ایران کی جانب سے جب 13 اپریل 2024 کو صہیونی ریاست پر حملہ کیا گیا تو اس کو مغرب نے ایک بیوقوفانہ کارروائی کہا جبکہ مخالف بلاک نے اس کو جرأتمندانہ کارروائی قرار دیا۔
یہ کارروائی بنیادی طور پر اسرائیل کے دمشق، شام میں ایرانی سفارتخانے پر ہونے والے حملے کا جواب تھا، جس میں کئی افراد جان سے گئے تھے۔ خطہ جنگ کی دلدل میں اس وقت سے دھنستا جارہا ہے جب حزب کے حملے میں اسرائیل کے اندر 1200 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
ایک طویل داستان جو صہیونی ریاست رقم کررہی ہے خطۂ فلسطین میں، اس کے جواب میں یقینی طور پر یہ ایک کاری ضرب تھی جس سے صہیونی ریاست کو جھٹکا لگا۔ اس کا ردعمل نہ دیا جاتا تو ملک کے اندر بھی انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں سیٹھ ازم برقرار رکھنے میں بھی پریشانی ہوتی۔ لہٰذا یہی چوہدراہٹ اور ہٹ دھرمی قائم رکھنے کےلیے ہی شام پر حملہ کیا گیا۔
اس حملے کے بعد اپریل میں ہی خطۂ فارس سے حملہ کیا گیا جس میں محتاط اندازوں کے مطابق سیکڑوں میزائل فائر کیے گئے۔ اور اس حوالے سے کامیابی نقصان کرنا نہیں گردانا گیا، بلکہ اس خطے تک اتنے مضبوط سیکیورٹی حصار کو توڑ کرپہنچنا ہی کامیابی سمجھا گیا۔ غیر جانبدارانہ انداز سے اس حملے کو دیکھیے تو اس کو ایک اچھی فیس سیونگ کہا جاسکتا ہے کہ خطۂ فارس کو بھی یقینی طور پر اپنے عوام کے سامنے جواب دہ تو کسی نہ کسی حد تک ہونا پڑتا ہے۔ اسی لیے یہ حملہ کیا گیا اور اسے کامیابی بھی اپنی قرار دیا گیا۔ بہرحال کامیابی کے دعوے تو دونوں فریق کرتے ہیں۔
پچھلے کچھ ماہ سے اس چپقلش میں اضافہ ہوچکا ہے اور اس کی وجہ صہیونی ریاست کی کامیاب کارروائیاں ہیں۔ سرزمین فارس پر ہی ہنیہ کی شہادت ہو یا حزب سربراہ کو نشانہ بنانا ہو، صہیونیت یقینی طور پر اپنے عزائم کو کامیابی سے تکمیل کی طرف لے جارہی ہے اور اپنے خلاف جاری مزاحمتی تحریک کو کاری ضرب لگارہی ہے۔ حالیہ کارروائیوں میں سنوار کی شہادت اور پھر حزب کے متوقع سربراہ کو بھی راستے سے ہٹانے نے صہیونی ریاست کی کامیاب کارروائیوں کے ساتھ اسے فرنٹ فٹ پر ضرور لا کھڑا کیا ہے، لیکن دور رس نتائج اس کے یقینی طور پر خطے کی بربادی کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ اور مستقبل قریب میں واضح اشارے موجود ہیں کہ خطے میں پراکسی وارگروپس اب یقینی طور براہ راست جنگ میں فریق بنتے جائیں گے۔ اس کی مثال حزب کے ساتھ ساتھ لبنان سے دیگر مزاحمتی گروپس کا متحرک ہو جانا بھی ہے۔ مزید فکری دریچے کھولنے کےلیے یمن سے حوثیوں کی کارروائیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ لہٰذا اپنی اپنی فیس سیونگ کرتے ہوئے اگر خطۂ فارس و صہیونی ریاست یہ سمجھتے ہیں کہ مقاصد حل ہوجائیں گے، تو ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ اس جنگ نے جلد پورے خطے کو نہ صرف اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے بلکہ نقصان ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہوگا۔
امریکا کا کردار بھی اس حوالے سے حیران کن ہے۔ ایک طرف تو وہ صیہونی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں اور دوسری جانب ریاستِ فارس سے یہ اپیل کہ اس حملے کا جواب نہ دیا جائے۔ یہ وہی مثال ہوگئی کہ تھپڑ بھی مارو اور رونے بھی نہ دو۔ دوغلے معیار کے حوالے سے جہاں مغرب اولین صف میں ہے وہیں پر انکل سام بھی ہیں۔ تیل کی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل بھی اسی لیے تھی کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ اور چند دن بعد ہونے والے انتخابات کی وجہ سے انکل سام کسی معاشی بحران کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ورنہ اپنے لے پالک کے ساتھ تو انکل سام روزاول سے کھڑے ہیں۔
پوری کہانی میں ایک حیران کن پہلو ہے جو خطۂ فارس کےلیے مثبت طور پر پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بن ریا ہے۔ کارروائی جاری تھی کہ صہیونی ریاست پر کارروائی کے صوتی و تصویری ثبوت آنے لگے۔ پھر عالمی میڈیا نے مقامات دکھانا شروع کردیے جہاں میزائل گرے۔ اور حد یہ کہ عالمی میڈیا نے میزائلوں کی تعداد بھی بتا دی کہ دو سو کے قریب میزائل فائر کیے گئے۔ اس کے برعکس صہیونی کارروائی جو مقامی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے سے قبل کی گئی، نہ تو مصدقہ اطلاع عالمی میڈیا تک پہنچ پائی ہے اور نہ ہی نقصانات کی کوئی خبر ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی فارس سروس کے نمائندے بہمان کلباسی کے پاس بھی اس کے سوا کہنے کو کچھ نہیں تھا کہ تہران میں بلند آوازوں سے شہریوں کی جلد آنکھ کھل گئی۔ ان کے مطابق بھی ہونے والے نقصان کی کوئی اطلاع نہیں۔ جب کہ حکومتی سطح پر بھی صرف اتنا کہا گیا کہ محدود نقصان ہوا ہے لیکن کوئی بڑا نقصان ہیں ہوا۔ اگر اس حملے سے بنیادی انتظامی ڈھانچہ، تیل تنصیبات، فوجی اڈے اور دیگر اہم جگہیں محفوظ رہی ہیں تو پھر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ تہران کی کامیابی ہے اور اس سے یقیناً ایک اہم پیغام بھی عالمی دنیا میں جائے گا۔ براہ راست سرحد نہ ملنے کی وجہ سے یہ حملہ ویسے ہی مشکل تھا اور اس پوری کارروائی میں سب سے اہم بات جو کہی گئی کہ طیارے بحفاظت تل ابیب پہنچ گئے۔ اس کے علاوہ جس فیکٹری کو نشانہ بنایا گیا اس کی کوئی اطلاع نہیں، جن مقامات کا ذکر کیا گیا وہاں سے مقامی یا عالمی میڈیا کی طرف سے فی الحال مکمل خاموشی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ہوں، خطے کی دیگر عالمی طاقتوں کا کردار ہو، مستقبل قریب کے امریکی انتخابات ہوں یا پھر وجہ کچھ بھی ہو لیکن کوئی بھی فریق اس وقت یقینی طور پر براہ راست کھلی جنگ برداشت نہیں کرسکتا۔ کہیں مسئلہ معاشی صورتحال ہے تو کہیں چاروں طرف سے مسائل میں گھرے ہونا۔ ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اس پوری جنگ کا مقصد فیس سیونگ ضرور کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ فیس سیونگ مقامی اور عالمی سطح پر اپنا تشخص برقرار رکھنے کےلیے بہرحال انتہائی ضروری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔