گزشتہ دس برسوں کے دوران ماہنامہ اطراف میں عورت کے مقام اور حقوق سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کا انتخاب کر کے انھیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا نام الجھی زلفیں رکھا گیا ہے، تین سو تراسی صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اکتالیس منتخب مضامین شامل ہیں۔
اسلام عورت کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو سب سے زیادہ احترام اور عزت دی۔ اس ضمن میں زیر نظرکتاب الجھی زلفیں میں شائع شدہ ایک منتخب مضمون بعنوان ’’ آج کی مسلمان عورت‘‘ میں مضمون نگار عبدالمنان معاویہ لکھتے ہیںکہ’’ آج کل ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بڑی سرگرم ہیں اور ان کے ساتھ ویمن رائٹس کی تنظیموں نے بھی بڑا شوروغل مچایا ہوا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وومن رائٹس کی اکثر تنظیمیں بے حجابانہ کلچرکو فروغ دینے کو ہی وومن رائٹس تصورکرتی ہیں۔
اسلامی کلچر میں عورت کے حقوق کا تصور اس کے برعکس ہے۔ آج بھی دیگر اقوام و ملک کی بجائے اسلامی معاشرے میں خواتین کو سب سے زیادہ حقوق حاصل ہیں،لیکن مغربی دانشوروں نے مغربی کلچرکو عام کرنے کے لیے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر شوشہ اڑایا ہوا ہے کہ مسلم معاشرے میں عورت حقوق سے محروم ہے، اس کی آزادی پر قدغن ہے۔ اہل مغرب چاہتے ہیں کہ جس طرح ان کا عائلی نظام تباہ ہوچکا ہے، اسی طرح وہ مسلم معاشرے کو بھی تباہی سے دوچارکریں اور اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ نظام بے حیاء جو مغربی عائلی نظام کو تباہ کرچکا ہے،اب وہی تباہی مسلم ممالک میں بھی لائی جائے اور اسی لیے مغربی ممالک مختلف این جی اوزکو بے پناہ فنڈز دے رہے ہیں۔
خالق کائنات کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔کلام مقدس میں ارشاد ربانی موجود ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا میں رائج نظام حیات میں اسلام کا نظام حیات پسند ہے۔ اسی کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے کہ جوکوئی بھی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیارکرنا چاہیے گا تو اس کا وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا،کیوں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ایک آفاقی دین ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے نظام حیات میں مردوں سے متعلق احکامات تو ہوں ان کے بارے میں ضابطہ حیات تو ہوں لیکن صنف نازک ان احکامات سے آزاد ہو یا خواتین کے بارے میں اسلام خاموش ہو، ایسا نہیں ہے۔ اسلام کے عطا کردہ نظام حیات نے جس طرح مردوں کو حقوق بخشے ہیں، اسی طرح خواتین کے حقوق بھی متعین کردیے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہناز رحمن ایک ایسا نام ہے جس سے ہر مظلوم عورت آشنا ہے۔کیوں کہ وہ سالہا سال سے پاکستان اور تیسری دنیا کے غریب اور مظلوم خواتین کے لیے صرف آواز بلند نہیں کررہی ہیں۔ عملی جدوجہد بھی کررہی ہیں۔ ان کے عظیم خاوند سینئر صحافی شاعر احفاظ الرحمان صحافیوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑتے رہے ہیں۔ آزادی اظہارکے لیے صعوبتیں برداشت کرتے رہے ہیں۔
وہ ان کی جدائی کے صدمے سے دوچار ہوئیں، مگر انہوں نے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی ہے۔کتاب الجھی زلفیں میں مہناز رحمن اپنے مضمون بعنوان ’’ہر دن عورت کا‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’ عورت جس کا مضبوط رشتہ گھر اورگرہستی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے وہ چاہے جس بھی رشتہ میں ہو، اس کا تصور ہی آسودگی ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ اس آسودگی کو بھی صنف میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔
بات صرف اتنی ہی نہ تھی بلکہ بالاتری اور برتری جیسے احساس نے خدا کی اس تخلیق کی شکل بگاڑ نی چاہی۔ مخالفت اور مزاحمت ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے، چونکہ یہ مسئلہ کسی ایک خطے کا نہیں بلکہ عالمگیر حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اس صنفی عدم مساوات کو روکنے کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں لیکن جب تک چہار دیواری میں ان پر بات نہ کی جائے توکیسے بھلا اس کے نتائج کی توقع ہو۔ جب تک خاندان کے مزاج میں بدلاؤ نہیں آئے گا تب تک اس حوالے سے کسی اچھی سوچ کی توقع رکھنا عبث ہے۔‘‘کتاب الجھی زلفیں میں جہاں آراء کا مضمون بعنوان ’’ کم عمری کی شادی کے مضمرات‘‘ بھی شامل ہے جو عصری حالات کی نشاندہی کرتا ہے۔ جہاں آراء لکھتی ہیں کہ شادی ایک سماجی معاہدہ ہے مگرکم عمری کی شادی ایک سماجی مسئلہ ہے، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
قرون وسطیٰ یونان میں اٹھارہویں صدی سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے اور آج دنیا بھر میں کم عمری کی شادی کا رواج عام ہوگیا ہے۔ پاکستان میں بھی کم عمری کی شادی کا رجحان کافی حد تک پایا جاتا ہے اور والدین بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کم عمری کی شادی سے لڑکا اور لڑکی دونوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ والدین میں اس بات کا شعور تو اجاگر ہوا ہے کہ کم عمری میں بچوں کی شادی مناسب نہیں ہے مگر عملاً اب بھی وہ اپنے بچوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کر رہے ہیں۔کم عمری کی شادیوں کا زیادہ رواج دیہاتی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے سماجی معاشی، معاشرتی، نفسیاتی اور خاص کر لڑکیوں کی صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ‘‘
جہاں مرد کو منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے بیوی بچوں کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، وہاں عورتوں کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ مردوں کی وفادار اور اطاعت گزار بن کر رہیں۔ دور حاضر میں ان تمام تعلیمات کو عملی جامہ اس وقت ہی پہنایا جاسکتا ہے جبکہ میاں اور بیوی دونوں عقل و شعورکی منازل طے کر کے اس رشتے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ سکتے ہوں۔ وجہ کم عمری میں ممکن نہیں۔ شادی کی عمر میں صنف کے اعتبار سے فرق کی وجوہ یہ بتائی گئی ہیں کہ لڑکی کا عمر میں لڑکے سے کم سے کم ہونا طبعی اور سماجی ہر اعتبار سے مناسب ہے۔
کیوں کہ عمرکا فرق دونوں کے درمیان سمجھوتے اور لحاظ و مروت کو قائم رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ لڑکے پر چونکہ خاندان کی کفالت کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے جس کے لیے اسے برسر روزگار اور معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت ضروری ہے جوکم عمری میں ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ شادی کے لیے صرف بالغ نہیں بلکہ عاقل ہونا بھی شرط ہے اور ذہن پختگی کے مراحل طے کیے بغیرکوئی بھی شخص خاندان کا اچھا کفیل ثابت نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس یہ سوال کہ کیا حکومت کو شادی کے لیے کم سے کم عمر اٹھارہ سال مقررکردینی چاہیے؟ تو 65 فیصد اسکالرز نے اس امرکی نفی کی ہے جبکہ 35 فیصد نے حمایت کی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامک اسکالرزکی اکثریت اس بات پر تو متفق ہے کہ رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لیے کم سے کم عمر 18سال یا اس سے زائد ہونی چاہی، مگر اسے قانونی شکل دے کر نافذ کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ دور حاضر میں فروغ پانے والی جنسی بے راہروی اور غیراخلاقی حرکات و سکنات بتائی جاتی ہیں۔