نایاب ستارے
ترمزی نیو یارک کی ایک درسگاہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس ادارے میں(Gems) قیمتی پتھروں کی تعلیم دی جاتی تھی۔
ترمزی نیو یارک کی ایک درسگاہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس ادارے میں(Gems) قیمتی پتھروں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ چھوٹی سی عمر میں پاکستان سے نیو یارک چلا گیا تھا اور اپنے والدین کے ساتھ کوئینز کے علاقے میں رہ رہا تھا۔ یہ پاکستانی خاندان بالکل عام سی زندگی گزار رہا تھا۔ ترمزی کو علم تھا کہ امریکا میں پرائیویٹ تعلیم بہت مہنگی ہے۔ اسکو نظر آ رہا تھا کہ اس کا والد آہستہ آہستہ عمر کے اس حصہ میں جا رہا ہے جہاں وہ اتنی محنت نہیں کر سکتا کہ اس کی فیس ادا کر سکے۔ اس نوجوان نے اپنے تعلیمی اخراجات کا بوجھ خود اٹھانے کا ارادہ کرلیا۔
ترمزی نے ویک اینڈ پر کیب چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جمعہ کی شام کو اپنی کلاسوں کے بعد کمپنی میں چلا جاتا تھا۔ اپنی کیب لیتا تھا اور اتوار کی شام تک چلاتا رہتا تھا۔ ہفتے میں دو تین دن کام کرنے سے اس کے مالی وسائل کافی حد تک بہتر ہو گئے تھے۔ پھر بھی کافی حد تک مکمل ادائیگی میں والد بھی مدد کرتا تھا۔ نیویارک میں ہزاروں پاکستانی کیب چلاتے ہیں۔ اگر آپ نیویارک کے جے۔ایف۔کے(JFK) ائیر پورٹ سے باہر نکلیں تو آپکو پاکستانی ہر جانب پیلے رنگ کی ٹیکسی یا کیب چلاتے نظر آئینگے۔
ترمزی ان ہزاروں پاکستانیوں میں سے ایک تھا۔ اگر اسے اپنے لیے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو شائد وہ کیب نہ چلاتا۔ اب ترمزی کو نیویارک کے تمام راستے یاد ہو چکے تھے۔ اس کی محنت کی کمائی تقریباً چھ سات سو ڈالر بن جاتی تھی جو ہر اتوار کو کیب کمپنی کا مالک اسے ادا کر دیتا تھا۔ معمول کے مطابق ایک ویک اینڈ پر وہ کیب لے کر کام میں مصروف تھا۔ اس کے گھر میں والدہ اور والد موجود تھے۔
اچانک اس کے والد کے موبائل پر فون آیا کہ نیویارک کا میئر جولیانی ان سے بات کرنا چاہتا ہے۔ والد کا دل بیٹھ گیا۔ جولیانی کی شہرت ایک انتہائی سخت گیر منتظم کی تھی۔ والد نے ڈرتے ڈرتے جولیانی سے بات کی۔ میئر نے ترمزی کے والد کو مبارک باد دی اور کہا کہ اس کے بیٹے نے ایمانداری کی ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔ جولیانی نے استدعا کی کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے کیونکہ جس باپ کی تربیت نے اپنے بیٹے کی رگ رگ میں ایمانداری کا سبق بھر دیا ہو، وہ انتہائی محترم اور نیک شخص ہو گا۔ اس بوڑھے بزرگ پاکستانی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اصل واقعہ کیا ہے۔
تیرہ جولائی، اتوار کی رات کو ایک71 برس کی امریکی خاتون ترمزی کی کیب میں بیٹھی۔ اس کا موڈ سخت خراب تھا کیونکہ وہ اپنے بینک سے سخت اکتا گئی تھی۔ اس کی زندگی کی تمام جمع پونجی تقریباً بتیس ہزار ڈالر اس نے بینک سے نکلوا کر ایک بیگ میں رکھ لیے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ پیسے اس کے اپنے پاس زیادہ محفوظ ہونگے۔ جب وہ کیب سے اتری تو وہ اپنا بیگ گاڑی میں بھول گئی۔ اسے گاڑی کا نمبر یا ڈرائیور کی شکل بالکل یاد نہیں تھی۔ وہ مکمل بے بسی کے عالم میں اپنے گھر پہنچی۔ وہ اس کیب تک کسی صورت میں نہیں پہنچ سکتی تھی جس میں اس نے پندرہ بیس منٹ سفر کیا تھا۔
جب ترمزی کمپنی کے دفتر پہنچا تو اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ایک بیگ پڑا دیکھا۔ اس میں32000 ڈالر تھے۔ ترمزی نے فوراً کمپنی کے مالک کو بتایا کہ کوئی سواری اپنے پیسے گاڑی میں بھول گئی ہے۔ اس کے بعد وہ فوراً نزدیک ترین پولیس اسٹیشن چلا گیا۔ پولیس کو سارا واقعہ بتایا اور تمام پیسے پولیس کے حوالے کر دیے۔ دو دن کی تگ و دو کے بعد پولیس کو معلوم ہو گیا کہ یہ تمام رقم اس ضعیف عورت کی ہے جو کیب میں اتوار کی رات سفر کر رہی تھی۔ اس خاتون کو پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ اس نے فوراً اپنا بیگ پہچان لیا۔ ترمزی کی موجودگی میں وہ تمام پیسے اس عورت کو واپسی کر دیے گئے۔
ضعیف عورت نے پیسے وصول کر کے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ اس نے ترمزی کو ایک ہزار ڈالر انعام دینے کی کوشش کی مگر اس نوجوان پاکستانی نے صرف یہ کہا، کہ آپ دعا کریں کہ میں اپنی تعلیم اچھے طریقے سے مکمل کر لوں۔ نیویارک کے تمام اخبارات میں اس پاکستانی نوجوان کی ایمانداری کا چرچا ہونے لگا۔ ٹی۔وی چینلز نے اس کے انٹرویو لینے شروع کر دیے۔ جب یہ واقعہ نیویارک کے میئر جولیانی کے علم میں آیا تو اس نے ترمزی کے لیے سٹی ہال میں ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ فون جولیانی نے ترمزی اور اس کے والد کو اس تقریب میں مدعو کرنے کے لیے کیا تھا۔ جس دن میئر نے تقریب کا اہتمام کیا اس دن یونیورسٹی میں اس نوجوان کی کلاس تھی۔ اس نے کلاس نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور میئر کو بتایا کہ وہ تقریب میں نہیں آ سکتا کیونکہ اس وقت اس کی کلاس ہو رہی ہو گی۔ میئر نے ترمزی کے تمام اساتذہ کو بھی مدعو کر لیا۔ ترمزی اور اس کا پورا خاندان مہمان خصوصی تھا۔ پوری دنیا کا میڈیا وہاں موجود تھا۔ نیو یارک کے تمام اہم لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ تمام دنیا کے سامنے میئر نے اس نوجوان پاکستانی کا شکریہ ادا کیا اور اسے ایک سرٹیفکیٹ انعام میں دیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔
رمین خان خیبرپختونخوا کے ایک معمولی سے گائوں سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ تعلیم حاصل نہ کر سکا۔ بچپن سے جوانی تک مختلف کام کرتا رہا مگر کسی جگہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ بیس سال کی عمر میں اس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے ایک عزیز کے پاس دبئی چلا گیا۔ وہاں اس نے ٹیکسی چلانی شروع کر دی۔ ٹیکسی چلانے سے اسکو اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ وہ اپنا گزارہ کر لیتا تھا اور کچھ پیسے بچا کر اپنے والدین کو گائوں بھجوا دیتا تھا۔ رمین خان جیسے ہزاروں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ابوظہبی اور دبئی میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ رمین ان ہزاروں ڈرائیوروں میں سے بس ایک ڈرائیور تھا۔
ایک دن معمول کے مطابق وہ اپنی گاڑی لے کر نکلا۔ ایک چینی تاجر اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس تاجر نے بینک جانا تھا۔ اسکو نہ انگریزی آتی تھی اور نہ ہی عربی۔ رمین نے خیر اشارے کنایوں میں اس کی بات سمجھ کر اسے بینک پہنچا دیا۔ معاملہ ختم ہو گیا۔ وہ ایک جگہ کھانا کھانے کے لیے رکا۔ اس نے دیکھا کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دو بیگ پڑے ہوئے ہیں۔ ایک چھوٹا سا اور ایک کافی بڑا۔ اس نے فوراً بیگ کھول کر دیکھنے شروع کر دیے۔ بڑے بیگ میں9.5 کلو سونا تھا۔ چھوٹے بیگ میں ڈیڑھ لاکھ درہم تھے۔ اتنا سونا اور اتنے پیسے رمین خان نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔
وہ تو چند ہزار درہم کی معمولی سی ماہانہ نوکری کر رہا تھا۔ مگر دراصل وہ معمولی آدمی قطعاً نہیں تھا۔ رمین فوری طور پر پولیس اسٹیشن چلا گیا۔ وہاں اس نے ڈیوٹی افسر کو سارا قصہ سنایا اور تمام رقم اور سونا پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے فوری طور پر اس چینی تاجر کو تلاش کر لیا۔ اس تاجر کو پولیس نے تمام پیسے اور سونا واپس کر دیا۔ رمین خان کی ایمانداری کا قصہ پریس میں رپورٹ ہو گیا۔ وہ ایک ہیرو بن چکا تھا۔ ایمانداری کا ہیرو۔ رمین خان کو دبئی کی سرکاری سطح پر بے حد سراہا گیا۔ متاراَل طاہر دبئی کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا چیف تھا۔ اس نے رمین خان کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔
اس میں پاکستانی سفارت خانے کے سرکاری افسر اور نمایاں پاکستانی شخصیات نے حصہ لیا۔ کسی بھی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے اعزاز میں یہ پہلی تقریب تھی۔ اس بے مثال تقریب میں رمین خان کی ایمانداری کو بھر پور طریقے سے سراہا گیا۔ اسے حکومت کی طرف سے انعام سے بھی نوازا گیا۔ وہ چینی تاجر بھی اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس نے رمین خان کو دس ہزار ڈالر انعام دینے کی کوشش کی۔ مگر اس غریب پاکستانی ڈرائیور نے یہ انعام لینے سے انکار کر دیا۔
اس نے صرف ایک فقرہ کہا، میں مسلمان ہوں اور میرے دین نے مجھے ایمانداری کا سبق دیا ہے۔ چینی تاجر لاجواب ہو گیا۔ پھر اس نے رمین خان کو اپنی فیکٹری میں ایک بھاری تنخواہ پر نوکری دینی چاہی۔ مگر خان نے جواب دیا کہ وہ ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر بہت خوش ہے اور وہ یہی کام کریگا۔ چینی تاجر اتنا جذباتی ہو گیا کہ اس نے تقریب میں رونا شروع کر دیا۔ رمین خان پاکستان کا ایک عام سا نوجوان تھا۔ جو محنت مزدوری کرنے کے لیے دبئی گیا ہوا تھا۔ اس کی ایمانداری نے اسکو بے مثال بنا دیا۔
عمر دبئی میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ ایک دن ایک سعودی تاجر حاتم عوض اس کی گاڑی میں بیٹھا۔ وہ تاجر اپنا بیگ گاڑی میں بھول گیا۔ اس بیگ میں ایک لاکھ بیس ہزار سعودی ریال تھے۔ عمر نے جب گاڑی صاف کرنے کے لیے ایک جگہ کھڑی کی تو اسے بیگ نظر آیا۔ وہ بلا توقف پولیس اسٹیشن چلا گیا۔ تمام سعودی ریال پولیس کے حوالے کر دیے۔ پولیس نے ایک گھنٹہ میں وہ بیگ اس سعودی تاجر حاتم کے حوالے کر دیا۔ حاتم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آج کے زمانے میں کوئی ٹیکسی ڈرائیور اتنی بڑی رقم اتنی ایمانداری سے واپس کر دیگا۔ اس نے عمر کے متعلق ایک لافانی فقرہ کہا، کہ بے شک وہ ایک غریب پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہے مگر اس کی روح انتہائی پاکیزہ اور نیک ہے۔
میں نے یہ تینوں حقیقی واقعات آپکے سامنے ایک وجہ سے پیش کیے ہیں۔ میرا ایمان کامل ہے کہ پاکستان کے عام شہری وہ نایاب جواہر ہیں جن میں ایمانداری اور اعلیٰ ظرفی کے خواص کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ہماری نااہل اور کرپشن کی بیماری میں مبتلا ملکی قیادت نے ہر شعبہِ زندگی مفلوج کر ڈالا ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہونگا کہ بے اصولی کے ان انسانی نشانوں نے معاشرہ کو اپنے جیسا بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔
یہ اپنی اخلاقی گراوٹ کو میرٹ کا لبادہ پہنا کر انعام کے طور پر لوگوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ میں اب اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں کہ ہمارا ملک اور یہ لوگ اکٹھے نہیں چل سکتے! یہ ملک کو کھوکھلا کر چکے ہیں! انکو باہر جانے کے لیے صرف ایک ہوائی جہاز کی ضرورت ہے! میں ان مقتدر لوگوں سے مکمل مایوس ہو چکا ہوں! مگر مجھے اس بات پر بھی پختہ یقین ہے کہ جب تک ہمارے پاس ترمزی، رمین خان اور عمر جیسے نایاب ستارے موجود ہیں، ہمارا مستقبل مکمل طور پر محفوظ ہے!