امریکی الیکشن میں صدارتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے العربیہ نیوز کو انٹرویو میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم امن کے لیے کام کروں گا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اگر میں صدر ہوتا تو اسرائیل پر حملہ حماس اور حزب اللہ کی کارروائیاں اور روس یوکرین جنگ نہ ہوتی۔
افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ شرمناک ہے۔ ذرا غور فرمائیں۔ دوسری طرف ماسکو میں برکس کے بزنس فورم کے افتتاح کے موقع پر روسی صدر نے یوکرین سے امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب کی ثالثی قبول کر لی ہے۔ سعودی عرب کا مقام عرب دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ روس جیسی سپر پاور کا یوکرین کے معاملے پر سعودی عرب کی ثالثی قبول کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اگر ٹرمپ دوبارہ سے امریکی صدر منتخب ہو جاتے ہیں جس کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں تو سعودی ایران دوستی کے نتیجے میں سعودی عرب کا رول نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی اس سال دسمبر سے اگلے سال مارچ کے درمیان سعودی عرب خطے میں انتہائی اہمیت اختیار کر لے گا۔ روسی صدر پیوٹن نے بلا وجہ ہی یوکرین کے تنازعے پر سعودی عرب کی ثالثی قبول نہیں کی۔
انھیں اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے حالات انقلابی رخ اختیار کرنے والے ہیں۔ اس پس منظر میں بھارت پاکستان تعلق پر مدتوں سے جمی ہوئی آئس برگ بڑی تیزی سے پگھلنا شروع ہو جائے گی۔ سوال یہاں یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو گا۔ وجہ اس کی ہے کہ 1980 کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستان کی اہمیت امریکا اور بھارت کی نظر میں انتہائی کم ہو گئی۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کو وجود میں اس لیے ہی لایا گیا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
چنانچہ افغانستان اور دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے پاکستان کو محفوظ پناہ گاہ بنایا گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ واشنگٹن میں ایسا دینی نصاب مرتب کر کے پاکستان میں پھیلا دیا گیا کہ مجاہدین اس کو پڑھ کر خوشی خوشی اپنی جان امریکا پر سوویت یونین کے خاتمے کے لیے قربان کرتے رہیں۔ القاعدہ ہو یا افغان مجاہدین اور پاکستانی افغان طالبان، داعش، یہ بھی امریکا کا تحفہ ہیں۔ امریکا نے ان کو جہادی بنانے کے لیے بڑی محنت اور اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ یہ اس کے قیمتی اثاثے ہیں۔ یہ کبھی بھی ان کو ضایع نہیں ہونے دے گا۔ بلکہ ان کی حفاظت کرے گا، امریکی تھنک ٹینکوں نے اسلامی تاریخ کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کر کے ابتدائے اسلام کے خوارج کو موجودہ دہشت گردوں کی شکل میں ’’ری برتھ‘‘ کر دیا ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ بچپن میں ہمیں نصاب میں 1857 کی جنگ آزادی کو بغاوت کا نام دے کر پڑھایا جاتا تھا۔ جب کہ یہ جنگ آزادی ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف لڑی۔ بے شمار ہندوؤں اور مسلمانوں کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں توپ دم کیا گیا یعنی توپوں کے منہ پر باندھ کر اُڑا دیا گیا۔ باوجود اس کے تخت و تاج تو مسلمانوں سے انگریزوں نے چھینا تھا، ہندئووں نے نہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا یہ اتحاد دیکھ کر انگریز خوفزدہ ہو گئے کہ اگر ان کے اتحاد کو توڑا نہیں گیا تو یہ دونوں مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے جب کہ وہ تو کئی سو سالوں کے لیے ہندوستان کے قیمتی وسائل لوٹنے آئے تھے۔
چنانچہ انتہائی چالاکی مکاری سازشوں سے مذہب، زبان، نسل کے نام پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کا خاتمہ کر دیا گیا۔ برصغیر کی تقسیم کے موقع پر دس لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل عام میں سے بیشتر کا تعلق پنجاب سے تھا ، جس نے ایک ایسی دشمنی کی بنیاد رکھ دی جو آج تک ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ وقت سے پہلے اور جلد بازی میں برصغیر خاص طور پر پنجاب کو ایک ہولناک المیے سے دوچار کر دیا۔ جس نے سکھوں، مسلمانوں، ہندوؤں کے درمیان ایک ایسی خونی لکیر کھینچ دی جسے پار کرنا آج بھی محال ہے۔
امریکی کانگریس کے 60 سے زائد اراکین کی جانب سے امریکی صدر جو بائیڈن کو خصوصی خط تحریر کیا گیا جس میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس میں عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط کی ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیں۔ خط لکھنے کے اگلے ہی روز بشریٰ بیگم کی ضمانت منظور ہو جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے آج سے چند ماہ بیشتر عمران خان کے حوالے سے سال کی آخری سہ ماہی کو انتہائی اہم قرار دیا تھا۔ آخر اس کی وجہ کیا تھی؟ تفصیل اس کی یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ بحران مارچ 2022 کو سائفر سے شروع ہوا تھا۔ اس نیگیٹیو فیز کے خاتمے کے حوالے سے پہلا اور کم اہم وقت مارچ اپریل 2024 تھا۔ اس کے بعد دوسرا اہم وقت جولائی اگست تھا اور اب تیسرا اہم ترین وقت نومبر دسمبر ہے جس میں نومبر کے دوسرے ہفتے سے دسمبر کا تیسرا ہفتہ فیصلہ کن ہے۔ ان مہینوں میں آپ کو علم الاعداد کا جادو نظر آئے گا۔