شنگھائی کانفرنس اور مستقبل کے امکانات
پاکستان میں شنگھائی کانفرنس کا انعقاد سیاسی اور سفارتی محاذ پر ایک بڑی کامیابی ہے ۔
پاکستان میں شنگھائی کانفرنس کا انعقاد سیاسی اور سفارتی محاذ پر ایک بڑی کامیابی ہے ۔ پاکستان کے جو حالات ہیں ، ایسے میں تنظیم کے تمام دس ممالک کی شرکت بالخصوص بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی آمد نے اس کانفرنس اور میزبان پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے
۔ایک ایسے موقع پر جب پاکستان داخلی اور علاقائی محاذ پر جیو تعلقات ، جیو معیشت اور جیو سیکیورٹی کو بنیاد بنا کر علاقائی تعلقات میں نئے مثبت امکانات کو پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس میں یقینی طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس کانفرنس کے انعقاد میں جو بڑا کردار چین نے ادا کیا اور پس پردہ بھارت کی شمولیت کو یقینی بنانے میں خاموش ڈپلومیسی کا کردار اہمیت رکھتا ہے اور چین کا یہ عمل مستقبل میں پاکستان اورچین تعلقات میں بہتری اور خطے کے سیاسی و معاشی استحکام کی ضمانت بھی بنے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب عالمی اور علاقائی ممالک کی سیاست میں سیاسی و معاشی عدم استحکام، تناؤ، تنازعات یا ایک دوسرے کے بارے میں الزام تراشی کی سیاست یا مسائل کا حل جنگوں میں دیکھ رہے ہیں۔ بات چیت کے بجائے تناؤ سے جڑے ممالک کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی نے عالمی حالات میں سازگار ماحول یا برابر ی کی بنیاد پر جو تعاون ہوسکتا ہے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔
ایسے میں کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں بنیادی نقطہ تمام ممالک کی متفقہ قرارداد میں یہ سامنے آیا کہ ہمیں اپنے تمام ممالک سے جڑے معاملات ، مسائل یا تنازعات کو'' طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات سے'' حل پر زور دیا ہے ۔یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو عالمی اور علاقائی سطح پر بڑے ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ ہماری موجودہ پالیسیوں کا نتیجہ ہمارے داخلی معاملات کو خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔
اسی طرح یہ نقطہ کہ ہمیں سیاسی ، معاشی ، سیکیورٹی اور دہشت گردی جیسے معاملات پر ہمیں آگے بڑھنے کے لیے '' مشترکہ میکنزم اور مشترکہ حکمت عملی ''درکار ہے اور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر ہم نہ تو اپنے لیے کچھ پیدا کرسکیں گے اور نہ ہی خطہ کی سیاست میں استحکام اور معیشت کی ترقی ممکن ہوسکے گی۔
بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی آمد سے اچھا اور مثبت تاثر ضرور ابھرا ہے تاہم صرف ان کی آمد کو لے کر دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا بریک تھرو ممکن نہیں ہے، کیونکہ جے شنکر کا مینڈیٹ صرف شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں شرکت اور ایک نپی تلی تقریر تک محدود تھا، وہ اس مینڈیٹ سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ پاکستان کے پالیسی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے ۔
بہرحال بھارتی وزیر خارجہ کی آمد نے پہلے سے موجود ڈیڈ لاک اور بداعتمادی کو توڑا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے نئے راستے کھولے ہیں۔اس لیے بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہش اور سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر سفارت کاری ہماری بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔اسی طرح کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے بحران کے حل پر بھی بہت زور دیا گیا ہے اور عالمی دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر افغانستان کا حل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ چین کے وزیراعظم نے بھی دہشت گردی کے خاتمے پر زور دیا ہے اور اس حوالے سے افغانستان کی عبوری حکومت کو کہا ہے کہ وہ اپنی ذمے داری پورا کرے۔
پاکستان کو شنگھائی کانفرنس کی کامیابی کے انعقاد سے کافی فائدہ ہوسکتا ہے اور خاص طور پر اگر پاکستان داخلی سیاست یا معیشت سے جڑے یا سیکیورٹی کے حالات کی بہتری کا مشترکہ بیانیہ اور عملدرآمد کے نظام کو موثر بنیاد پر آگے بڑھائے گا تو یقینی طور پر اس کا ایک بڑا نتیجہ داخلی اور علاقائی سمیت عالمی سرمایہ کاری کی صورت میں سامنے آئے گا ۔پاکستان کو اس وقت ایک طرف شنگھائی کانفرنس کی کامیابی پر جہاں خوش ہونا چاہیے وہیں اپنا داخلی احتساب اور آگے بڑھنے کی حکمت عملی پر بھی مثبت سوچ کو اختیار کرنا ہوگا۔
اس کانفرنس کی کامیابی میں یقینی طورپر ہمارے سیکیورٹی اداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کا بھی بڑا کردار ہے اور ان کی مدد کے بغیر اس شاندار کانفرنس کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔ لیکن ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو مل بیٹھ کر داخلی معاملات میں ایسی حکمت عملی اختیار کرنی ہے جو قومی سطح پر داخلی کشیدگی کو کم کرے، سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی یا کسی کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی حکمت عملی نے پہلے ہی ہمیں سیاسی تنہائی کا شکار کیا ہوا ہے ۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو کچھ پاکستان میں داخلی محاذ پر ہورہا ہے وہ دنیا سے چھپا ہوا نہیں ہے اور آج جو گلوبل دنیا ہے یا جو میڈیا کی نئی جہتیں ہیں اس میں داخلی معاملات پر پردہ ڈالنا یا چھپانا ممکن نہیں ہوسکتا۔اسی طرح اگر ہم نے فرسودہ سیاست اور ادارہ جاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہ کیا تو شنگھائی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ہماری داخلی سیاست میں کوئی بڑی مدد حاصل نہیں کرسکے گا۔ اگر پاکستان نے اپنے علاقائی تعلقات میں وسعت دینا ہے تو اس میں بھی ہمارا داخلی، سیاسی اور معاشی استحکام ہی ہماری سیاسی طاقت بن سکتا ہے اور اسی بنیاد پر ہماری سفارت کاری کی جنگ میں نئے تعلقات اور نئے امکانات پیدا ہوں گے۔
اس وقت دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیںاور تمام ممالک پرانی تلخیوں کو کم یا ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کرکے نئے تعلقات جن کی بنیاد معیشت کی ترقی ہے، پر توجہ دے رہے ہیں ۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ داخلی سیاسی استحکام کو پیچھے چھوڑ کر محض معیشت پر توجہ دے کر آگے بڑھ سکتے ہیں تو یہ ناکام حکمت عملی تھی اور آگے بھی مثبت نتیجہ نہیں دے سکے گی۔اس لیے پاکستان کو علاقائی سیاست میں موجود تنہائی سے باہر نکلنے کے لیے کچھ بڑا کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت پاکستان کے حالات قومی سطح پر غیر معمولی ہیں اور اس سے باہر نکلنے کے لیے بھی ہمیں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ ان اقدامات میں میٹھی گولیاں کم اور کھٹی گولیاں یا کڑوے فیصلے زیادہ ہیں۔
ریاستی نظام ایک بڑی سرجری چاہتا ہے اورہم معمول کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کررہے ہیں ۔ خود کو جوابدہ نہ بنانا اور ریاستی نظام کو آئینی و قانونی معاملات سے باہر نکال کر چلانے کی روش ہماری داخلی مشکلات کو کم نہیں بلکہ ان کو اور زیادہ کرے گی ۔صرف سیاست اور معیشت ہی نہیں بلکہ سیکیورٹی کے معاملات پر ایک مضبوط، مربوط اور مستحکم سمیت دنیا اور علاقائی سیاست کے لیے قابل قبول بیانیہ درکار ہے ۔کیونکہ ہمارا بیانیہ دنیا یا علاقائی ممالک کے لیے خطرات کا نہیں بلکہ باہمی تعاون کا ہونا چاہیے ۔کیونکہ سفارت کاری کے محاذ پر تضادات پرمبنی پالیسی ہمیں نئے مثبت امکانات سے دور کرتی ہے اور ہمیں ان تضادات سے خود کو باہر نکال کر مستقبل کے راستے کو تلاش کرنا ہوگا۔