پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور تحریک پاکستان کے عظیم رہنما شہید ملت لیاقت علی خان کا یوم شہادت 16 اکتوبر کو خاموشی سے گزر گیا، عوامی سطح پرچند تقریبات کا اہتمام کیا گیا مگر حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہوا، نہ تو صدر یا وزیر اعظم نے انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی بیان جاری کیا، نہ ہی سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر ان کی خدمات کے شایان شان کوئی پروگرام پیش کیا گیا، اب تو نجی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھی ان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، البتہ پہلے تمام اخبارات ان کی شہادت پر خصوصی ایڈیشن شایع کرتے تھے۔
کیا شہید ملت کی قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان کی خدمات کو فراموش کر دیا گیا ہے؟کیا ہم بھول گئے کہ آپ قیام پاکستان کے سلسلے میں قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ اور قدم بہ قدم ساتھ رہے۔ آپ وہ رہنما ہیں کہ قائد اعظم کو قیام پاکستان کے بعد آپ کے سوا کوئی اور رہنما وزیر اعظم کے عہدے کے لیے مناسب نظر نہ آیا۔ آپ نے اس نوزائیدہ مملکت کی تعمیر و ترقی کا بھاری کام انتہائی خوش اسلوبی اور دانش مندی سے انجام دیا۔
اس وقت ایک طرف بڑا مسئلہ مہاجروں کی آبادکاری تھا جو جوق در جوق اپنے خوابوں کی سرزمین میں آباد ہونے کے لیے چلے آ رہے تھے۔ دوسرا بڑا مسئلہ کشمیر پر بھارتی قبضے کا تھا، آپ نے مہاجروں کی آبادکاری کے لیے کئی کئی بستیاں بسائیں تو وہیں آپ کی کوششوں سے سلامتی کونسل میں کشمیرکے مسئلے پر وہ قراردادیں پاس ہوئی ۔
آپ نے پاکستان کو اقتصادی اور دفاعی طور پر مضبوط بنانے کے لیے مغربی دنیا سے تعلقات استوار کیے۔ اس سلسلے میں آپ کا امریکا کا دورہ پاکستان کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔ امریکی اقتصادی اور فوجی امداد نے جہاں پاکستان کو اپنے پیروں پرکھڑا کیا وہاں بھارت کے خطرے سے بھی آزاد کر دیا۔ آپ نے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے یوں آگاہ کیا کہ پاکستان کو مغربی ممالک نے کئی عالمی دفاعی اور معاشی تنظیموں میں جگہ دے دی جس سے پاکستان کا نہ صرف وقار بلند ہوا بلکہ اسے معاشی اور دفاعی استحکام نصیب ہوا۔
آپ کی قیام پاکستان کے سلسلے میں خدمات کے قائد اعظم اس قدر معتقد تھے کہ آپ نے فرمایا تھا ’’ لیاقت علی خان میرے دست راست ہیں، انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ایک کر دیے ہیں۔ ان جیسا سنجیدہ، لائق اور اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے والا مشکل سے ہی ملے گا، وہ اگرچہ ایک نواب خاندان کے چشم و چراغ ہیں لیکن عام آدمی کی طرح کام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حصول پاکستان سے بڑھ کر کوئی اہم کام نہیں ہے۔‘‘ قائد اعظم آپ پر بے حد بھروسہ کرتے تھے اور آپ نے انھیں اہم ذمے داریاں سونپیں جنھیں انھوں نے احسن طریقے سے انجام دیا۔
جب 1946 میں کانگریس اور مسلم لیگ کی ملی جلی حکومت بنی تو اس کے وزیر خزانہ کا عہدہ کانگریس نے مسلم لیگ کو دینے پر زور دیا کیونکہ وہ جانتی تھی مسلم لیگ یہ عہدہ کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی کیونکہ اس کے رہنماؤں میں کوئی بھی معاشی ماہر نہیں ہے اس سے مسلم لیگ کا انگریزوں کی نظر میں اچھا تاثر نہیں جائے گا چنانچہ لامحالہ یہ عہدہ ان کے حصے میں آئے گا اور وہ اس کے ذریعے مسلم لیگ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کریں گے مگر ہوا یہ کہ قائد اعظم کانگریس کی چال کو سمجھ گئے۔ انھوں نے فوراً یہ عہدہ لیاقت علی خان کو تفویض کر دیا پھر شہید ملت نے اس عہدے کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کر لیا۔
آپ نے ایک طرف ایسا عوامی بجٹ پیش کیا کہ برصغیر کا ہر شخص آپ کی ذہانت اور عوام دوستی کا قائل ہو گیا دوسری طرف آپ نے کانگریس کے سارے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا اور انھیں ایک ایک پیسے کے لیے ترسا دیا۔ اس طرح آپ کو پورے برصغیر کے پہلے ہندوستانی وزیر خزانہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی ذہانت کے اس وقت کے بڑے بڑے عالمی لیڈر معتقد تھے۔ آپ کو اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی اور امریکی صدر ٹرومین بھی ایک لائق فائق لیڈر مانتے تھے۔ جب قائد اعظم ہندوستانی سیاست سے مایوس ہو کر لندن جا کر مقیم ہوگئے تھے، وہ لیاقت علی خان ہی تھے جو انھیں منا کر ہندوستان واپس لائے تھے اور پھر اس کے بعد تحریک پاکستان کا انتہائی سرگرمی سے ہندوستان کے گوشے گوشے میں کام شروع ہوا تھا۔ جس کے بعد قیام پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی گئی تھی۔
لیاقت علی خان پاکستان کے ایک غریب پرور وزیر اعظم تھے، آپ ہندوستان میں اپنے محل زمین اور جائیداد چھوڑکر پاکستان آگئے تھے۔ یہاں آپ کا کوئی ذاتی مکان نہیں تھا، آپ سرکاری رہائش گاہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ کا کوئی بینک بیلنس بھی نہیں تھا، جب 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں آپ کو شہید کر دیا گیا تو مرتے وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے‘‘۔ آپ کی شیروانی کے نیچے پہنا ہوا کرتہ پھٹا ہوا تھا اور آپ کی جیب سے صرف 14 آنے برآمد ہوئے تھے۔
گزشتہ سال پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک یادگاری 75 روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیا تھا جس پر قائد اعظم، محترمہ فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کی تصاویر شایع کی گئی تھیں مگر قائد اعظم کے دست راست شہید ملت لیاقت علی خان کو نظرانداز کیا گیا، یہ کیسا ظلم اور ناانصافی ہے۔ کم سے کم متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو یہ ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسے حکومت کی اس ناانصافی پر سخت احتجاج کرنا چاہیے تھا اور اسے اب بھی اس ناانصافی یا غلطی کو درست کرا کے ہی دم لینا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم ہی شہید ملت کی احسان مند ہے، وہ آیندہ اپنے محبوب لیڈرکی قدر و منزلت کو دوبالا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔