داستان گو ابھی خاموش نہیں ہوا
گزر تو خیرگئی ہے تیری حیات قدیرؔ<br />
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
ڈاکٹر قدیر خان بالکل سچ کہا کرتے تھے کہ اگر مجھے بم نہ بنانے دیا گیا تو پھر راولپنڈی کے راجہ بازار میں لنگوٹیوں والے پھرا کریں گے۔ اس بات کی صداقت عملاً ہمیں معلوم ہو چکی ہے۔ کئی باربھارتی فوجیں ہماری سرحدوں سے واپس جا چکی ہیں ۔
مجھے وہ کرکٹ ڈپلومیسی بھی یاد ہے کہ جب ضیاء الحق نے ہندوستان میں وزیر اعظم راجیو گاندھی سے معانقہ کرتے ہوئے ان کے کان میں سرگوشی کی تھی کہ ہمارے پاس بھی ایک ''کھلونا'' موجود ہے ۔ یہ پاکستانی ایٹم بم کا وہ پہلا اعتراف اور اعلان تھا جس کے بعد بھارت کی پاکستان کے متعلق جارحانہ پالیسی میں ٹھہراؤ آگیا اور آج تک سرحدی محاذوں پر یہی پالیسی جاری ہے لیکن سرحدوں کے اندر پاکستان میں ایسے نام نہاد لبرل لوگ موجود ہیں جو بھارت کے ہمدردیاں رکھتے ہیں ۔ یہ بات بھی اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ ہم بھارت کے لیے ناقابل ذکر ہوتے جارہے ہیں۔
اس پر مزید تبصرہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ لیکن جب قابل ذکر تھے بھی تب بھی جنگوں سے نہ ہمیں کچھ ملا نہ بھارتیوں کو۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکا کے موقع پر کہا تھا کہ ''دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا ہے'' ۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ہی اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر بھارت کی جارحیت سے محفوظ رہنا ہے تو پاکستان کو ایٹم بم بنا پڑے گا۔ بھٹو صاحب کی دلیرانہ کاوشوں سے اس پروگرام کا آغاز ہوا جب کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔
اس جرم کی سزا سب نے بھگتی۔ بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے، ضیاء الحق کا طیارہ گرا کر انھیں ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا ، نواز شریف نے ایٹم بم بنانے کا باقاعدہ اعلان کیا اور ژدھماکے کرنے کا حکم دیا، وہ اس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں اور سب سے زیادہ بے توقیر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انھیں محسن سے مجرم بنا کر انھیں گھر میں بند کر دیا گیا۔ ایک قومی ہیرو کے ساتھ اتنا تضحیک آمیز سلوک شاید ہی کسی حکومت نے کیا ہو۔ اس سلوک کا گلہ ڈاکٹر صاحب اپنے ایک لازوال شعر میں کیا خوب گر گئے ہیں۔
گزر تو خیرگئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور برسی نہایت خاموشی سے گزر گئی۔ کسی سرکاری تقریب کا ذکر سننے یا دیکھنے کو نہیں ملا۔ شاید ہمارے حکمرانوں کو کوئی ایسا خوف لاحق ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں حالانکہ اب تو وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو چکے ہیں جہاں سے وہ کسی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان سے لاتعلقی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔
مرحوم والدصاحب ڈاکٹر صاحب سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ وہ '' محسن پاکستان ''کا اپنے کالموں میں تواتر کے ساتھ ذکر کرتے تھے تاکہ نوجوان نسل ان کی قربانیوں سے آگاہ رہے ۔ میری بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہماری جوان ہوتی نسل محسن پاکستان سے واقف رہے ۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ہمیشہ دو آدمیوں کے نام سے پہچانا جائے گا ۔ ایک قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ایک نے پاکستان بنایا اور دوسرے نے اسے نا قابل تسخیر بنا دیا۔ ایک کو ہم بانی پاکستان کہتے ہیں اور دوسرے کو محسن پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنی عمر بھر کی کمائی قوم کی نذر کر دی اور جتنا ہنر حاصل کیا تھا وہ قوم کے حوالے کر دیا۔
ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ بھارت کے ساتھ جنگیں ہوئیں ، چپقلشیں برقرار رہی ہیں اوراندرونی طور پر فوجی آمریتوں کی وجہ سے پاکستان وہ نہ بن سکا جس کا نقشہ قائد اعظم کے ذہن میں تھا۔ غیر جمہوری حکومتوں نے پاکستان کو کمزور کر دیا ، اسی وجہ سے دشمن پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس سانحے کے بعد قوم کا ایک حقیقی لیڈر پیدا ہوا جسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے یاد رکھا جائے گا ،جس نے یہ نعرہ لگایا کہ اب پاکستان پر دوبارہ کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا اور اس نے اپنا یہ نعرہ سچ کر دکھایا جس پر پاکستانیوں نے انھیں محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ مخالفوں کے دلوں میں یہ نعرہ تیر بن کر اتر گیا ۔ لیکن ہمارے پاکستانی حکمرانوں اور بااختیار لوگوں نے پہلے قائد اعظم کے نظریات اور بعد میں ڈاکٹر قدیر خان کی ذات کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایک تلخ داستان ہے جس کا داستان گو ابھی خاموش نہیں ہوا۔