کراچی:
پاکستان کےمیٹھے پانی کے سب سےبڑے ذخیرے کینجھرجھیل پرپہلا پاکستانی فلوٹنگ سولرمنصوبہ 78 ارب روپے(250ملین ڈالرز) کے خطیرسرمائےسے تعمیرہوگا، لگ بھگ 2سال میں مکمل ہونے والےشمسی توانائی کےسطح آب پرتیرتےمنصوبے کے ذریعے 500 میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکےگی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جھیلوں اورتالابوں پرتعمیرکیے جانےوالےشمسی توانائی کےمنصوبے آبی ذخائرکےاطراف میں موجود خنکی کی وجہ سےزمین کی حدت کے مقابلےمیں زیادہ کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں، پاکستان کےمیٹھے پانی کےسب سےبڑے ذخیرے کینجھریا کلری جھیل پرپہلاپاکستانی فلوٹنگ سولرمنصوبہ طویل غوروخوض کےبعد اب چند ماہ میں یقیناً آغازکی سمت گامزن ہوگا،اس منصوبے پر78ارب روپے(250ملین ڈالرز)کی لاگت آئے گی،لگ بھگ 2سال میں مکمل ہونے والےشمسی توانائی کےسطح آب پرتیرتےمنصوبے کے ذریعے 500میگاواٹس بجلی پیداکی جاسکےگی۔
واضح رہےکہ فطری حسن اوروسائل سےمالامال کینجھرجھیل پاکستان کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل سمجھی جاتی ہے،24کلومیٹرطویل اور6 کلومیٹرچوڑی جھیل کی گہرائی 15میٹرکے لگ بھگ ہے، یہ جھیل دوجھیلوں(کینجھر اورسونیہری) کو جوڑکربنائی گئی ہے،اس کی ایک حیثیت سیاحتی مقام کی بھی ہے،تعطیلات کے دنوں میں لوگوں کی بڑی تعداد تفریح کے لیے جھیل کا رخ کرتی ہے،کینجھرجھیل کورامسرکا درجہ حاصل ہے۔
ایران کے شہررامسرمیں کنونشن آن ویٹ لینڈ یعنی آب گاہوں کے تحفظ کا یہ عالمی معاہدہ 1971میں عمل میں آیا اورسن 1975میں نافذ ہوا،محکمہ جنگلی حیات سندھ کے قوانین کےتحت کینجھر جھیل کو جنگلی حیات کی مکمل پناہ گاہ (وائلڈ لائف سینکچوری) کا درجہ بھی حاصل ہے،جس کے اہم قواعد میں جھیل کے گردرہائش اختیارکرنے کی پابندی،گھاس پھوس اورپودوں کو نقصان پہنچانے،پانی کوآلودہ کرنے کرنے اورتین تک فائرکو قانونا جرم سمجھا جاتاہے۔
سندھ کی رومانوی داستان 'نوری جام تماچی' کی کہانی بھی کینجھر جھیل سے منسوب ہے،ان دونوں کی قبریں کینجھر جھیل کے وسط میں واقع ہیں، کینجھرجھیل کورامسرسائٹ کا عالمی تحفظ اورمحکمہ جنگلی حیات قوانین کے تحت جنگلی وآبی حیات کی مکمل پناہ گاہ(وائلڈ لائف سینکچوری)کا درجہ حاصل ہے،اس منصوبے پرکینجھرجھیل کے اطراف میں برسہابرس سےآباد ماہی گیرجن کا اوڑھنا بچھونا جھیل کے گہرے پانیوں سےماہی گیری ہے،یہ قدیمی مچھیرےاس منصوبے کوجھیل کے پانیوں کےلیے منفی اثرات کا حامل قراردیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں تاحدنگاہ پھیلے نباتات اورمختلف اقسام کے پودے سائبیریا سمیت دنیا کےسردعلاقوں سے رخ کرنے والے مہمان پرندوں کی غذا کے طورپران کی آوبھگت کرتے تھے،اس منصوبے سے ان پرندوں کےعلاوہ مقامی سطح کے پرندوں پرمنفی اثرات مرتب ہونگے،پانی کی سطح سولرکی پلیٹوں سے ڈھک جانے کے بعد نہ صرف زیرآب پودے مرنا شروع ہوجائیں گے جبکہ ان پانیوں میں موجود آبی حیات کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
کیجھرجھیل منصوبے کے ہیڈآف فنانس ارتضیٰ کاظمی نے ایکسپریس نیوزسے بات چیت میں کہا کہ کینجھرجھیل کے کل رقبے کے صرف 06فیصد پرفلوٹنگ سولرمنصوبہ تعمیرکیا جائےگا،ڈھائی سال قبل اس منصوبے کوسوچا گیا،یہ پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی پیداکرنے کا پہلامنصوبہ ہوگا۔
ان کاکہنا تھا کہ منصوبے کے نقصانات سے زیادہ فوائد ہیں،سب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ اس منصوبے کے بعد سولرسے ڈھک جانے والے رقبےسے ہوامیں تحلیل ہونے والے بخارات کےعمل کوروک کرپانی کی بچت ممکن ہوگی،اورایک اندازے کے مطابق یومیہ تقریبا 4ملین گیلن پانی کی بچت ممکن ہوگی، دوسرااہم فائدہ یہ ہےکہ منصوبے کی پانی پرتعمیرسے زرعی یا دیگرقسم کی قیمتی اراضی کوبچایا جاسکتا ہے،مذکورہ زمین پرکوئی رہائشی منصوبہ،اسکول یا اسپتال تعمیر کیاجاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کینجھرجھیل کے اطراف ماہی گیروں کی یہ حالت ہے کہ ان کے نوجوانوں کے پاس مچھلی کے شکارکے لیے کشتیاں تک نہیں ہیں،وہ اسٹیروفوم کی کشتیاں شکارکے لیے استعمال کرتے ہیں،اس منصوبے کے تحت باقاعدہ طورپرکینجھرسے منسلک کمیونٹی کومنسلک کیاجائیگا،پہلے مرحلے میں ایک ہزارافرادکوروزگارمہیا کیاجائےگا،جس میں صنفی مساوات کے تحت خواتین کا 30فیصد تک کوٹہ ہوگا،ان تمام افرادی قوت کوتیکنیکی تربیت فراہم کی جائیگی جبکہ آبی حیات کی افزائش کے لیے انھیں مچھلیوں کی مختلف اقسام کی سیڈزبھی فراہم کی جائے گی۔
گو انرجی کی طرف سے یہ ماحولیاتی و سماجی مطالعہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے سیپا قانون 2014ء کی شق 17 پر عملدرآمد کے ضمن میں کرایا گیا ہے،اس منصوبے کے مطابق سیپا کی جاری رپورٹ کےمطابق سندھ میں توانائی کی ضرورت بڑھ رہی ہے،توانائی کا یہ منصوبہ فوسل فیول کی بجلی طرح مزید ماحولیاتی خرابیوں اورگلوبل وارمنگ کا باعث نہیں بنےگا، حکومت ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے کوئلے سے چلنے والے نئے پاور پلانٹس کی تعمیر روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیدہ چیدہ فوائد یہ ہیں کہ یہ منصوبہ ایندھن یا کوئلے کے برعکس صاف ذرائع سے توانائی پیدا کرے گا،اسی طرح یہ گرین ہاؤس گیسزکے ذریعے ہواکے معیارکوخراب نہیں کرےگا، صاف،قابل تجدید توانائی کے بدلے میں حکومت سندھ کو ٹیکس ریونیو حاصل ہوگا، اس منصوبے کے نتیجے میں بجلی کی لاگت میں کمی آئے گی جس کا فائدہ بالآخر صارفین کو ہوگا،،تعمیرکے دوران 250سے300ملازمتیں پیداہونے کی توقع ہے،آپریشن اوردیکھ بھال کے مرحلے کے دوران مقامی لوگوں کوترجیح دی جائے گی، پانی کو ہوامیں تحلیل ہونے کے عمل کوروکا جاسکےگا۔
ڈبلیوڈبلیوایف پاکستان کےسینئرمینیجرریسرچ اینڈ کنزرویشن محمد جمشید اقبال چوہدری کے مطابق فلوٹنگ سولرمنصوبے کے سبب کیجھرجھیل پرممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،سولر پینلز کی تنصیب جھیل کی سطح کے رقبےکونمایاں طورپرتبدیل کرسکتی ہے،جس سےآبی اورنیم آبی پرندوں جھیل پربسیراکرنے کے دوران مسکن متاثرہوسکتا ہے۔
اس کا ایک پہلو بڑے حجم کے پینلز کی وجہ سے پڑنے والی چھاوں ہے،یہ سائے آبی پودوں،جانوروں کے لیے روشنی کو متاثر کرسکتے ہیں جومختلف پرندوں اوربہت سی انواع کے لیے خوراک کے اہم ذرائع ہیں،ان کا کہنا ہے کہ سولرمنصوبے کی وجہ سے جھیل کے پانی کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوسکتی ہے،پینلزیہ گرمی جذب کرکے جھیل کے پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں،شمسی توانائی کے پلانٹ کی تعمیرکے دوران شورپرندوں کی افزائش کو متاثر کر سکتا ہے۔
محمد جمشید اقبال چوہدری کا کہناہے کہ سولر پینلز کی دیکھ بھال یا صفائی کے لیے کیمیکلزکے استعمال سےکیمیائی آلودگی آبی حیات اور پرندوں کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی ہے،یہ منصوبہ کئی پرندوں کی نسلوں کے مسکن میں خلل ڈال سکتا ہے،بشمول نائٹ ہیرون،کاٹن ٹیل،فیزنٹ ٹیلڈ جیکانا اورپرپل مورہن نامی پرندوں پرجھیل میں پانی کی سطح اورہیئت کی تبدیلی کے سبب ان کے گھونسلوں پرمنفی اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔