آج ہم گناہوں کے سمندر میں غرق ہیں۔ قدم قدم پر رب کریم کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ ہماری صبح، ہماری شام، ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہیں۔ نفس و شیطان کے چُنگل میں پھنس کر ہم اپنے رحیم و مہربان پروردگار کی بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کر رکھا ہے۔ اس فانی، عارضی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمع نظر بنایا ہُوا ہے۔ خوفِ خدا، فکر ِآخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجا سامنے ہے۔ کثرتِ ذنوب نے ہم پر آفات و بلیات اور مصائب و آلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان و الحفیظ!
حالاں کہ کتاب و سنّت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ انبیائے کرام صلوات اﷲ علیہم اجمعین کے علاوہ کوئی فردِ بشر معصوم نہیں۔ ہر انسان سے خطا، لغزش اور غلطی کا صدور ہوسکتا ہے، لیکن بہترین خطاکار وہ ہے جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو، جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بُرا عمل محفوظ کرلیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناً پوچھے گا۔ یہی وجہ ہے صاحبانِ ایمان کو بار بار گناہوں کے تریاق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی دسیوں آیاتِ مبارکہ توبہ و استغفار کی اہمیت بیان کرتی ہیں، سیکڑوں احادیثِ مبارکہ میں انابت اور رجوع الیٰ اﷲ پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے، بل کہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف اعلان کردیا گیا ہے، مفہوم: ''اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔''
پھر سچے دل سے استغفار و توبہ اور باری تعالیٰ کے سامنے اقرارِ معصیت کی خیر و برکات دونوں جہانوں میں نصیب ہوتی ہیں۔
ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''جو کوئی استغفار کو لازم پکڑے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی، ہر غم سے دُوری (کا سامان) پیدا فرمائیں گے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق نصیب فرمائیں گے، جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا۔'' (سنن ابو داؤد)
دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا، مفہوم:
(قیامت کے روز) ''جو شخص اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے، اس کے لیے خوش خبری ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)
استغفار کا عمل اﷲ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''جب بندہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ سے رب کریم اس سے زیادہ راضی (اور خوش) ہوتے ہیں، جتنا تم میں سے کوئی (اس وقت ہوتا ہے جب وہ) اپنی سواری پر جنگل و بیاباں میں جا رہا ہو، اچانک وہ سواری اس سے گم ہوجائے، اس حال میں کہ اس پر اس کا کھانا پینا (بھی) رکھا ہو، وہ اس (کی واپسی) سے مایوس ہوجائے اور ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ جائے، ابھی وہ اس حال میں ہو کہ دفعتاً دیکھے وہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے، بس وہ اس کی لگام تھام لے، پھر مسرت و شادمانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھے: ''اے اﷲ! آپ میرے بندے اور میں آپ کا رب۔'' (یعنی خوشی کے باعث غلط جملہ کہہ دے۔) (صحیح مسلم)
جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مبارک عمل سے بھی اُمت کو استغفار کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے لوگو! اﷲ کے سامنے توبہ کرو، بے شک! میں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔'' (صحیح مسلم)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں آپ ﷺ سے سو مرتبہ (استغفار کا کلمہ پڑھنا) شمار کیا کرتے تھے۔ (سنن ابو داؤد)
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم توبہ کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آرہے تو پھر ایسی توبہ اور ایسے استغفار کا کیا فائدہ ؟ حالاں کہ حدیث مبارکہ میں جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''جو شخص استغفار کرتا رہے، اُسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، اگرچہ دن میں ستّر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے۔'' (سنن ابو داؤد)
مذکورہ حدیث مبارکہ کی تشریح میں حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں:
''گناہ پر اصرار کرنے والا وہ ہے جو استغفار نہ کرے اور گناہ پر شرمندہ بھی نہ ہو۔''
ابن الملک فرماتے ہیں: ''جو کوئی معصیت و گناہ کا کام کرے اور اس کے بعد استغفار کرلے اور اظہار ندامت سے کام لے، وہ بُرائی پر اصرار کرنے سے نکل گیا۔''
گناہوں پر شرم سار ہونا، اپنی لغزش کا اقرار کرنا اور اپنے جرم کا اعتراف کرنا، وہ مبارک و بابرکت عمل ہے جس کا توڑ شیطان کے پاس نہیں۔ امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
''ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: ''تم انسانوں کو کس طرح گم راہ کرتے ہو؟''
وہ کہنے لگے: ''ہم ہر طریقے اور ہر جہت سے انہیں گم راہ کرتے ہیں۔''
ابلیس نے جواب میں کہا: ''کیا استغفار کے بارے میں بھی تم نے انہیں گم راہ کیا ہے؟''
یہ سن کر ابلیسی گماشتوں نے کہا:
''استغفار تو وہ عمل ہے جو توحید باری تعالیٰ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔'' (اس پر ہمارا زور کیسے چل سکتا ہے؟)
ابلیس نے کہا: ''میں انسانوں کے درمیان ایسی چیز پھیلاؤں گا جس پر انہیں استغفار کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔''
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں: ''شیطان نے انسانوں میں خواہشات و تمناؤں کو پھیلایا۔ (جسے کوئی گناہ نہیں سمجھتا اور اس پر استغفار بھی نہیں کرتا)'' (سنن دارمی) حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''بے شک! شیطان نے (حق تعالیٰ سے) کہا تھا: ''اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گم راہ کرتا رہوں گا، جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں موجود رہیں گی۔''
(جواب میں) اﷲ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ''میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! میرے بلند مرتبے کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے ، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔''
آخر میں سمجھنے کی اہم بات یہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں:
اول : آدمی گناہ سے فی الفور باز آجائے۔
دوم: اپنے کیے پر نادم ہو۔
سوم: آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو۔
اگر مذکورہ باتوں میں سے ایک بھی کم ہو تو توبہ نامکمل رہے گی۔
یہ شرائط اس وقت ہیں جب معصیت کا تعلق بندے اور رب کے درمیان ہو، اگر وہ گناہ کسی انسان سے بھی متعلق ہے تو اس میں چوتھی شرط یہ ہے کہ صاحبِ حق کو اس کا حق لوٹایا جائے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں کثرتِ استغفار کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین