینکنگ کو اپنایا ہے۔


اسلامی مالیات کی تاریخ اور ثقافتی پس منظر کے تحت فیصل بینک مختلف صارفین کو اسلامی بینکاری کے اخلاقی اصولوں اور مالی فوائد کو فروغ دینے میں صنعت کی قیادت کررہا ہے۔ اس کا نور کارڈ جدید ترین اسلامی مصنوعات میں سے ایک ہے۔ یہ توارق کے اصول پر مبنی ہے اور اس میں مسوامہ فنانسنگ شامل ہے۔ توارق سے مراد مساومہ کے ذریعے موخر ادائیگی کےلیے کسی شے کی خریداری کا عمل ہے۔



پاکستان کا جرأت مندانہ وژن: 2027 تک بینکوں پر مکمل شرعی اصولوں پر عملدرآمد کی پابندی


ان سازگار حالات اور صنعتی شراکت داروں کی مشترکہ کوششوں کے پیش نظر پاکستان کا 2027 تک تمام بینکنگ اثاثوں کو مکمل شرعی اصولوں کے تحت تبدیل کرنے کا ہدف نہ صرف حقیقت پسندانہ ہے بلکہ قابل حصول بھی ہے۔ عوامی آگاہی، ریگولیٹری سپورٹ، جدید مصنوعات، شفاف کارکردگی کے پیمانے اور تاریخی قانونی حیثیت کے تحت نہ صرف اسلامی بینکنگ ترقی کررہی ہے بلکہ بڑے پیمانے پر مقبولیت بھی حاصل کررہی ہے۔


پاکستان کی بینکاری صنعت نے نہ صرف قومی معیشت میں اپنی پوزیشن مستحکم بنائی ہے بلکہ اسلامک بینکنگ کےلیے دنیا میں مثال قائم کی ہے۔ جامع ریگولیٹری فریم ورک کے نفاذ، مالیاتی مصنوعات میں جدت کا فروغ اور شریعت کے مطابق بینکاری طریقوں پر عمل کرکے پاکستان نے ایک مضبوط مالیاتی نظام قائم کیا ہے۔ ملک میں اسلامی بینکاری کی ترقی اخلاقی اصولوں پر مبنی مالیات کے لیے صارفین کی بڑھتی ہوئی طلب، حکومت کی مدد اور بینکاری شعبے کے اہم شراکت داروں کی اسٹرٹیجک کوششوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پاکستان کا ماڈل دیگر مارکیٹوں کو قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے، جو اسلامی بینکاری کو ترقی دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح روایات اور جدید مالیاتی طریقوں کا متوازن امتزاج مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹوں کو کامیابی سے خدمات فراہم کرسکتا ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں