جب تھکاوٹ اور اکتاہٹ سکون تلاش کرتی ہے

ڈینٹسٹوں کے مطابق نسوار نہ صرف مسوڑھوں کو خراب کرنے بل کہ ہونٹوں کا کینسر کا باعث بنتا ہے۔


Rokhan Yousufzai September 23, 2012
فوٹو: فائل

ISLAMABAD: انسان نے نشہ آور چیزوں کا علم اور استعمال کب اور کیوں کر شروع کیا؟

اس سلسلے میں علم بشریات کے ماہروں کا خیال ہے کہ جب سے انسان نے اس کرۂ ارض پر آنکھ کھولی، اس نے اپنے آپ کو درپیش دکھوں، مصیبتوں، ذہنی پریشانیوں اور جسمانی تکالیف سے چھٹکارا دلانے کے لیے ابتدا میں اپنے ارد گرد پائی جانے والی ''نباتات'' کا استعمال شروع کیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان نے کسی پودے کی جڑوں یا پتوں کو منہ میں چبایا ہو اور اس چبانے کے دوران اسے کسی پودے، بوٹے میں پائے جانے والے نشے کا سراغ ملا ہو۔ وہ اس طرح کہ شاید اسے چکر آگیا ہو یا اس پودے کے چبانے یا اس کے پتے کھانے سے اس پر نیند طاری ہوگئی ہو، جس نے بعد میں ان نشہ آور پودوں اور بوٹیوں کو اس لیے استعمال کرنا شروع کرد یا کہ اپنی اکتاہٹ اور پریشانی کا کو بھول سکے اور زندگی کے تلخ حقائق سے ہویدا بے چینی، اضطراب اور کرب کا مقابلہ کر سکے۔

انسان ہمیشہ سے اپنے آپ کو خوش وخرم اور پرسکون رکھنے کے لیے مختلف ذرایع ڈھونڈتا چلا آیا ہے، جس کی خاطر ہزاروں سال پہلے کے انسان نے نشہ آور چیزوں کا استعمال شروع کیا۔ اس حوالے سے جب ہم پختونوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس تاریخ میں ہمیں سب سے پہلے پھول کے ایک ایسے پودے کا وجود ملتا ہے، جس کے بارے میں اس وقت کی ایک پختون محبوبہ نے چاند کے سامنے اپنی محبت کی جھولی پھیلاتے ہوئے پشتو کا یہ مشہور تاریخی ٹپہ گایا،

سپوگمیہ کڑنگ وخہ راخیجہ
یارمے دگلولوکوی گوتے ریبینہ

(اے چاند جھنکار کے ساتھ نکل آ، میرا محبوب پھولوں کی کٹائی میں اپنی انگلیاں کاٹ رہا ہے)

پشتو کے اس ٹپے پر اب تک جو تحقیق کی گئی ہے، اس سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ ٹپہ تقریباً 2 ہزار سال قبلِ مسیح اس وقت بولا گیا، جس زمانے میں موجودہ صوبہ خوا خصوصاً سوات اور ہندوستان کے چند علاقوں میں ایک قسم کا پھول ''سوما'' کے نام سے ہوا کرتا تھا، جس سے رس نکال کر اس میں دیگر چیزوں کی ملاوٹ سے ایک خاص قسم کا نشہ آور مشروب تیار کیا جاتا تھا۔ اس پھول '' سوما'' میں جو خاص قسم کا شیرہ ہوا کرتا تھا، وہ دن کی روشنی میں سورج کی تیز شعاعوں کی وجہ سے خراب ہوجاتا تھا۔ اس لیے اس کی کٹائی چاند کی روشنی ہی میں کی جاتی تھی۔

نباتاتی اور زرعی تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ سوما پھول کے علاوہ پوری دنیا میں اور کوئی ایسا پھول نہیں ہے، جس کی کٹائی دن کے بجائے رات کو چاند کی روشنی میں ہوا کرتی تھی۔ ویدک زمانے کے دوران میں اور اس کے بعد آریائی قبائل کے ہاں ''سوم رس'' کو خصوصی اہمیت حاصل رہی۔ یہ ایک ایسے پھول دار پودے کا رس تھا جو پتھر پر پیس کر نکالا جاتا تھا۔ دودھ، دہی اور گھی کے ساتھ اس نشہ آور مشروب کو مختلف النوع قربانیوں کے وقت پیا جاتا تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رِگ وید کا پورا نواں منڈل صرف سوم رس کے لیے مخصوص ہے۔ اس میں ایک سو چودہ نظمیں ہیں، جن کا موضوع سوم رس ہے۔ ہند یورپی قبائل اس رس کو ایران میں بھی استعمال کیا کرتے تھے اور ''اوستا'' میں اس کا ذکر ''ہوم'' کے نام سے آیا ہے۔ سوم رس کو آرین قبائل آب حیات مانتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اسے پینے والا دیوتائوں کی طرح امر ہو جاتا ہے۔

'' اندردیوتا'' اس رس کا بڑا رسیا تھا اور وہ اس کے خم کے خم لنڈھاتا تھا۔ اس نسبت سے سوم رس کو دیوتائوں کا درجہ بھی دیا گیا۔ چاند کے ساتھ بھی اس کا ناتا جوڑا جاتا ہے اور یہ ذکر ہمیں رگ وید کی تین نظموں میں ملتا ہے۔ رگ وید میں علامتی طور پر تین چھلنیوں کا ذکر آتا ہے۔ ''سوما'' یا ''ہوما'' پودے کے بارے میں اتنی طویل بحث سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ صوبہ خیبرپختون خوا کے قدیم باشندوں میں''سوم رس'' پینے کی روایت موجود تھی اور وہ بھی ایک ایسی روایت، جسے مذہبی تقدس اور معاشرتی تحفظ بھی حاصل تھا۔ دوسری اہم بات اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح بعد میں دیگر مقامی اور روایتی نشوں کا ذکر پشتو کی عوامی شاعری، خصوصاً ٹپے میں ہوتا رہا ہے، اس طرح آج سے ہزاروں سال قبل بھی اس صنف میں سوما پودے کا ذکر موجود ہے۔

ویسے تو قدیم روایتی نشوں، افیون، بھنگ، چرس یا پان کے بارے میں بھی پشتو زبان کی شاعری میں بے شمار اشعار ملتے ہیں، لیکن جہاں تک چلم اور حقے کے ذریعے تمباکو پینے کا تعلق ہے، تو اس کے استعمال نے پختون ثقافت پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ خصوصاً خیبرپختون خوا اور پنجاب میں تو دیسی تمباکو چلم اور حقے میں پینے کا عام رواج ہے۔

حقہ، جسے پختون چلم کہتے ہیں، تمباکو نوشی کا سب سے پرانا اور روایتی طریقہ ہے۔ برصغیر میں اس کی ابتدا مغلیہ دور میں ہوئی تھی۔ مورخین کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں اس کا آغاز 1600 میں ہوا اور اکبراعظم نے اس کا باقاعدہ آغاز دربار میں کیا۔ اس وقت کے طبیبوں نے اکبر بادشاہ سے کہا تھا کہ اگر تمباکو کے دھویں کو پانی سے گزارا جائے تو اس کے مضر اثرات کم ہو سکتے ہیں، جس کے بعد بادشاہ نے حقے کا باقاعدہ آغاز کیا اور حقہ کلچر اتنا عام ہوگیا کہ حقہ پیتے ہوئے سیاست کی چالیں چلی جاتیں، امراء اور سفارت کار ملاقاتوں کے ذریعے بڑے بڑے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرتے اور ان کے مابین حقے کا استعمال جاری رہتا، جس کے بعد حقہ نوشی عام لوگوں میں پھیل گئی۔ وہاں سے یہ راجستھان ' گجرات میں پھیل گیا اور یوں حقہ کلچر موجودہ پاکستان کے دوسرے حصوں تک پھیل گیا۔ پاکستان سے حقہ کلچر ایران، افغانستان، مشرق وسطی، افریقہ اور بعد میں یورپی ممالک میں پھیلتا گیا۔

حقے کا، جسے پنجاب میں گڑاکو بھی کہتے ہیں، تمباکو رکھنے والا کھوکھا بڑا ہوتا ہے اور اس میں نل کے بجائے ربڑ کا پائپ ہوتا ہے، جس کے ذریعے لوگ حقہ پیتے ہیں اور اس میں گڑ کا شیرہ تمباکو میں ملاکر پیا جاتا ہے، جس میں دو ذائقے، میٹھا اور کڑوا ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں صوبہ خیبرپختون خوا میں چلم ہوتا ہے جس کا تمباکو رکھنے والا کھوکھا چھوٹا ہوتا ہے اور یہاں تمباکو سخت اور نرم ہوتا ہے۔ نرم تمباکو خواتین، جب کہ سخت تمباکو مرد استعمال کرتے ہیں۔

حقہ بنانا ایک فن تھا اور بڑے پرانے حقہ پینے والے حقے کو بھرنا جانتے تھے۔ ابتداء میں حقے کا ڈیزائن بہت سادہ تھا۔ ایک سادہ نلکی کے ذریعے حقے سے دھواں لیا جاتا تھا۔ اس کا نچلا حصہ مٹی کا بنا ہوتا تھا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی گئی اور اس کا نچلا حصہ پیتل کا بھی بننے لگا۔ حقے یا چلم میں استعمال ہونے والا تمباکو بھی مخصوص قسم کا ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں بعض عرب ممالک میں حقہ شاپس ہیں، جہاں لوگ آکر سیاسی اور دیگر موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔

حقہ ( چلم ) استعمال کرنے والے افراد کو پشتو زبان میں چلمچی کہا جاتا ہے۔ چلم پینے کے شوقین افراد حقے کا تمباکو اپنے ساتھ مخصوص کپڑوں کے تھیلوں میں لیے پھرا کرتے تھے۔ حقے کا جو ڈیزائن اس وقت خیبرپختون خوا میں استعمال ہوتا ہے، وہ مٹی کا ہے اور اس میں مخصوص نلی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حقہ ایک جگہ پر پڑا رہتا ہے، اسے کہیں گھمایا نہیں جاتا۔ پنجاب میں اس کا ڈیزائن بہت مختلف ہے اور اس میں ربڑ کے پائپ کے ذریعے لوگ دھواں لیتے ہیں اور اسے لوگ گھروں سے اٹھا کر اپنی زمینوں پر لے جاتے ہیں۔

حقے کو سعودی عرب میں ًہبل ببل ً ، جب کہ شام، مصر اور مراکش میں شیشہ بھی کہا جاتا ہے۔ حقے کے ذریعے تمباکو نوشی کا عمل صدیوں سے برصغیر پاک و ہند میں جاری و ساری ہے، تاہم اس عمل میں گذشتہ کئی عشروں سے کمی آئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی کی رفتار میں تیزی اور جدید دور کے اشیاء کا استعمال ہے۔ حقہ کسی زمانے میں ہر حجرے میں لازمی ہوا کرتا تھا، اسی طرح سرائیوں اور ہوٹلوں میں حقہ ضرور موجود رہتا تھا۔ قافلوں میں آنے والے دور دراز کے لوگ بیٹھ کر نہ صرف حقے کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے، بل کہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے علاقوں کی کہانیاں اور داستانیں بھی سنایا کرتے تھے۔

اس کو بھروانے کے لیے ملازم مخصوص ہوا کرتے تھے، جو حقے کو تازہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا پانی بھی تازہ رکھتے تھے۔ حقے (چلم) کے ذریعے پینے والا تمباکو مخصوص قسم کا ہوتا ہے، جسے ورجینیا یا ملکی تمباکو کہا جاتا ہے۔ تاہم، انیسویں صدی میں سگریٹ کی آمد کے ساتھ ہی لوگ حقے کو چھوڑ کر سگریٹ کی جانب راغب ہوگئے اور پاکستان میں حقہ کلچر میں کمی آتی گئی۔ موجودہ دور میں سگریٹ نوشی کے باعث حقہ کلچر شہروں سے مکمل طور پر ختم ہوتا جارہا ہے، جب کہ دیہات میں اس کا استعمال اب بھی کہیں کہیں دیکھنے میں آتا ہے۔

پہلے زمانے میں لوگ حقے ( گڑاکو ) یا چلم کے ذریعے کالی چائے کا دھواں لے کراس سے پیٹ کے درد کا علاج بھی کیا کرتے تھے، جو اب بھی پہاڑی علاقوں میں کہیں کہیں رائج ہے، جب کہ عام لوگوں میں حقے ( چلم ) کے پانی کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس کا پانی جادو کے اثرات کو کم کرتا ہے۔ اسی باعث بعض خواتین ٹوٹکوں کے طور پر چارپائیوں، گھر کے کونوں کھدروں میں اس کے پانی کا چھڑکا کرتی ہیں، تاکہ انہیں کسی کی نظر نہ لگے۔ بعض لوگ اب بھی چلم کے پانی کو خارش کے خاتمے کے لیے بطور دوا استعمال کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کے دوتین قطرے گلاس میں ڈال کر پیتے ہیں، تاکہ ان پر جادو کا اثر نہ ہوسکے۔

حقے کے ذریعے تمباکو نوشی کرنے والے افراد کا موقف ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف صاف دھواں ملتا ہے، بل کہ تمباکو کے مضر اثرات بھی کم ہوتے ہیں اور انسان کو سوچنے سمجھنے کے لیے وقت بھی ملتا ہے اور یہ فراغت کے وقت پیا جاتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں سگریٹ کا دھواں صاف نہیں ہوتا اور یہ جلدی میں پیا جاتا ہے۔ حقہ استعمال کرنے والے بعض افراد کا یہ بھی موقف ہے کہ اس کے ذریعے تمباکو نوشی سے نکوٹین کے مضر اثرات کم ہوتے ہیں، اسی باعث حقہ پینے والوں کا سینہ خراب نہیں ہوتا۔ حقہ پینے والے افراد کا کہنا ہے کہ حقہ پینا ایک فن ہے اور اسے ہر کوئی نہیں پی سکتا۔ اسے پینے کے لیے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس وقت حقہ ( چلم ) کا استعمال زیادہ تر خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں واقع مزارات میں بھی ہوتا ہے، جہاں عرس کے دنوں میں باقاعدہ لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر اسے پیتے ہیں۔

قبائلی علاقوں کے لوگوں کے ذاتی حجروں میں حْقہ زیادہ ہوتا ہے، جب کہ دیہات میں اس کا استعمال خال خال ہی ہو رہا ہے اور اسے صرف بعض بزرگ لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ بسا اوقات نوجوان بھی ترنگ میں آکر حقے ( چلم ) کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ حقہ کے ذریعے تمباکو نوشی جو پختون روایات میں حجرے کی شان ہوا کرتی تھی، اب آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے اور نوجوان نسل اب حقے کے بجائے سگریٹ نوشی کو زیادہ ترجیح دینے لگی ہے، جب کہ آج سے چند سال پہلے تو خیبرپختونخوا کے کسی بھی علاقے یا گائوں کے حجرہ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اس میں چلم نہ ہو۔ پختونوں کی معاشرتی زندگی میں حجرہ اور چلم لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے، اور اکثر لوگ اسے مذاقاً حجرے کا''مشر'' (بزرگ) بھی کہتے تھے۔

چلم نوشی کے عادی افراد کو جب کوئی یہ نصیحت کرتا ہے کہ اس کے پینے سے صحت خراب ہوتی ہے تو جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ''چلم تازہ پہ تازہ پہ کال کے دولس چرگان، کہ تاتہ ئے درکڑو نقصان نو دائے زہ علی خان''، یعنی چلم تازہ بہ تازہ پیا کرو اور سال میں 12 مرغ کھایا کرو۔ اگر پھر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار میں، علی خان ہوںگا۔''

چوںکہ پہلے لوگوں کی مالی حیثیت اتنی نہیں تھی کہ وہ روزانہ اچھی اچھی خوراک کھائیں اس لیے وہ یہ بھی غنیمت سمجھتے تھے کہ انہیں مہینے میں ایک بار ایک مرغ کھانے کے لیے مل جائے۔ اس طرح جب کوئی کسی راہ گیر مہمان کو اپنے ہاں تھوڑی دیر کے لیے قیام یا کھانے پینے کی دعوت دیتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ''رازہ کنہ سہ اوبہ چلم راسرہ اوکڑہ'' (آئیے نا ہمارے ساتھ پانی چلم کرتے جائیں)

چلم ، حقہ ہماری اجتماعی زندگی کی نمایندہ چیز تھی، کیوںکہ اس کی نالی پر ہر کوئی بہ یک وقت ہونٹ رکھتا تھا، اسی ایک چلم کا مشترکہ استعمال ہوتا تھا، البتہ غریب یا دہقان صرف اتنا کرتا کہ خان، نواب یا جاگیردار کے ہاتھ سے تمباکو لے کر خود چلم بھرتا اور سب سے پہلے اسی خان، نواب کو پلاتا تھا۔ لیکن جب سے سگریٹ کی ایجاد اور استعمال شروع ہوا تو چلم کی روایت آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی کیوںکہ سگریٹ میں مختلف قسم کے برانڈ نے معاشرتی اور طبقاتی بنیادوں پر ان لوگوں کو تقسیم کردیا، جو لوگ اکٹھے دائرہ بناکر یا حجرہ میں ایک ساتھ بیٹھ کر ایک ہی قسم کا تمباکو حقے میں استعمال کرتے تھے۔ اب خان، نواب اور جاگیردار کی سگریٹ کا برانڈ اور غریب مزدور اور کاشت کار کی سگریٹ کے برانڈ میں زمین اور آسمان کا فرق آچکا ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اس روایتی نشے چلم اور حقے کا استعمال بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن چلم اور حقے نے ہماری معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں بہت رومانوی، صوفیانہ اور ادبی کردار بھی ادا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمباکو کا پائپ فلسفی کے لبوں سے حکمت و دانش حاصل کرتا ہے اور احمق کے ہونٹ سی دیتا ہے۔ پائپ ایسی گفتگو کو ترویج دیتا ہے جو مفکرانہ خیال انگیز وسیع النظر اور تکلف یا تصنع سے بالکل عاری ہوا کرتی ہے۔ اردو کے معروف ادیب اور دانش ور مرحوم ڈاکٹر وزیرآغا اپنے ایک انشائیہ ''حقہ پینا'' میں لکھتے ہیں کہ ''حقیقت یہ ہے کہ حقہ پینا ایک اتنا بڑا تہذیبی عمل ہے کہ اس کے آگے جملہ تہذیبی خرافات گرد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ہمارے بزرگوں کو حقہ پینے کے اس خاص پہلو کا نہایت گہرا احساس تھا جبھی تو انہوں نے دوسری جماعت کی اردو کتاب میں ماں کو بچے سے پیار کرتے اور باپ کو حقہ سے لو لگاتے ہوئے دکھایا تھا۔

تمباکو سے پیدا ہونے والی مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں، چلم ، سگار، پائپ، سگریٹ اور نسوار کا تاریخی سفر بہت طویل ہے اور ہر ایک چیز پر الگ الگ تفصیلی اور تحقیقی مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ چلم کے علاوہ پختونوں کے روایتی نشوں میں نسوار کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، اور نہ اس بات سے کہ نسوار کا جتنا استعمال اور رواج پختونوں میں پایا جاتا ہے، دنیا کی دیگر قوموں میں ہمیں نظر نہیں آتا۔ جس کی بنیادی وجہ اس قوم کی معاشی اور علمی پس ماندگی ہے۔ غربت کے مارے پختونوں کی اکثریت دیگر منہگے نشوں کے استعمال کی مالی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے سب سے سستا نشہ نسوار ہی پر مجبوراً گزارہ کرتی رہتی ہے اور اپنی معاشی اور تہذیبی پس ماندگی پر پردہ ڈالنے کی خاطر وہ نسوار کے نشے کو جنات کے نشہ کا نام دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نسوار کو صرف پختونوں کا نشہ تصور کیا جاتا ہے اور پختون اور نسوار لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ اردو زبان کے معروف ناول نگار، فلم ساز اور خاکہ نویس رحیم گل کہا کرتے تھے کہ میں فلم انڈسٹری میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ پختون کے ہاتھ سے نسوار کی ڈبیا لے کر پھینک دوں، حالاں کہ نسوار اس قوم کی ایجاد نہیں ہے، بل کہ بعض مورخین کے خیال میں جس طرح ورجینیا تمباکو امریکا کی پیداوار ہے، اس طرح نسوار کو بھی امریکا کی ایجاد سمجھا جاتا ہے۔

امریکا کے لوگ تمباکو کے پتوں کو دیگر پتوں کے ساتھ ملا کر پیستے تھے اور اسے جانوروں کی ہڈیوں سے بنے ہوئے ڈبوں اور بٹووں میں محفوظ کرتے تھے۔ نسوار ابتداء میں معاشرے کا شرفاء طبقہ استعمال کرتا تھا اور اس کا استعمال بھی ایک اسٹیٹس سمبل تھا۔ بعض مورخین کے مطابق اس کا آغاز سولھویں صدی میں پرتگیزیوں نے کیا تھا اور چین اور تائیوان میں فزیشن نسوار کو سردرد، دانت کے درد، کھانسی، بخار کے علاج اور نیند آنے کے لیے مریضوں کو استعمال کرنے کی ہدایت کرتے تھے۔ چین میں1684میں اس کے استعمال کی شہادتیں ملی ہیں۔ چینی لوگ نسوار کے لیے مخصوص قسم کے مرتبان استعمال کرتے تھے اور ہر کسی کے گھر میں نسوار کے لیے مخصوص قسم کے مرتبان پڑے ہوتے تھے۔ یہ مرتبان سنگ مرمر، شیشے، ہیرے، مخصوص رنگین پتھر، سونے اور چاندی کے بنے ہوتے تھے۔ یہ ابتداء سے اتنے عام تھے کہ اب بھی تائیوان کے نیشنل پیلس میوزیم میں تمباکو کی پرانی بوتلیں رکھی نظر آتی ہیں، جن پر اس وقت کے پینٹر مخصوص رنگین نقش و نگاری کرتے تھے۔

بعض مورخین کے مطابق جس طرح یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تمباکو کا استعمال کب سے جاری ہے، اسی طرح نسوار کی تاریخ کا بھی صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ان کے مطابق جب کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیا دریافت کی تو اس وقت ہیٹی اور نیوزی لینڈ میں اس کا استعمال عام تھا اور یورپی شہریوں نے وہاں نسوار کا استعمال دیکھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ ریڈ انڈین امریکی نسوار استعمال کرتے تھے اور وہ تمباکو نوشی کے بجائے نسوار کی شکل میں تمباکو کھاتے تھے اور اس سے اپنا نشے کا شوق پورا کرتے تھے۔ ان کے مطابق امریکا کے اپنے دوسرے سفر میں 1494-96 میں کولمبس نے دیکھا کہ انڈین پائوڈر کی شکل میں تمباکو کھاتے ہیں، جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا اور اس کی وجہ سے نسوار اسپینی اور فرانسیسی لوگوں میں بھی مقبول ہوگیا۔

فرانس پر حملوں کے دوران بادشاہ چارلس نے نسوار دریافت کی اور وہ اسے اپنے ساتھ انگلینڈ لے گیا جہاں اس نے نسوار کو متعارف کروایا، اور پھر یہ وہاں کے لوگوں میں بھی عام ہوگئی۔ شاہ جارج سوم کی ملکہ شیرٍلیٹ بھی اس کی انتہائی دل دادہ تھی اور وہ ماہانہ پائونڈز کے حساب سے نسوار استعمال کرتی تھی۔ مورخین کے مطابق پرتگال میں متعین فرانسیسی سفیر جین نکوٹ 1560 میں جب وہ اپنے ملک واپس آرہا تھا، اپنے ساتھ تمباکو ( نسوار ) کی شکل میں فرانس لے آیا، جہاں ملکہ کیتھرین ڈی میگی نے اسے سردرد کے لیے استعمال کیا۔ سویڈن میں نسوار کا استعمال 1600 میں شروع ہوا۔

1700 میں ناک کے ذریعے نسوار استعمال کرنا ایک فیشن تھا اور بعد میں یہ پورے سویڈن میں اتنا پھیل گیا کہ سویڈن میں نسوار (ناس) کے لیے ایک علیحدہ فیکٹری بن گئی۔ سویڈن میں نسوار کو اب بھی سن یا ایٹن کہا جاتا ہے۔ 1702 میں پہلی مرتبہ نسوار کا استعمال عام لوگوں میں پھیل گیا برطانوی نیوی نے ایک چھاپے کے دوران متعدد اسپینش جہاز پکڑے اور ان کے سیلرز سے جہازوں میں تمباکو (نسوار) کی شکل میں ایک بڑی مقدار پکڑی گئی۔ برطانیہ واپسی پر سیلرز نے یہی نسوار انگلینڈ کے مختلف علاقوں میں متعارف کرائی اور وہاں بھی نسوار بنانے کا عمل شروع ہوگیا اور وہاں پر ہر کوئی نسوار استعمال کرنے لگا۔ شاعر الیگزینڈر پاپ، چارلس ڈارون، ڈیوک آف ولنگٹن اور لارڈ نیلسن نسوار کے عادی تھے۔

چین کا اہم شہر بیجنگ ابتداء ہی سے نسوار کے حوالے سے اہم رہا ہے۔ یہاں چینی حکماء ادویہ کے طور پر نسوار استعمال کرنے کی ہدایت کرتے تھے، خصوصاً دمے کے مریضوں کے لیے اس کا استعمال لازمی تھا۔ لفظ SNUFF (ناس) سترہویں صدی کے وسط میں ہالینڈ والوں کی ایجاد سمجھا جاتا ہے، اور یہ نام اس پسی ہوئی تمباکو کو کہتے تھے جو سر درد اور خون کی بندش کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کولمبس 1493ء میں اپنی مہم پر روانہ ہو رہا تھا تو اسے اس کے ساتھیوں نے یہ معلومات دی تھیں کہ ہندوستان کے لوگ نسوار استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کا استعمال اور رواج بہت قدیم ہے۔

پشتو کے قدیم شعراء میں رحمٰن بابا نے اپنی شاعری میں چلم اور تمباکو کا ذکر کیا ہے، لیکن نسوار کا ذکر کسی بھی قدیم شاعر کے کلام میں نظر نہیں آتا، البتہ جدید شاعروں میں امیر حمزہ شنواری نے نسوار کا ذکر کیا ہے۔ بعض ممالک مثلاً چین، تبت اور افریقہ کے آثار قدیمہ سے چند نوادرات ایسے ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسوار کا رواج ان ممالک کے قدیم باشندوں میں موجود تھا اور ہوسکتا ہے کہ نسوار کے نشے کی روایت اور تاریخ بھی انہی ممالک سے شروع ہوئی ہو۔ نسوار 1660 عیسوی میں انگریزی تہذیب کا ایک اہم جز سمجھا جاتا تھا۔ سگریٹ کے مقابلے میں نسوار کو پاک، سادہ اور خوش گوار نشہ سمجھا جاتا تھا۔ ولیم میری اور ملکہ زینی کے دور حکم رانی میں نسوار مہذب اور فیشن ایبل لوگ استعمال کرتے تھے۔ ہر مہذب شخص کے پاس نسوار کی ڈبیا ہوا کرتی تھی اور اس پر لعل و جواہر بھی سجائے ہوتے تھے۔ اس کا استعمال صرف مردوں تک محدود نہیں تھا بل کہ شرفاء کی خواتین بھی نسوار شوق سے استعمال کرتی تھیں۔

پشتو زبان کے معروف ادیب اور محقق پرویش شاہین اپنی کتاب ''دپختنوژوندژواک'' میں لکھتے ہیں کہ ''مسٹر ایچ میکالینڈ اپنی کتاب ''نسوار اور نسوار کی ڈبیا'' میں ایک جرمن مصنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ تمام طبقوں میں نسوار حیرانی کی حد تک مقبول ہے، میں دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے امیروں نوابوں سے لے کر کسان اور مزدور بڑے فخر کے ساتھ اپنی اپنی ڈبیا سے نسوار نکال کر منہ میں ڈالتے ہیں۔ بعض لوگ نسوار اپنی ناک میں ڈال کر اتنی زیادہ مقدار میں سونگھتے ہیں کہ ان کے نتھنے نسوار سے گندے نظر آتے ہیں۔ مسٹر ایچ وی مارٹن نے اپنی کتاب ''لندن کے بھوت'' میں ایک نسواری خاتون مسز مارگریٹ کا ایک عجیب قصہ بیان کیا ہے کہ ''جب یہ خاتون 1776 میں فوت ہوئی تو مرنے سے قبل اس نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کی لاش پر نسوار ملی جائے اور کفن پر بھی نسوار ملی جائے۔

اس کی وصیت کے مطابق اس کا جنازہ چھے مشہور نسواریوں نے اٹھایا تھا اور کالی ٹوپیوں کی بجائے نسوار سے آلودہ ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ قبر تک پورے راستے پر نسوار پھینکی گئی تھی اور جنازے میں شریک لوگوں کو زبردستی نسوار کھانی پڑی۔'' تاریخ میں ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ ہندو اور انگریز اسے شروع سے استعمال کرتے آئے ہیں، لیکن پختونوں کے برعکس اسے ناک میں ڈالتے تھے۔ ہتھیلی کی پچھلی سائیٖڈ پر انگوٹھا اوپر اٹھانے سے ایک گڑھا سا پڑتا ہے جسے ''اسنف پکٹ'' کہا جاتا تھا، پشتو میں بعض لوگ نسوار کو ''روشن دماغ'' بھی کہتے ہیں اور اسے جناتی نشے کا نام بھی دیتے ہیں اس کے علاوہ اسے نیند بھگا دینے والا نشہ بھی کہا جاتا ہے۔

طبی نقطہ نظر سے نسوار سے منہ میں بدبو، دانتوں اور معدے سمیت مختلف بیماریاں پھیلتی ہیں اور آنکھوں کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے باجود یہ رواج اب تک موجود ہے۔ اب تو ہندوستان سے تیار سربند خوشبودار نسوار بھی آتی ہے۔ اس کے علاوہ ملائیشیا سے بھی ڈبیوں میں بند نسوار آتی ہے۔ دور جدید میں پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں نسوار بیچی جاتی ہے۔ پہلے چین اور کوئٹہ کی بنی ہوئی ڈبیاں بہت مشہور تھیں۔ خیبرپختون خوا کے ہر تیسرے اور چوتھے شخص کی جیب میں نسوار کی پڑیا لازمی پڑی ہوتی ہے۔ نسوار کی ہر بازار میں دکانیں ہیں۔ اس کا استعمال لوگوں میں اتنا عام ہے کہ لوگ دوران کار نسوار کی پڑیا نکال کر مخصوص گولی بنا کر اسے منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ تاہم، نسوار منہ میں بدبو پیدا کرتی ہے اور ماہرین کے مطابق ہونٹوں کے کینسر کا باعث بھی بنتی ہے۔ تاہم اس کا استعمال جاری ہے۔ اس وقت نسوار کا سب سے زیادہ استعمال پاکستان، افغانستان، ازبکستان، دبئی، قطر بحرین، ابوظہبی، ملائیشیا، سعودی عرب اور سویڈن کے مختلف حصوں میں کیا جاتا ہے۔ مشکل ہوجاتا ہے۔

بہ ہر حال، ہر قسم کا نشہ مہلک ہوتا ہے، اس سے نجات پانا ضروری ہوتا ہے۔ ڈینٹسٹوں کے مطابق نسوار نہ صرف مسوڑھوں کو خراب کرنے بل کہ ہونٹوں کا کینسر، دانتوں کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ منہ کا ذائقہ خراب کرنے اور بدبو پیدا کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ پاکستان میں اس عادت کے خلاف لوگوں کو تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے۔ طبی اداروں سے منسلک لوگون کے علاوہ میڈیا بھی اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں