کمیونسٹ کیوبا میں عوام پریشان وخوار

حکمران طبقے کی نااہلی اور بداعمالی کے سبب وسطی امریکا کی اس مملکت میں معاشی حالات پاکستان سے بھی زیادہ خراب ہو چکے


سید عاصم محمود October 29, 2024

دنیا میں صرف چار ممالک باقی رہ گئے ہیں جہاں حکومتوں نے اپنے طرز حکمرانی میں کمیونزم نظریات اختیار کر رکھے ہیں یعنی چین، ویت نام، کیوبا اور لاؤس۔ کمیونزم نظریے دو مغربی دانشوروں، کارل مارکس اور لینن کے نظریوں سے ماخوذ ہیں۔ یہ دونوں رہنما ریاست کو ایک ظالمانہ ادارہ سمجھتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں حکمران طبقہ قوانین بنا کر آمر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ وہ پھر آئین و قانون کی آڑ میں عوام پہ حکمرانی کرتا اور تمام ملکی وسائل پہ قبضہ کر لیتا ہے۔ اس لیے کمیونزم مروجہ ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔

یہی وجہ ہے ، جب سوویت یونین وجود میں آیا تو وہاں کمیونزم نظریات رائج ہو گئے۔یہ نظریات مختلف سیاسی و معاشی نظریوں کا مجموعہ ہے۔ کمیونزم کی رو سے ایک ملک میں کوئی بھی فرد واحد زمین، کھیت، کارخانے،مشینری، کمپنی وغیرہ کا مالک نہیں ہوتا ، بلکہ سبھی عوام یا عام لوگ ان کے مشترکہ مالک ہوتے ہیں۔ سوویت یونین کے بعد کمیونزم نظریات دیگر ممالک نے بھی اختیار کیے مگر وہ اب قصّہ ِ پارنیہ بن چکے۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ بظاہر انسان دوست کمیونزم نظریات بھی خامیاں رکھتے ہیں تبھی وہ چل نہیں پائے اور اب صرف چار ممالک میں رائج ہیں۔

پچھلے چالیس برس کے دوران چین نے یقیناً حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ مگر ایسا اسی وقت ممکن ہوا جب چینی قیادت نے کمیونزم کے فرسودہ پہلوؤں سے چھٹکارا پا لیا اور سیاسی و معاشی لحاظ سے جامع اصلاحات اپنا لیں۔ اس کے بعد ہی چین کی معاشی ترقی کا سفر شروع ہوا۔ لیکن امریکا کی مسلط کردہ معاشی لڑائی، کوویڈ وبا اور یوکرین روس جنگ کے بعد سے چین کی معیشت بھی دور تنزلی میں داخل ہو چکی۔ ویت نام اور لاؤس بھی معاشی زوال کا شکار ہیں۔ چاروں کمیونسٹ ممالک میں کیوبا کا سب سے بُرا حال ہے ، حالانکہ وہیں کمیونزم کے نظریات شدومد سے اختیار کیے گئے۔

ملک کا بُرا حال

کیوباکو 1959 ء میں فیدل کاستر ونے ایک انقلاب برپا کر کے کمیونسٹ مملکت میں بدل ڈالا تھا۔ وہ پھر 2008 ء تک ملک پہ حکومت کرتا رہا۔ اس دوران سوویت یونین اور چین کے اشتراک سے وہ امریکا کے لیے درد سر بنا رہا۔ 1962 ء میں تو کیوبن میزائیل بحران کی وجہ سے امریکا اور سوویت یونین کے مابین ایٹمی جنگ چھڑنے لگی تھی کہ بیچ بچاؤ ہو گیا۔آج کل وہاں کاسترو کا نظریاتی وارث حکومت کر رہا ہے۔کمیونسٹ پارٹی مملکت کی حکمران اور اکلوتی سیاسی پارٹی ہے۔

اس وقت کیوبا میں ایک کروڑ سے زائد لوگ آباد ہیں۔ یہ شمالی نصف کرے کا ایک بڑا ملک ہے مگر خطّے میں ارجنٹائن کے بعد اسی دیس کی معیشت تباہ حال ہو چکی۔ آب وہوائی اور موسمیاتی منفی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ پھر امریکا نے اس پہ معاشی پابندیاں لگا دی ہیں جن کی وجہ سے ملک کو بہت سا خام مال بلیک مارکیٹ سے خریدنا پڑتا ہے اور جو مہنگا ہوتا ہے۔خام مال مہنگا ہونے کی وجہ سے کارخانوں میں پیداوار کم ہو چکی۔ سرکاری و نجی کمپنیوں میں نئی ملازمتیں جنم نہیں لے رہیں، اس لیے ملک میں بیروزگاری بھی کافی ہے۔

مددگار نہ رہے

روایتی طور پہ روس، چین اور وینزویلا کیوبا کی ہر ممکن مدد کرتے رہے ہیں۔ مگر یہ تینوں ممالک اندرونی و بیرونی طور پہ ان گنت مسائل کا نشانہ بن چکے۔ روس یوکرین کے ساتھ جنگ میں الجھا ہے۔ وینزویلا میں سیاسی حالات خراب ہیں۔ اسی طرح چین کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر تینوں ممالک ماضی کی طرح کیوبا کی مدد نہیں کر رہے۔ اس بحران کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیوبا میں ایندھن کی قلت جنم لے چکی۔ اسی قلت کے باعث حال ہی میں کیوبا میں بجلی کا نظام جواب دے گیا اور ملک کے اکثر علاقے اندھیرے میں ڈوب گئے۔ بجلی کا نظام بحال کرنے کی خاطر حکومت کو تین دن تک بیشتر کاروبار اور تعلیمی ادارے بند کرنا پڑ گئے۔ بجلی کے بریک ڈاؤن نے بھی دنیا والوں پہ ظاہر کر دیا کہ کمیونسٹ کیوبا میں حالات کافی خراب ہیں۔

آبادی کا انخلا

ملک میں جاری معاشی زوال کے باعث نوجوان کیوبن بڑی تعداد میں یورپ و امریکا کا رخ کر رہے ہیں۔ جوہر قابل کی یہ وسیع پیمانے پر نقل مکانی کیوبا میں نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ مثال کے طور پہ ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو چکا کہ بہت سے کام کرنے کے لیے موزوں ہنرمند نہیں رہے، لہذا ناتجربے کار بھرتی کر کے کام چلایا جا رہا ہے۔

کیوبا میں شرح پیدائش بھی کم ہے۔ اکثر جوڑے بچے پیدا نہیں کرتے۔اگر کوئی جوڑا اولاد کی خواہش رکھتا ہے تو وہ بھی صرف ایک بچہ پیدا کرے گا۔یہی وجہ ہے، کیوبا کی آبادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ نیز نوجوانوں کے باہر جانے اور نئی نسل کی آبادی گھٹ جانے کے باعث مملکت میں بوڑھوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

حکومت نے ہر بوڑھے کے لیے دس ڈالر کی پنشن مقرر کر رکھی ہے۔ پانچ چھ سال قبل یہ مناسب رقم تھی، مگر مہنگائی تیزی سے بڑھنے کے باعث اب یہ پنشن بہت کم ہو چکی۔ اب اس رقم سے دو درجن انڈے بھی نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے، کیوبا میں کئی بوڑھے مردوزن بڑی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں، خاص طور پہ وہ والدین جن کا کوئی بچہ نہیں یا ان کی اولاد بیرون ملک منتقل ہو چکی۔ پڑوسیوں اور مخیر حضرات کی مدد ہی سے وہ زندگی کے بقیہ دن سسک سسک کر گذار رہے ہیں۔

معیشت تباہ ہونے کی وجہ سے حکومتی آمدن بھی گھٹ گئی۔ کیوبن حکومت کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ وہ بوڑھوں کی پنشن میں اضافہ کر دے۔ حکومت بس بڑی مشکل سے کھانے پینے کی بعض اشیا مثلاً بریڈ اور دال پہ سبسڈی دیتی ہے۔ مگر یہ سبسڈی صرف معاشرے کے غریب ترین طبقے کو ملتی ہے۔ کیوبا کا متوسط یا سفید پوش طبقہ مہنگائی میں مسلسل اضافے کے باعث بڑی اذیت ناک زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہو چکا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک معاشی بحران کا شکار ہو تو سب سے پہلے وہاں کا متوسط و سفید پوش طبقہ ہی مالی مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے۔

مہنگائی زوروں پر

 مملکت میں غذاؤں کی قیمت میں روزانہ اضافہ ہونا معمول بنا چکا۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمت بھی آئے دن بڑھ جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی فیسیں، گھروں کے کرائے اور علاج کے اخراجات بھی پہلے کے مقابلے میں بڑھ چکے۔ غرض انسان کو درکار بنیادی ضروریات زندگی…روٹی ، کپڑا ، مکان ، تعلیم اور علاج حاصل کرنا بڑا کٹھن مرحلہ بن چکا۔ ان حالات میں کیوبا کے عوام بہت مشکلات اور مسائل میں گرفتار ہو چکے۔لے دے کر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہی راستہ نظر آتا ہے کہ وہ جائز یا ناجائز طریقے سے بیرون ملک ہجرت کر جائیں۔

کیوبن باشندوں کا پسندیدہ مقام امریکا ہے کیونکہ وہ نزدیک ہی واقع ہے۔ امریکا کی سرحدی پولیس (یو ایس بارڈر پٹرول ایجنٹس)کی رو سے انھوں نے ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء میں کیوبا سے آنے والے سوا چار لاکھ غیرقانونی مہاجرین گرفتار کیے۔ اس سال ماہ جولائی تک مذید دو لاکھ کیوبن پکڑے جا چکے جو امریکا میں غیرقانونی طور پہ داخل ہو رہے تھے۔اس سے قبل کبھی اتنی بڑی تعداد میں کیوبن باشندوںنے امریکا کا رخ نہیں کیا۔

غذاؤں کی قیمتیں بڑھ ہی رہی تھیں کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ ملک میں لاکھوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ اب بجلی کا نظام منجمد ہوا تو بقیہ آبادی بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہو گئی۔ یوں کیوبن عوام پر پے در پے آفتیں نازل ہو رہی ہیں۔ ایک اور عذاب جرائم پیشہ گروہوں کی صورت نازل ہوا ہے۔ بیروزگاری کے باعث کئی نوجوان کیوبن جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس لیے ملک میں نت نئے مجرمانہ گروہ جنم لے چکے جو چوریاں کرتے، ڈاکے ڈالتے اور راہ چلے لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ کیوبا میں نشئیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ یہ وہ شہری ہیں جو اپنے غموں کا مداوا نشہ کر کے کرتے ہیں۔

انقلاب کی آمد آمد

کئی ماہرین کا دعوی ہے کہ کیوبا کی معیشت گوناں گوں مسائل و مشکلات کا شکار رہی تو ممکن ہے، مستقبل قریب میں تنگ آئے عوام کمیونسٹ حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کر دیں۔ یہ انسانی تاریخ کا عجب واقعہ ہو گا کیونکہ کمیونزم نظریات بنیادی طور پہ عوام دوست اور آمروں و بادشاہوں کے مخالف ہیں۔ مگر حالات سے واضح ہے کہ کیوبا اور دیگر کمیونسٹ ممالک میں حکمران طبقے نظریاتی اصولوں سے انحراف کر کے سرمایہ دارانہ اور آمرانہ حکمرانوں کی طرح ایسے ڈکٹیٹر بن بیٹھے ہیں جو ملکی وسائل پر قابض ہیں۔ وہ خود تو ان وسائل کے بل بوتے پہ آرام وآسائش کی زندگی گذار رہے ہیں جبکہ عام آدمی روزانہ اپنی ساری توانائی روزی روٹی کمانے پر لگا دیتا ہے۔ انھوں نے اُسے کوئی اور سرگرمی انجام دینے کے قابل نہیں چھوڑا۔

جیسا کہ بتایا گیا،کیوبا کی زوال پذیر معیشت سب سے زیادہ بوڑھے مردوزن پر منفی طور پہ اثرانداز ہو رہی ہے۔ اور ان کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہے۔ بعض بوڑھوں کے بچے یا قریبی اقارب امریکا میں ہیں۔ وہ انھیں گاہے بگاہے ڈالر بھجوا دیتے ہیں۔یوں ان کی گذربسر مناسب انداز میں ہو جاتی ہے۔ بیشتر بوڑھے مگر حکومت کے رحم وکرم پر ہیں۔ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ بیرون ملک جاسکیں، چناں چہ مجبور ہیں کہ ایڑیاں رگرتے کیوبا میں باقی ماندہ زندگی گذار دیں۔ آزاد کیوبن میڈیا کی رو سے حالت یہ ہو گئی ہے کہ کیوبا کے سرکاری اسپتالوں میں ادویہ دستیاب نہیں۔جو مریض نجی طور پہ ادویہ کا بندوبست کر لیں ، ان کا تو علاج ہو جاتا ہے۔بقیہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔

پاکستان کے معاشی حالات بھی کافی خراب ہیں،مگر کیوبا کی صورت حال سے عیاں ہے کہ وہاں عوام اپنے حکمران طبقے کی نااہلی ، کوتاہیوں اور شاید کرپشن کے سبب بھی کہیں زیادہ شدید عذاب جھیل رہے ہیں۔ حتی کہ کمیونزم نظریات بھی ان کے کام نہ آ سکے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ سبھی ملکوں میں عوام الناس کو اچھے اور اہل حکمران عطا فرمائے تاکہ ان کی زندگیاں آرام و سکون سے بسر ہو سکیں۔n  

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔