کیا 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سب ٹھیک ہوگیا ہے ؟یہ وہ سوال ہے جو سیاسی مجالس میں زیر بحث ہے کہ ان ترامیم کی منظوری کے بعد پارلیمانی جمہوریت کو خطرات لاحق تھے اس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔یقینی طور پر نی قانون سازی کرنا، پہلے سے موجود قوانین کو مزید درست کرنے کے لیے ترامیم لانا اور انھیں منظور کرکے ملک کا قانون بنانا پارلیمنٹ کا حق ہے اور اس حق کو کسی بھی فورم پر چیلنج کرنا درست نہیں ۔لیکن یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ پارلیمان جو قانون بنانے جارہی ہے یا منظوری دے چکی ہے، کیا وہ عوام کے مالی ، کاروباری مفادات کے مطابق ہے ۔ چادر وچاردیواری کے تحفظ کو متاثر تو نہیں کرتی، جمہوری نظام کو مزید بہتر بناتی ہے یا نہیں ۔ پاکستان جہاں جمہوریت آج بھی ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اور کئی حوالوں سے وہ کمزور اور عدم استحکام سے دوچار ہے، وہاں قانون سازی یا آئین سازی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ حالیہ آئینی ترامیم کی منظوری پر بہت سے سوالات و خدشات بھی جنم لیتے ہیں ۔
حالیہ آئینی ترامیم منظور ہو کر قوانین بن چکی ہیں، اب اس کی حمایت اور مخالفت دونوں موجود ہیں۔اگر کوئی اسے قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی مضبوطی یا پارلیمان کو اختیارات کی منتقلی سے دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف ایک بڑا طبقہ ان ترامیم کی منظوری کو ایک متنازعہ قانون کے طور پر دیکھتا ہے ۔ یہ طبقہ ترامیم کے متن سے زیادہ ان ترامیم کی منظوری کو سیاسی انداز میں دیکھتا ہے ، ان کے مطابق ہمیں کسی بھی سطح پر مکمل شفافیت اور جمہوری یا قانونی مراحل کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا ۔ایسے لگتا ہے کہ حکومت نے طے کرلیا تھا کہ 25اکتوبر سے پہلے پہلے ان ترامیم کو منظور کرنا ہے۔پلان اے کے تحت مولانا فضل الرحمن کی حمایت سے آگے بڑھنا تھا اور پلان بی کے تحت مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کی صورت میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے لوگوں کی وفاداریوں کو تبدیل کرنا تھا ۔مگر مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے بعد پلان بی پر عملدرآمد کا موقع ہی نہیں آیا۔ سب کچھ پلان اے کے تحت مکمل ہوگیا۔ سیاسی پنڈت سارا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو دیتے ہیں مگر سوال یہ بھی ہے کہ حالیہ آئینی ترامیم کی منظوری سے فائدہ کن کو ہوا ہے ۔
یاد رہے کہ پہلے مسودے میں پچاس کے قریب ترامیم تھیں جو سیاسی جماعتوں کے درمیان بحث کے بعد جو 22ترامیم منظور ہوئیں یہ ترامیم میں شامل تھیں جن کی تعداد50شقوں تک محدود تھی۔بنیادی سوال یہ بھی تھا کہ چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار اگر حکومت یا وزیر اعظم یا عملی طور پر پارلیمانی کمیٹی کو دیا جاتا ہے تو اس سے حکومت اور جمہوریت کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ان ترامیم سے قبل حکومت اور عدلیہ کے محاذ پر ایک ٹکراؤ کا ماحول تھا ۔حکومتی موقف تھا کہ عدلیہ ایک سیاسی پارٹی بن چکی ہے اور پارلیمنٹ کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے ۔اسی وجہ سے ہمیں تنازعات ختم ہوتے نظر نہیں آرہے بلکہ ہمیں ٹکراؤ کے مزید مناظر اور اس کی مختلف شکلیں کسی اور بنیادوں پر نظر آئیں گی جو نئے تنازعات کو جنم دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرچہ وکلا کے ایک مخصوص گروپ کا ان ترامیم پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ وہ ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہیں ۔دیکھنا ہوگا کہ کیا وکلا کا یہ دھڑا تمام وکلا کو متحد کرکے کوئی بڑی تحریک چلاسکے گا؟سیاسی جماعتوں کی اکثریت ان ترامیم کی حمایت میں نظر آتی ہیں اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔البتہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ان ترامیم کو عدلیہ کی کمزوری کے کھیل کی بنیاد پر دیکھ رہی ہیں اور کیا یہ ان ترامیم کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلاسکیں گی؟ اس پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں جو کسی ممکنہ تحریک کے حوالے سے موجود ہیں۔خود حکمران اتحاد نے جن ججوں کو ایک پارٹی کی حمایت یا حکومت کی مخالفت کی بنیاد پر پیش کیا ہے ،ان کا کیا ردعمل ہوگا اور جو لوگ بھی ان ترامیم کی منظوری کو عدالت کے محاذ پر چیلنج کریں گے تو عدالت کا اپنا ردعمل بھی مستقبل کی سیاست پر اثرانداز ہوسکتا ہے ۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ )آئی سی جے( نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کے قانون کی منظوری پر اپنی رائے ظاہر کی ہے ، اس گروپ یا تنظیم نے اسے نظام کو بڑا دھچکہ قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے اور ان کے بقول یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی ،قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک دھچکا ہے۔آئی سی جے کے سیکریٹری سینٹیا گو کینٹن نے کہا ہے کہ خاصی تنقید کی ہے ۔
پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی جیسے خوش نما نعرے ہم ستر برس سے پاکستان میں حکمران طبقہ سے سنتے آئے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت کسی کی بھی ہو، سیاسی ہو یا غیر آمریت نظام میں خرابیاں درست نہیں ہوئیں بلکہ مزید الجھی ہیں۔ ماضی میں بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میںججوں کی تقرری کے نظام کو درست کرنے کے تمام اقدامات اپنے اندر نئے مسائل لے کر سامنے آئے اور اب بھی ایسا ہی ہوتا نظر آرہاہے۔یہ بھی سمجھنے اور اس پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ترمیم کے بینفیشریز کون ہیں۔ کیونکہ پاکستان میںجس تیزی سے جمہوری سپیس کم ہو رہی ہے، وہ جمہوریت کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں اور نہ ہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے ۔ بہرحال امید اچھے کی ہی رکھنی چاہیے۔