یہود و نصاریٰ کا صلیبی انتقام
اسلام، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں غالب اکثریت کا دین ہے
لاہور:
اسلام، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں غالب اکثریت کا دین ہے، جب کہ چین، بلقان، مشرقی یورپ اور روس میں بڑی مسلم آبادی موجود ہیں، نیز مسلم مہاجرین کی کثیر تعداد مغربی یورپ میں بھی آباد ہے، جہاں عیسائیت کے بعد اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، جب کہ مسلمان مجموعی آبادی کے محض 6 فیصد پر مشتمل ہے۔
مسلم اکثریت والے 57 ممالک، جس میں دنیا بھر میں مسلم آبادی کے لحاظ سے 62 فیصد یعنی ایک بلین مسلمان ایشیا میں رہائش پذیر ہیں، سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا، 12.7 فیصد، پاکستان میں 11.0 فیصد، بھارت میں 10.9 فیصد اور بنگلہ دیش میں 9.2 فیصد مسلمان ہیں۔ تقریباً 20 فیصد مسلمان عرب ممالک میں بستے ہیں، مشرق وسطیٰ میں غیر عرب، ترکی اور ایران سب سے بڑے مسلم اکثریت والے ممالک ہیں، افریقہ میں مصر اور نائیجیریا میں کثیر مسلم آبادی موجود ہے۔
طوالت کے سبب تفصیلی اعداد و شمار پیش نہیں کیے جاسکتے تاہم ان اعدادوشمار کا مقصد صرف یہی ہے کہ دنیا میں تمام مسلمانوں کی تعداد ایک چوتھائی کے قریب ہے، اور ان میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کے معدنی وسائل اور دولت سے مغربی غیر مسلم ممالک کی معیشت اور ترقی کا راز پنہاں ہے، لیکن سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کم دولت یافتہ مغربی ممالک نے مسلم ممالک میں تفرقوں و انتشار کا ایک ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کے تمام مالی وسائل، ان عالمی استعماری طاقتوں کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔
اسلام امت واحدہ کا درس دیتا ہے لیکن مغرب، جس میں خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے مسلمانوں کے درمیان فقہی معاملات یا فرقہ وارانہ اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم و جبر کا وہ بازار گرم کیا ہوا ہے کہ جس کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ لیبیا ایک ایسا ملک تھا جس نے امریکا کی ناک میں نکیل ڈالی ہوئی تھی اور امریکا تمام تر پابندیوں کے باوجود، لیبیا کو جھکنے پر مجبور نہ کرسکا تھا لیکن مسلمانوں کے درمیان نااتفاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معمر قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا اور لیبیا میں انقلاب کے بعد بدترین لڑائی دیکھی گئی۔ لیبیا کا پارلیمان اسلام پسندوں اور اسلام مخالف دھڑوں میں بٹا ہوا ہے اور جب سے معمرقذافی کو اقتدار سے ہٹایا گیا، ملک میں دائمی بے چینی کی مسلسل صورتحال ہے۔
کینیا اور صومالیہ کے درمیان تنازعات کی وجہ سے اسلام کے نام پر شدت پسندی کے رجحانات کو دنیا کے سامنے لایا جارہا ہے۔ الشباب نامی تنظیم کا امریکا مخالف ہے، گزشتہ سال نیروبی کی وسیع مارکیٹ کے ویسٹ گیٹ پر ایک حملہ کیا گیا تھا، جس میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے، ممباسا میں مسلح افراد نے ایک مسجد پر حملہ کرکے مولوی مکابری جن کا اصل نام ابوبکر شریف احمد ہے، کو ہلاک کردیا تھا۔ امریکا نے تنظیم پر جنگجو بھرتی کرنے اور الشباب کے لیے فنڈ جمع کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اسی طرح شیخ ابراہیم اسماعیل اور شیخ عبود روگو محمد کو بھی قتل کیا گیا، ان مولویوں کی ہلاکت کا الزام کینیا کی سیکیورٹی افواج پر براہ راست لگایا گیا تھا۔ صومالیہ کی جو صورتحال ہے اس سے ہر ذی حس واقف ہے۔
صومالیہ نے اپنی مدد کے لیے کینیا کی فوجوں کو اپنی سرحدوں پر تعینات کیا ہے۔ گزشتہ دنوں الشباب نامی اس تنظیم نے صومالیہ میں جنگجویانہ گوریلا کارروائیوں میں کینیا کے ساحلی شہر میبکیٹونی کے علاقے میں حملہ کرکے 48 افراد ہلاک کردیے تھے۔ نائیجیریا کی حکومت کو دیکھیں تو ملک کے شمال مشرق میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود ''بوکوحرام'' نامی شدت پسند تنظیم پر قابو پانے میں ناکام ہے، عسکریت پسند اس تنظیم نے گزشتہ پانچ سال میں اسکولوں، گرجا گھروں، مساجد سمیت دوسرے مقامات پر حملے کرکے ہزاروں افراد کو ہلاک کیا ہے، جب کہ نائیجریا کے شمال مشرق میں تازہ حملوں میں سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا جاچکا ہے اور اس کا الزام ''بوکوحرام'' پر لگایا گیا ہے جو نائیجریا میں بدامنی کی ذمے دار سمجھی جاتی ہے۔
مملکت شام کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت مخالف گروپوں نے خانہ جنگی شروع کی ہوئی ہے، شامی حزب اختلاف کے اتحاد ''سیرین نیشنل کونسل''، فری سیرین آرمی، شامی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، جب کہ حزب اﷲ گروپ کے ارکان ان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح عراق میں امریکی جارحیت میں دس کھرب ڈالر خرچ ہوئے اور جب نو سال کی اس جنگ جوئی کا خاتمہ ہوا تو عراق میں اپنی امریکا نواز مالکی حکومت سے عراقی عوام کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ داعش کے خود ساختہ خلیفہ ابوبکر بغدادی نے بغاوت کا طوفان کھڑا کیا ہوا ہے اور دوران جنگ دس لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایران غیر اعلانیہ اور اعلانیہ، عراقی حکومت کی مدد کررہا ہے۔ امریکی کی اس جارحیت میں مسلمانوں کو کیا ملا، ماسوائے لاکھوں انسانوں کی سوختہ لاشیں اور عمر بھر کی فرقہ وارانہ غلامی اور ذلت۔
افغانستان کی حالت قابل رحم ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے ایک پہلو باعث فخر بھی ہے کہ سرد جنگ کی وجہ سے روس کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی سپر پاور کو شکست ہوئی، پھر امریکی جارحیت کے بعد امریکا کو شرمناک شکست ہوئی اور نیٹو کی افواج کو شرمندگی کے ساتھ واپس جانا پڑ رہا ہے، لیکن مجموعی طور پر جب روس، افغانستان سے گیا تو فساد چھوڑ گیا، اب دوبارہ امریکا جارہا ہے تو وہ ماضی کی عادت ثانیہ کی وجہ سے خانہ جنگی اور پاکستان کے لیے بھارت کو چوکیدار بنا کر جارہا ہے۔ افغانستان کا تبدیل شدہ رویہ مستقبل کی خارجہ پالیسی ہے۔
پاکستان اسلام کا قلعہ، اس کا عسکریت پسندوں نے وہ حال کردیا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے زبان و قلم ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ دو قومی نظریے کے بعد لسانی نظریے کے تحت قائم ملک بنگلہ دیش کے بارے میں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کا اسلام کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ انھیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں جس جس نے مخالفت کی تھی انھیں جلدازجلد پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ عرب ممالک کی ساری توجہ تیل اور حج و عمرے کی آمدنی پر لگی ہوئی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی ساری قوت ریگستانوں میں پرتعیش، عیش پرستوں کے لیے نئے شہر بنانے پر مرکوز ہے۔ ایران کا سارا زور داعش اور عرب و اسرائیل کے خلاف ہے تو دوسری جانب اپنے عرب ممالک سے اختلاف کو ختم کرنے سے گریز کررہا ہے۔
کئی ممالک اور بھی ہیں کہ صفحات کی کم یابی کی وجہ سے تذکرہ ممکن نہیں ہوسکا لیکن جہاں جہاں مسلم امہ کی زبوں حالی پر نظر دوڑائیں تو بات قدر مشترک نظر آتی ہے کہ ہم نے اﷲ تعالیٰ کی مضبوط رسی قرآن کریم کو چھوڑ کر اپنی اپنی ریشم کی بنی نازک اور بظاہر دیدہ زیب دکھائی دینے والی ڈوریوں کو تھام رکھا ہے اور باہمی اختلافات میں اس بات سے بھی عار نہیں کرتے کہ اگر اسلام کے نام لیواؤں کو یہود و نصاریٰ صلیبی انتقام میں ان کے فائدے کے لیے مسلم نسل کشی کر رہا ہے تو کرنے دیا جائے، کم از کم زندیق ناہجار، کافر تو ختم ہوگا۔ یاد رکھنا چاہے کہ ہمارا یہ عمل ہمیں نہیں بلکہ دشمنان اسلام کو فائدہ پہنچا رہا ہے اور ہم غلام ابن غلام بن کر بندروں کی طرح نقالی پہ نقالی کیے جارہے ہیں۔