عظیم چین زندہ باد
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے<br />
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کہا جاتا تھا کہ چینی افیمی جس کا مطلب یہ تھا کہ چین کے لوگ نشہ باز ہیں اور وہ کوئی کام نہیں کرسکتے تھے لیکن یکایک چینیوں نے انگڑائی لی اور ترقی کے سفر کا آغاز کردیا۔ بقولِ اقبالؔ۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
عظیم مفکر برٹرینڈ رَسَل نے اپنے فکر انگیز مقالہ میں جس کا عنوان تھا'' ری اویکنینگ آف دا ایسٹ'' میں مشرق کی دوبارہ بیداری کی جو پیش گوئی کی تھی وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ سب سے زیادہ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ چین وطن عزیز پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد آزاد ہوا تھا لیکن اس نے ترقی کی دوڑ میں نہ صرف پاکستان کو میلوں پیچھے چھوڑ دیا بلکہ عالم یہ ہے کہ پاکستان اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتا۔
چین نے ترقی کا سفر شروع کیا تو پھر پیچھے کی طرف مڑکر نہیں دیکھا۔ اس وقت جب کہ چین عوامی جمہوریہ بننے کی 75 ویں سالگرہ منا رہا ہے، دنیا اس کی حیرت انگیز ترقی پر انگشت بہ دنداں ہے۔ 1949 کی خانہ جنگی کی راکھ سے جو چنگاری نکلی تھی، اس نے ایک شعلہ جوالہ کا روپ دھار لیا۔ چین کی بے مثال ترقی کا راز یہ ہے کہ اسے مخلص، وطن دوست اور انتہائی اہل قیادت میسر آئی۔ چیئرمین ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی سخت محنت نے چین کی کایا پلٹ دی۔ ان دونوں عظیم قائدین نے اپنی زندگیاں عوام کی خدمت کے لیے وقف کردیں۔ چین کے دونوں عظیم رہنماؤں کی زندگی سادگی اور وطن پرستی کی وہ مثال تھی جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ان کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ اپنے ملک کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانا ہے اور انھوں نے فی الواقع ایسا کر بھی دکھایا۔ چینی قوم کو اپنے ان رہنماؤں پر بجا طور پر فخر ہے۔یہ کہاوت بالکل درست ہے کہ قومیں سونے سے دولت مند نہیں بنتیں بلکہ ان کی اصل دولت ان کے مخلص رہنما ہوتے ہیں۔ ماؤزے تنگ اور چو این لائی صحیح معنوں میں عوامی قائد تھے، اُن کا رہن سہن بھی بالکل عوامی ہی تھا۔ ماؤزے تنگ کا تو ہم نے صرف نام ہی سنا تھا لیکن چو این لائی کو تو ہم نے بہت قریب سے دیکھا بھی تھا۔ وہ اپنے گھر سے دفتر آنے کے لیے سائیکل استعمال کرتے تھے۔
اندازہ لگانا تو درکنار کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چین ترقی کے اتنے عروج پر پہنچ بھی سکتا ہے۔ چین کی آبادی اس کا سب سے بڑا اور سنگین ترین مسئلہ تھا لیکن چین نے اس زبردست چیلنج کو موقع میں تبدیل کردیا اور اسے اپنا کارگر ذریعہ بنا دیا۔ چین کی معیشت اس وقت دنیا کی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس کی برق رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب چین اول درجہ پر پہنچ جائے گا۔ چین کی اِس ہوشربا ترقی کا سہرا اس کی دور اندیش اور صاحبِ بصیرت قیادت کے سر ہے۔ چین کی قابلِ رشک ترقی نے نہ صرف اس کی داخلی ہئیت کو بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ اُسے پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل بنادیا ہے۔
افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک چین ہر آن ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔2023 میں اِس کی ترقی کی شرح 5.2 فیصد تھی جب کہ چین اِس وقت دنیا کی معیشت کو متوازن رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جو غیر معمولی بات ہے۔ چین کی معیشت اپنی سرحدیں عبور کرکے دنیا کے 120 ممالک کا تجارتی شریک بن گیا ہے۔ 2022 تک چین بیرونی سرمایہ کاری کا محور بن گیا تھا۔
چین نے اس مفروضہ کو بالکل غلط ثابت کر دیا کہ دنیا کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے بعض ممالک جن میں ایشیائی اور افریقی ممالک شامل ہیں۔ خام خیالی کی ایسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔ دیوارِ چین جو دنیا کے عجائبات میں شامل ہے، چینیوں کی محنت اور عظمت کا شاہکار ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ چینی جس چیز کی ٹھان لیں وہ کر کے دکھاتے ہیں۔ ناممکن کا لفظ چینیوں کی ڈکشنری میں شامل نہیں ہے۔
ہمارے ایک دوست نے جو چین میں دو ڈھائی سال رہ چکے تھے ہمیں ایک قصہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی رہائش گاہ سے کچھ دور فاصلہ پر ایک تناور اورگھنا درخت تھا۔ ایک صبح جب وہ جاگے تو درخت وہاں سے غائب تھا۔ وہ حیران تھے کہ اس درخت کا کیا ہوا۔ اپنے چینی پڑوسی سے استفسارکرنے پر معلوم ہوا کہ اس درخت کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ہے۔ پڑوسی کی بات بظاہر ناقابلِ یقین تھی لیکن جب ہمارے دوست نے با نفسِ نفیس جا کر دیکھا تو وہ درخت جوں کا توں موجود تھا۔
اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی کیا سے کیا کرسکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو آسمان سے تارے بھی توڑ کر لا سکتے ہیں۔ چینیوں کا کمال یہ ہے کہ وہ کم سے کم لاگت میں جو چاہیں تیار کرسکتے ہیں۔ اس کی جیتی جاگتی مثال یہ ہے کہ انھوں نے ٹیلی مواصلات کے شعبہ میں انقلاب برپا کردیا ہے اور پوری دنیا ان کے کام پر عش عش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے ایل ای ڈی ٹیکنالوجی سے لے کر شمسی توانائی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سمیت کرشمہ کر دکھایا ہے۔چین کا سب سے بڑا کمال کم سے کم قیمت پر بہترین سے بہترین اشیاء تیار کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چین اپنے وسائل کو مصنوعی ذہانت 5G اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبوں میں بروئے کار لا رہا ہے اور اس کا ہدف یہ ہے کہ 2030 تک وہ عالمی ٹیکنالوجی کے منظر نامہ پر چھا جائے۔ ایک سروے کے مطابق چین نے 44 میں سے 37 قابلِ ذکر شعبوں میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس میں ہائپر سونک میزائلز، مصنوعی ذہانت اورکوانٹم کمپیوٹنگ شامل ہیں۔پاک چین اٹوٹ دوستی جو ہمالہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے، اُن کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ سی پیک کے معاہدے نے دونوں ممالک کو یک جان دو قالب بنا دیا ہے۔