اسلام آباد:
شنگھائی تعاون تنظیم کے پاکستان میں حالیہ کامیاب اجلاس کے انعقاد کے بعد پاکستان برکس میں شمولیت کیلیے کوششیں کر رہا ہے، تاہم پاکستان نے ایسی تنظیموں میں شامل ہوکر کوئی خاص معاشی فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔
جبکہ ویت نام اور چین جیسے ممالک ان تنظیموں میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا ہے، اگر پاکستان ان تنظیموں کے ذریعے معاشی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایک سنجیدہ، تسلسل کی حامل مربوط پالیسی تشکیل دینی ہوگی،
یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ریجنل کوآپریشن بڑھنے سے اور ریجنل کرنسیاں متعارف کرانے سے پاکستان پر امریکی ڈالرز کی شارٹیج کا دباؤ کم ہوگا، بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے، اور عالمی تجارت کے علاقائی کرنسیوں میں منتقلی کے امکانات کم ہیں، لہذا، اگر پاکستان معاشی ترقی چاہتا ہے تو پاکستان کو ایسی تنظیموں کا حصہ بننا ہوگا۔
جو جیو پالیٹیکس پر جیو اکنامکس کو ترجیح دیتی ہیں، جس کے لیے ریجنل کمپریہینسیو اکنامک پارٹنرشپ( آر سی ای پی) کی رکنیت حاصل کرنا فائدہ مند ہوگا، جو عالمی تجارت کا مرکز اور خوشحالی کا راستہ ہے۔
لیکن یہ بھی واضح ہے کہ صرف ریجنل تنظیموں میں شمولیت اختیار کرلینے سے معاشی ترقی کا عمل شروع نہیں ہوجاتا، بلکہ اس کے لیے مربوط اور شفاف پالیسیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں، پاکستان کو ایس سی او ممبران کے درمیان تجارت کے لیے اپنے جغرافیے سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اور پاکستان کو ایک محفوظ ملک کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔
مزید برآں، جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے لیے، پاکستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل تجارت، اور ای کامرس سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہیے، ان فعال اقدامات کے بغیر، نئے بلاکس میں شامل ہونے کے نتیجے میں ٹھوس معاشی فوائد کی بجائے کم سے کم حقیقی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔