شنگھائی تعاون تنظیم اس بات کا برملا اعلان اپنے مشترکہ اعلامیے میں کر چکی ہے کہ تنظیم کے ممبر ممالک جوکہ آپس میں جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے ہیں جلد ازجلد انھیں بہت سارے شعبوں میں اپنے تعاون کو تیز ترکرنا ہوگا۔
آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اگر پاکستان کے ساتھ اس تنظیم کے وسط ایشیائی ممالک کا رشتہ دیکھا جائے تو قدیم روابط کے ساتھ بعض مسلم ممالک ہونے کے ناتے مذہبی رشتے سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں کے ساتھ پاکستان کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی جوکہ آج مختلف وجوہات کی بنا پر مزید مضبوط تر ہو چکے ہیں جس میں گوادر کی بندرگاہ کا مرکزی کردار ہوگا۔ مشترکہ اعلامیہ ظاہر کر رہا ہے کہ اگر ان ملکوں کو معاشی ترقی، صنعتی ترقی اورگھریلو صنعتوں کا فروغ درکار ہے تو ان ملکوں کو اپنے تجارتی روابط اور تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے آپس میں زیادہ سے زیادہ تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
دنیا کی بدلتی ہوئی معاشی اور باہمی تعاون کی صورت حال کو مدنظر رکھیں تو یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ مختلف علاقوں اور خطوں کے ملکوں کے درمیان آپس میں باہمی تعاون باہمی تجارت اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی خاطر اس طرح کی علاقائی تنظیمیں فروغ پا رہی ہیں اور آپس میں باہمی تجارت میں اضافہ کر رہی ہیں۔
ایسے عالم میں جب ایک طرف ’’غزہ جنگ‘‘ اور اب ’’لبنان جنگ‘‘ اس کے ساتھ حوثیوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ نے عالمی بحری تجارت میں سراسیمگی پھیلا دی ہے اور بہت سے ملکوں نے آپس میں اردگرد کے پڑوسیوں کے ساتھ زمینی تجارت کی طرف توجہ دینا شروع کردی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا حالیہ اجلاس ہمیں بھی اس بات کا احساس و ادراک دلا کر گیا ہے کہ جتنی جلد ہو سکے ہم اپنی تجارتی ہیئت اور رخ کو سمجھیں اور اپنی تجارت خارجہ کو مشترکہ اعلامیے کی روح کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔
دنیا جلد ہی نیو ورلڈ آرڈر سے نکل کر کثیر قطبی نظام کی طرف مراجعت کر رہی ہے۔ کثیر ملکی علاقائی تنظیمیں اس بات کا اشارہ کر رہی ہیں، اگر ہم پاکستان کے تجارت خارجہ پر نظر ڈالتے ہیں تو وزارت خارجہ کے اثرات اس پر واضح نظر آتے ہیں جسے آگے چل کر باہمی تجارت کے اعداد و شمار کے پیمانے پر ناپ کر دیکھ لیا جائے گا، کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک میں علاوہ پاکستان کی باہمی تجارت کا دائرہ وسیع ہے جب کہ پاکستان کی تجارت کا جھکاؤ امریکا اور مغربی ممالک کی جانب زیادہ ہے جسے ہم پی بی ایس کی حالیہ جاری کردہ ٹریڈ رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں جہاں پاکستان کی ایکسپورٹ امپورٹ کے بارے میں اہم اعداد و شمار دیے جاتے ہیں وہاں ان ٹاپ ٹوئنٹی ممالک کے ساتھ تجارتی اعداد و شمار بھی ظاہر کیے جاتے ہیں۔ اس میں سے اگر ہم ان بیس ملکوں کا جائزہ لیں جو پاکستان سے بہ لحاظ مالیت زیادہ درآمد کرتے ہیں اور ہماری برآمدات میں ان کا کیا حصہ بنتا ہے تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ ہماری برآمدات کا بڑا حصہ یورپ اور امریکا کی جانب ہے جب کہ سوائے چین کے کوئی ملک جوکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر ہو اس کے ساتھ ہماری تجارت قابل ذکر نہیں ہے۔ اب آپ ملاحظہ فرمائیے امریکا کے لیے ہماری کل برآمدات کا 17.25 فی صد، برطانیہ کے لیے 6.6 فی صد، جرمنی 5 فی صد، نیدرلینڈ، اسپین، بیلجیم بھی تقریباً 3 تا 5 فی صد کے لحاظ سے تجارتی شراکت دار ہیں۔
اسی طرح افغانستان اگرچہ ابھی تک شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر نہیں بنا لیکن وہ اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر براجمان ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ کبھی یہ ملک ٹاپ ٹوئنٹی ممالک جن کے لیے ہماری برآمدات ہوتی تھیں اس فہرست میں کبھی تیسرے اور کبھی چوتھے نمبر پر تھا۔ اب کل برآمدات میں اس کا حصہ گھٹ کر محض پونے چار فی صد رہ گیا ہے۔ البتہ شنگھائی تعاون تنظیم کا واحد ممبر ملک چین ہے جس کے لیے پاکستان کی کل برآمدات میں اس کا حصہ 8.39 فی صد ہے یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں کافی اضافہ نوٹ کیا گیا۔
اس طرح 22-23 کے مقابلے میں 23-24 کے دوران قابل ذکر اضافہ ہوا جس میں سی پیک معاہدے کا بڑا کردار ہے اور حکومتی کوشش کا اور پاکستانی تاجروں کا بھی اور چین کی طرف سے بھی پاکستانی برآمدات کو فوقیت دی گئی۔
گزشتہ دنوں یہ بتایا گیا تھا کہ روس کے ایک اعلیٰ عہدیدار جلد ہی پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ پاکستان کو روس سے تجارتی روابط بڑھانے اور بہت سے شعبوں میں روس سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تھوڑی بہت مالیت کا بارٹر ٹریڈ کا آغاز ہو چکا ہے۔ روس نے ہمیں پاکستان اسٹیل ملز قائم کرکے دی تھی۔ اس سلسلے میں مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔
بارٹر سسٹم کے تحت تجارت روس کے ساتھ اگرچہ معمولی مالیت کی شروع کردی گئی ہے لیکن اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان نے اس تنظیم کے کئی ممبر ممالک کے ساتھ مذاکرات بھی کیے ہیں اور اپنی برآمدات کا حجم بڑھانے کے لیے بہت زیادہ سعی و کوشش بھی کر رہا ہے جس سے امید کی جاتی ہے کہ جلد از جلد ہم تجارت کے لیے صرف امریکا اور یورپ پر انحصار نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ اپنی اپنی باہمی تجارت کو زیادہ سے زیادہ بڑھا کر اپنی برآمدات میں مزید اضافہ کر لیں گے۔