LAHORE
:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ آئین میں کی گئی 26 ویں ترمیم کے چند ایک شقوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممکنہ اثرات پر تشویش ہے۔
ایچ آرسی پی نے بیان میں کہا کہ اگرچہ یہ ترامیم پہلے کے مسودوں میں تجویز کردہ ترامیم کے مقابلے میں معتدل ہیں، تاہم ایچ آر سی پی کو اب بھی خدشہ ہے کہ اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے آئینی بینچز کے قیام اور ان کی تشکیل کے طریقہ کار پر سنگین تحفظات ہیں کیونکہ عملی طور پر یہ خدشہ ہے کہ ان بینچز کی ساکھ براہ راست سیاسی دباؤ کے زیر اثر آ سکتی ہے۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل (جو کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل ہوگی اور ان کی جماعتوں کی تناسبی نمائندگی کے مطابق ہوگی) حکومت وقت کو ایک خطرناک برتری فراہم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں عدلیہ حکومت کے زیر اثر آ سکتی ہے، جو آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 14 کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔
آئینی ترمیم کے حوالے سے بیان میں کہا گیا کہ ایچ آر سی پی کو آرٹیکل (3)184 میں ترمیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے جس کے تحت آئینی بینچ از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کر سکیں گے۔
ایچ آر سی پی یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آرٹیکل 9 اے، جو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق کو ایک بنیادی حق قرار دیتا ہے، ایک ایسی اہم ترمیم ہے جس کی طویل عرصے سے ضرورت تھی اور حکومت کو اسے فوری طور پر نافذ کرنا چاہیے۔
اپنے بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا کہ سب سے زیادہ تشویش ان الزامات پر ہے جو حزبِ اختلاف کی جانب سے اس ایکٹ کی منظوری کے لیے حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالے جانے سے متعلق ہیں، یہ الزامات انتہائی سنگین ہیں اور ان افراد کے ضمیر پر بھاری ذمہ داری عائد کرتے ہیں جنہوں نے اس ایکٹ کی تجویز دی تھی۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ ان الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور بل کے واحد، کسی آئینی ترمیم کے لیے ضروری سرکاری مسودے پر عوامی بحث کا نہ ہونا اس کے مقصد کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔