ہمارے دکھوں کے ذمہ دار کون ہیں؟

بادشاہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہے


Aftab Ahmed Khanzada October 27, 2024
[email protected]

ایک بار،Keanu Reeves  نے کہا ’’ درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں، اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے، ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے، انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔

 1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نابود کر دیا تھا۔ Auschwitz کے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا، اس کا خاندان نیست و نابود کردیا گیا تھا وہ بے گھر اور بے وطن تھا۔ ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی، اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش زدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں۔

اس نے آسمان کی طرف نظر کر کے خدا سے سوال کیا تھا ’’آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے ،کیوں انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz  میں دار پر لٹکا دیا تھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا۔‘‘ اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہا تھا ’’تم سب جو گزرے جا رہے ہو، کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی۔‘‘

محترم ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں۔ آپ کے دردکی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم، ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے، اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لغت ایجاد کرنی ہوگی، اس لیے کہ ہمارے دکھ درد کی شدت موجودہ الفاظ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے تکلیفیں موجود الفاظ کی چیخوں سے زیادہ درد ناک اور وحشتناک ہیں۔ ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ الفاظ سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں۔ آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں، یہاں تو 25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں۔

 آئیں! ذرا تاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں، طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے، بہت سے ان میں نیم مردہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے دار ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کر رہی تھیں۔

بادشاہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کالنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں۔ آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کر رہی تھیں آپ اور کچھ نہ کریں، صرف ہمارے ملک کی غربا کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں، ان کے گھروں میں جھانک لیں، ان کے نوحے سن لیں، ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، ان کے گریہ ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔

 سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ جو دکھ ہوتے ہیں یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھرکبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے، جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔

آئیں! ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں۔

پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیردار، وڈیرے، سردار اور پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو، ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو، انہیں ذلیل کرتے رہو اور انہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو، ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔

دوسرا گروپ۔ جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات شامل ہیں، یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں، سوٹوں میں ملبوس خوشبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوں گے ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے۔

تیسر ا گروپ۔ اس گروپ میں انتہاپسند مذہبی رہنما شامل ہیں، آج ہمارا ملک جو انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے، اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے تھے، اٹھا رہے ہیں ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔

چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیوروکریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے، کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں۔ شیطان اگر دنیا میں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کارروائیوں میں مصروف نظر آتے ہیں، لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں۔ ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو، اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سورج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو، دیتے رہو، دیتے رہو، دیتے رہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔