ماہ اکتوبر اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے، اس ماہ کی 14 تاریخ کو مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا یوم وصال تھا۔ میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ مفکراسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا میرے باباجانؒ سے قلبی تعلق تھا اور مجھے 5 سال کی عمر سے اپنے لڑکپن تک کئی بار ان سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی، میں بچپن سے پدرانہ شفقت رکھنے والے مفتی محمودؒ کے سحر میں مبتلا رہا ہوں۔ مفتی محمودؒ اپنی ذات میں ہی ایک انجمن تھے، وہ زندگی کے ہر پہلو میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ ایسے باعمل عالم دین تھے جسے حقیقی طور پر انبیاء کا وارث قرار دیا جاسکتا ہے، وہ استاد المفسرین و محدثین تھے جن کے لاکھوں شاگرد آج ملک اور بیرون ملک علم وحکمت کے چراغ روشن کررہے ہیں، وہ عظیم مذہبی رہنما، خطیب بے مثل تھے اور باکردار و صاف دامن سیاستدان تھے، وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے محدث و مفسر تھے جو ایک صوبے(خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ بنے، وہ اجلے کردار کے مالک غیر متنازع سیاستدان اور قومی لیڈر تھے، درویش و فقیر اور عاشق رسولﷺ مفتی محمودؒ چوکیدار ومناظر و مبلغ عقیدہ ختم نبوت تھے وہ فاتح قادیانیت تھے، وہ محدث اعظم اور مفتی اعظم تھے۔ میں مفکر اسلام کی سیاسی و مذہبی خدمات، قلندرانہ ادائیں اور سکندرانہ جلال کو قلم بند کرنا چاہوں تو ایک کالم کافی نہیں بلکہ پوری کتاب لکھنا پڑے گی لیکن تنگ دامن کی وجہ سے"تبدیلی"کے قارئین کے سامنے ان کی باطل سے ٹکرانے اور نہ جھکنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں کی جھلکیاں رکھتا ہوں جس سے یہ اندازہ ہوجائے گا کہ انھوں نے کب اور کن کن محاذوں پر ملت اسلامیہ کی ترجمانی کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
مفتی صاحبؒ پہلی مرتبہ تحریک آزادی ہند کے دوران تحریک سول نافرمانی میں گرفتار ہوئے تھے، دوسری بار 1953کی تحریک ختم نبوت کے دوران گرفتار ہوئے اور سات ماہ کی قید کاٹی، تیسری دفعہ1956میں ون یونٹ کی مخالفت پر گرفتار ہوئے۔ چوتھی بار 1967میں حکومتی تعاون سے جشن ملتان کے نام سے رقص وسرود اور ناچ گانے کے پروگرام کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار ہوئے۔ پانچویں دفعہ18مارچ 1977کو بھٹو دور حکومت میں پشاور، چھٹی دفعہ 25مارچ 1977کو لاہور سے گرفتارکیا گیا اور ہری پور جیل بھیج دیاگیا۔ ساتویں دفعہ5جولائی 1977 جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی آمد پر گرفتار ہوئے۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک مفکر اسلام نے کسی آمر کی آمریت کو قبول کیا اور نہ ان ادوار آمریت میں حجرے میں جا کر بیٹھے، وہ مرد میدان ہر دور میں آمریت اور ظلم و جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے، عزیمت و استقلال کی وجہ سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطاکیا جو سیکڑوں برسوں کی محنت و ریاضت سے حاصل ہوا کرتا ہے۔ آپ میں اکابر علماء کا جذبہ جہاد، شاہ ولی اللہ ؒ کی فکر اور حضرت مدنی ؒ کے لشکر کے سپہ سالار ہونے کے جوہر اور اہلیت موجود تھی اس لیے پاکستان کے مردم شناس علمائے حق نے ان کو جمعیت علمائے اسلام کا قائد اور قافلہ حق کا ہدی خواں تسلیم کیا۔
عمرے کی ادائیگی کی روانگی سے پہلے حالت احرام میں 14اکتوبر 1980کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ فرما گئے۔ آپ کی رحلت پاکستان اور مسلمانان پاکستان کے لیے ایک عظیم صدمہ تھا کیونکہ مفکر اسلام ان کی امیدوں کا مرکزومحور تھے، انھیں یقین تھا کہ اس ملک میں اگر نفاذ اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا تو وہ مفتی صاحب کی قیادت میں ہونے والی جدوجہد سے ہی ہوگا۔ اس لیے آپ کی رحلت سے کروڑوں مسلمانوں کی امیدیں ٹوٹتی ہوئی نظر آرہی تھیں، میں جب مفتی محمودؒ کی وفات کا سننے پر اپنے مرشد و مربی باباجانؒ کی بہتی آنکھوں کے ساتھ غم سے نڈھال چہرے کو یاد کرتا ہوں تو افسردہ ہو جاتا ہوں۔ زندہ مفتی صاحب سے خوفزدہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ان کی وفات کے بعد ان کے خون سے خوفزدہ تھی اس لیے ان کے فرزند ارجمند مولانا فضل الرحمن کا راستہ روکنے کے لیے جمعیت کو ایک سازش کے تحت دولخت کیا (یہ کس طرح ہوا اس پر کچھ ایسی تفصیلات جو پہلی بار منظر عام پر آئے گی کسی اور وقت بتاؤں گا) مفتی محمودؒ کی رحلت کے بعد تمام اکابرین ایک طرف اور دوسری طرف چند دور اندیش علمائے کرام فرزند مفکر اسلام مفتی محمودؒ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مگر ناتجربہ کار اور نوجوان مولانا نے ابتدائی چند سال میںاپنے سیاسی تدبر و فراست کا ایسا لوہا منوایا کہ وہ تمام اکابرین اور کارکنوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ میں نے اپنے باباجانؒ سے حضرت مفتی صاحب کے بارے میں جو سنا تھا وہ اوصاف حمیدہ اللہ رب العزت نے ان کے فرزند اور سیاسی جانشین میں کوٹ کوٹ کر رکھ دیے ہیں، مولانا ہر زاویے سے اپنے بابا کا حقیقی عکس نظر آتے ہیں، نفاذ اسلام کے لیے وہی تڑپ، آمریت کے خلاف وہی نفرت، عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کا وہی مجاہدانہ انداز، وہی بے خوفی اور دلیرانہ انداز سیاست، وہی خدا ترسی، مظلوموں کے حق کے لیے ڈٹ جانے کا وہی انداز، جھکنے اور بکنے سے انکار کا وہی دبنگ انداز، وہی اجلا اور صاف دامن، دوستی نبھانے میں مفتی کا عکس مجسم، کارکنان کے سروں پر دست شفقت رکھنے کا وہی انداز اور قلبی تعلق اور اکابرین کا ماتھا چومنے کا وہی منفر انداز عقیدت و احترام، کس کس خوبی کا ذکر کروں ہر وہ خوبی جو مفتی صاحبؒ میں موجود تھی آج مولانا میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کے کردار پر نظر ڈالیں تو مجسم مفتی محمودؒ نظر آتے ہیں۔
حکومت گزشتہ دو ماہ سے آئین میں ترامیم کے نام پر شب خون مارنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس نقب زنی کے آگے مفتی محمود ثانی مولانا فضل الرحمن نے آہنی دیوار بن کر آئین کی حفاظت کی۔ پیپلز پارٹی بھی حکومت کے ساتھ اس نقب زنی میں برابر کی شریک تھی، حکومت نے تمام تر انتظامات کرلیے تھے، پارلیمان کے اجلاس شروع ہوچکے تھے، نون لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، ق لیگ اور دیگر حکومتی اتحادی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے اگر مولانا سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے نہ ہوتے تو ایک ماہ پہلے آئین کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا، 1973 کا آئین بنانے والی سرکردہ شخصیات میں مفکر اسلام مفتی محمودؒ بھی شامل تھے، انھوں نے آئین بنایا اور آج ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمٰن نے جس استقامت اور دلیرانہ انداز میں اس متفقہ آئین کو بچایا اس پر مولانا کے چاہنے والے تو شاداں اور مفتی محمودؒ کی روح اپنے لخت جگر گوشے کی دیکھی اور ان دیکھی طاقتوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہونے پر مسرور ہوگی۔
عوام میں مولانا کی مقبولیت، مقام اور پذیرائی ناپنے کے لیے سندھ کے ممتاز صحافی اور ایکسپریس میڈیا گروپ کے بیورو چیف جنید خانزادہ کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ، "جس گاما اسٹیڈیم کو ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، پیر صاحب پگارا اور الطاف حسین نہیں بھرسکے مولانا نے بھر کر دکھایا"۔ اگر سندھ کا یہ حال ہے تو پنجاب بھی بدل چکا ہوگا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں صورتحال کیا ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دو ماہ سے مولانا کی رہائش گاہ "سیاسی خانقاہ" بنی ہوئی تھی، ہر سیاستدان مرید بن کر پیر کی زیارت اور قدم بوسی کے لیے چکر کاٹ رہا تھا۔ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، سردار اختر مینگل، بیرسٹر گوہر، اسدقیصر سمیت تمام جماعتوں کے قائدین مولانا کی سیاسی خانقاہ پر پڑے رہتے تھے۔ کچھ مرید تو دن میں دس دس بار حاضریاں دے رہے تھے۔ مولانا نے سب کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھ کر اپنے باباجان مفتی محمودؒ کی یاد تازہ کرتے ہوئے جس اعلیٰ ظرفی "ظرف محمودی" کا مظاہرہ کیا اس نے پوری قوم کو مولانا کا گرویدہ بنایا، اپنے پرائے سب داد و تحسین دینے لگے، وہ حکومت کو سپورٹ کرتے نظر آئے نہ پی ٹی آئی کو، ان کا سارا زور آئین پاکستان اور پاکستان کے عوام کے محفوظ مستقبل کے لیے رہا۔ مولانا نے مجوزہ آئینی ترمیم پر جس استقامت اور حکمت کے ساتھ پیش قدمی کی ہے اسے سیاسی وآئینی حلقوں اور عوام میں پذیرائی ملی، مولانا دھونس، دھمکی اور نہ ہی کسی کی بلیک میلنگ میں آئے بلکہ انھوں نے حکومت کے آئین شکن 52 ترامیم کے بجائے قانون کو بچانے اور اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے 26 نکاتی متوازن اور سب کو قابل قبول ترمیمی بل تیار کیا جسے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نے قبول کیا اور تحریک انصاف کے لیے بھی قابل قبول تھا، سب نے مانا کہ مولانا نے کالے سانپ کے سارے دانت نکال کر اپنے باباجان مفتی محمودؒ کی طرح اسی "محمودی" جرات و بہادری اور سکندرانہ جلال کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوکراپنے آپ کو مفتی محمود ثانی ثابت کیا۔
نگاہ بلند، دل نواز، جان پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے