معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ، شدت پسندی اور پر تشدد رجحانات کا تجزیہ کرتے وقت اس کی ذمے داری نئی نسل پر ڈال دیتے ہیں ۔ منطق یہ دی جاتی ہے کہ نئی نسل مکالمہ کے خلاف ہے ، وہ منفی سوچ اور فکر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ پرانی نسل اپنی ناکامی کا سارا غصہ نئی نسل پر نکال کر اپنے آپ کو خود احتسابی سے دور رکھتی ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ نئی نسل میں منفی رویے کیوں کر پنپے ہیں ۔اسی طرح نوجوانوں کے معاملات میں جو بگاڑ دیکھنے کو مل رہا یا جو ہمیں دکھایا جارہا ہے اس کی ذمے داری کسی سیاسی جماعت یا لیڈر پر ڈالنا بھی درست عمل نہیں ہے ۔یہ عمل نئی نسل میں زیادہ ردعمل کی سیاست کو جنم دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ریاست و حکومت کے حکمرانی کے نظام میں ان کے مسائل کے حل کی کوئی گنجائش نہیں۔
بنیادی طور پر ہم نئی نسل کے مسائل و مشکلات کو سمجھ کر آگے بڑھنے کے بجائے ان کو بحران کا ذمے دار سمجھتے ہیں ۔جب کہ سچ یہ ہے کہ نئی نسل کی اکثریت ساری ذمے داری فرسودہ نظام پر ڈالتے ہیں ۔یہ ہی وہ بنیادی نقطہ بھی ہے اور تضاد بھی جو ریاست و حکومتی نظام کو نئی نسل سے دور کررہا ہے اور اس کا ایک بڑا نتیجہ سخت ردعمل کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان کا نوجوان طبقہ جو تعداد میں سب سے زیادہ بھی ہے اور اب اس کے سامنے سیاسی و سماجی شعور کے تناظر میں ایک نئی دنیا بھی ہے ۔
پاکستان کا نوجوان اس وقت صرف پاکستان سے ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس نے اپنی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے خود کو ’’ گلوبل دنیا یا گلوبل کمیونٹی ‘‘ کے ساتھ بھی جوڑ لیا ہے۔ اس کے سامنے ڈیجیٹل کی دنیا ہے اور ڈیجیٹل یا ٹیکنالوجی کی دنیا میں آنے والی نئی تبدیلیوں یا نئی جہتوں نے اس کی آواز یا اس کے ردعمل کو محض داخلی سیاست یا ملکی معاملات تک محدود نہیں کیا بلکہ وہ اپنی رائے یا خیالات بنانے کے لیے عالمی گلوبل دنیا سے بھی جڑا ہوا ہے اور اسے اپنی رائے کے اظہار کے لیے ان ٹیکنالوجی یا ڈیجیٹل میڈیا کی مدد سے نئے راستے اور نئے امکانات بھی مل رہے ہیں ۔
ایک طرف نئی نسل کے لیے محدود امکانات کی دنیا اور دوسری طرف قومی سطح پر فرسودہ ، پرانی سوچ اور خیالات پر نظام نئی نسل کو پہلے سے زیادہ سیاسی اور معاشی تنہائی میں مبتلا کررہا ہے ۔ اس کا ایک نتیجہ یا تو نئی نسل کی طرف سے ملک چھوڑنے کے رجحان کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے تو دوسری طرف ان میں لاتعلقی یا انتہا پسندی پر مبنی منفی سطح کے رجحانات کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
اس وقت نئی نسل کے سامنے محض معیشت یا روزگار یا معاشی تحفظ کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ان کے بنیادی سیاسی ، سماجی ، قانونی، انتظامی حقوق سمیت کی عدم قبولیت بھی ہے ۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ،طبقاتی بنیادوں پر فیصلے، دیہی و شہری علاقوں کی تقسیم ، مجموعی طور پر محرومی کی سیاست کا غلبہ پورے ریاستی و حکومتی نظام پر غالب ہے ۔نئی نسل کی سیاسی ،سماجی او رمعاشی حیثیت کو پائیدار ترقی اور مستقل ترقی کے دھارے میں شامل نہ کرنے کارجحان اور پالیسیوں میں بھکاری یا بھیک کی صورت میں دیے جانے والے خیراتی پروگرام اور ان پروگراموں کی مدد سے کمزور اور محروم طبقوں کو میڈیا کی سطح پر نمائش کے طور پر پیش کرنا مسائل کا حل نہیںبلکہ ان مسائل میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہے ۔
تعلیمی نظام کو معیشت اور روزگار سے نہ جوڑنے کی پالیسیو ں نے تعلیم یا ڈگری کی اہمیت کو بہت کم کردیا ہے اور ہماری ترجیحات میں آج بھی کہیں اپنے مجموعی تعلیمی نظام میں نئی جدت اور نئی جہتیں اختیار کرنے یا دنیا کے تعلیمی نظام سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا کوئی رجحان ہمیں غالب نظر نہیں آتا او ریہ ہی وجہ ہے کہ اب جامعات کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔
ایک طرف ہم معیشت کی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر اسی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت میں نئی نسل کو پیچھے چھوڑ کر معیشت کی ترقی کا بیانیہ بنانا چاہتے ہیں جو ایک بڑا تضاد ہے ۔یہ جو ہمیں نئی نسل کی سطح پر غصہ ، بغاوت، لاتعلقی ،نفرت ،انتہا پسندی ، شدت پسندی ،تشدد نظر آتا ہے اسے قومی سطح پرموجود ’’ محرومی کی سیاست ، معیشت اور انصاف ‘‘ کی بنیاد پردیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات پر تجزیہ کیا جائے کہ ریاستی وحکومت کی سطح پر موجود پالیسیاں نوجوان طبقہ کے مفاد کو حل نہیں کررہی ہیں۔
کیا واقعی ہماری نئی نسل کو ترقی کے پورے مواقع حاصل ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ ریاست وحکمرانی کا نظام ہم پربوجھ بھی ہے اور ہمیں محرومی کی نئی دلدل میں بھی ڈال رہا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اب پاکستان چھوڑنے والوں میں محض کم تعلیم یافتہ افراد ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ایک بڑی تعلیم یافتہ نسل بھی دلبرداشتہ یا مایوسی کی سوچ کے ساتھ باہر جانا چاہتی ہے جو کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔
اس لیے مجموعی طور پرریاست وحکومت کے نظام کونئی نسل میں موجود سیاسی اور معاشی بے چینی اور ان کے بنیادی حقوق سے جڑے سوالات خیالات کو جس میں یقینی طور پر تلخی بھی ہے اور ان کے اظہار کے انداز پر ہم سب سوالات اٹھاسکتے ہیں مگر ان کے اندر کے سچ کوجھوٹ میں تبدیل نہیں کرسکتے ۔نئی نسل آگے بڑھنے کا راستہ مانگ رہی ہے ۔اس لیے ریاست اور حکومت کو نظام میں نئی نسل کی ضروریات کے مطابق تبدیل کرنا چاہیے۔ نظام کو اپنا داخلی احتساب بھی کرنا ہوگا کہ نئی نسل منفی سمت کیوں اختیار کررہی ہے۔یہ جو نئی نسل میں غصہ ہے یا ان میں جو شدت پسندی بڑھ رہی ہے وہ حکمرانی کے نظام میں موجود خرابیوں سے جڑی ہیںاو راسے تبدیل ہونا چاہیے۔