دور جدید میں سیاسیات کے ’’باپ‘‘کہلائے جانے والے اطالوی فلسفی، میکاولی نے اپنی کتاب ، دی پرنس میں لکھا ہے :’’سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘یہ قول جدید سیاست کی بہترین تشریح ہے جو آج کسی قسم کے اخلاقی اصولوں کا پاس نہیں رکھتی۔ ایک طرف اسرائیلی حکمران طبقہ نہایت بے دردی سے فلسطینی ، لبنانی ، شامی اور یمنی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے تو دوسری سمت بھارتی حکمران طبقے نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
مسلمانوں کے کھلم کھلا قتل عام کے باوجود روئے زمین پر کوئی حکمران جرات نہیں کرتا کہ وہ اسرائیل یا بھارت کے ظالم حکمرانوں کو مذید ظلم کرنے سے روک سکے۔ عالمی طاقتیں تو تماشائی بنی ہوئی ہیں…بلکہ دونوں ممالک کو مغربی قوتوں کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ امریکا تو علی اعلان اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرتا ہے تاکہ اس سے فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جا سکے۔ اس صورت حال میں مسلمان عوام اپنے حکمران طبقوں کی بے حسی اور بے ضمیری دیکھ کر خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔
معاشی قوت بن کر بھارت کا حکمران طبقہ بیرون ممالک غنڈہ گردی کرنے پر اتر آیا ہے ۔ اس نے امریکا ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں سے رابطہ کیا اور ان کے ذریعے سکھ و کشمیری رہنماؤں کو قتل کرانے لگا جو وہاں کے شہری بن چکے۔ امریکی اور کینیڈین حکومتوں نے اپنی سرزمین پر اپنے شہریوں کو قتل کرانے پر بھارت سے احتجاج تو کیا مگر یہ ٹھوس صورت اختیار نہیں کر سکا۔
اگر یہی عمل حکومت پاکستان نے کیا ہوتا تو امریکا اور کینیڈا ، دونوں پاکستان میں شدید معاشی پابندیاں عائد کر دیتے۔ ان کے معاشی و تزویراتی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں، اس لیے بھارتی حکمران طبقے کے خلاف کوئی سخت اقدام نہیں کیا گیا۔ کینڈین حکومت نے بھارتی سفارت کار ضرور نکال دئیے مگر اسے کوئی ٹھوس عمل نہیں کہا جا سکتا۔ حالات نارمل ہوتے ہی بھارتی سفارت کار واپس کینیڈا آ جائیں گے۔ امریکی و کینیڈین حکومتوں کے اس عمل سے میکاولی کا یہ قول برحق ثابت ہوتا ہے کہ (جدید) سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ مگر عیاں ہے کہ سیاست اور اخلاقیات کے جدا ہونے سے آج بنی نوع انسان سنگین مسائل کا شکار ہے۔ اب انسانوں کے لیے اپنی مادی خواہشات کی تکمیل پہلی ترجیح بن چکی ۔ انھیں پورا کرنے کے لیے ہر ناجائز اور غیراخلاقی راستہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کیونکہ اخلاقیات پہ عمل پیرا ہونے کا جذبہ تو ماند پڑ چکا۔ مادی خواہشات کی زیادتی کے باعث ہی انسان کرہ ارض کا نظام بھی بگاڑنے لگا ہے ۔رکازی ایندھن کے حد سے زیادہ استعمال کے باعث دنیا بھر کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس وجہ سے قدرتی آفات مثلاً سمندری طوفانوں، سیلابوں ، تیز وتند بارشوں، شدید گرمی کے ادوار وغیرہ کے انسانوں پہ حملے بڑھ گئے ہیں۔ اگر رکازی ایندھن کا استعمال اسی رفتار سے جاری رہا تو ماہرین کا کہنا ہے، رواں صدی کے آخر تک کئی ممالک اتنی شدید گرمی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں کہ وہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
سیاست اور اخلاقیات کا اگر باہمی تعلق ہوتا تو ہر ملک کے حکمران طبقے پر یہ ذمے داری عائد ہوتی کہ وہ ایسے ٹھوس اقدامات کرے جو گلوبل وارمنگ یا عالمی درجہ حرارت پہ قابو پانے میں ممدومعاون ثابت ہوتے۔ چونکہ یہ تعلق موجود نہیں لہذا خاص طور پر سپرپاورز ملکوں میں رکازی ایندھن وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اور اس کو محدود کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں نہیں ہوتیں۔
ان بے اخلاق حکومتوں کے کرتوتوں کی وجہ سے رواں صدی کے آخر تک کئی جزائر پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے سمندروں میں ڈوب جائیں گے۔ سمندروں کی سطح گرمی بڑھنے سے گلیشیر پگھلنے کے باعث بلند ہو رہی ہے۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ براعظم انٹارکٹیکا میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور وہاں پہلی بار سبز قطعات نمودار ہو چکے۔ غرض بے اخلاق حکمرانوں کے جرائم کے نتیجے میں لاکھوں انسان ، بچے بوڑھے، مرد و خواتین جزائر اور ساحلی شہر ڈوب جانے کی وجہ سے اپنے گھربار سے محروم ہو جائیں گے۔ ان کی تباہی کے ذمے دار اخلاقیات سے عاری طاقتور حکمران ہی ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی اقوام ویسے خود کو انسانی حقوق کی چیمپین اور اصول پرست کہتی ہیں۔ مگر یہ اصول پسندی تب ہوا ہو جاتی ہے جب ان کے مادی مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔ تب وہ بے اصولے ہونے میں دیر نہیں لگاتیں۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ رویّے کی وجہ یہی ہے کہ مغربی فلسفیوں کی ایما پر مغرب نے سیاست کو اخلاقیات اور مذہب سے جدا کر دیا ہے۔
رفتہ رفتہ اخلاقی اصولوں کے دائرے سے نکل کر اب مغربی سیاست شُتر بے مہار ہو چکی۔ اسی لیے مغرب بھی جنگوں کا نشانہ بن گیا۔ نیز وہاں کے معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔وجہ یہ ہے کہ قناعت، رحم ، سادگی، محبت ، ہمدردی جیسی اعلی اخلاقی صفات سے محرومی انھیں حیوانوں کے قریب لے گئی ہے۔ اخلاقی صفات ہی انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہیں۔ان سے محروم ہو کر جدید انسان ہر وقت پریشان، بے چین اور بے صبرا رہنے لگا ہے۔ خواہشات کی زیادتی نے بھی اس سے دلی سکون اور اطمینان چھین لیا ۔
مغرب کی طرز سیاست اپنا کر عالم اسلام ایک طرح سے مغربی اقوام کا ذہنی غلام بن گیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مغرب کی انسان دوست ایجادات اور خوبیاں تو اپنا لی جاتیں، مگر اسلامی ممالک کے حکمران طبقوں نے مغربی معاشروں کی خامیاں بھی اختیار کر لیں۔
اس چلن کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ممالک میں بھی اخلاقی و اسلامی تعلیمات کا زور کم ہو گیا۔ مادہ پرستی ان کے معاشروں میں پھیل گئی اور سیاست کا شعبہ اس چلن سے بہت متاثر ہوا۔ پاکستان کی مثال ہی دیکھ لیجیے۔ آج کے سیاسی ماحول میں ایک دوسرے کی عزت واِحترام، اخلاق وکرداراَوراَدب ولحاظ کم ہی ملتے ہیں۔ اس بد چلن کا آغاز پاکستان کے ابتدائی حکمرانوں کے ہاتھوں ہی ہوا تھا۔ شرافت ودِیانت جب عنقاہوجائے تو بدعنوانی، حرام خوری اوربداَخلاقی کا رَاج ہوجاتا ہے اورصادق واَمین کی تلاش ہونے لگتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں یہ چلن بن گیا ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی کامیابیاں،کارگذاری اور مستقبل کا لائحہ عمل بتانے کے بجائے حکومت وقت کا سارا زور بیان اس امر پر صرف ہوتا ہے کہ ماضی میں جو خرابیاں انجام پائیں، ان کی ذمے دار پچھلی حکومتیں ہیں۔نیز یہ کہ ملکی سیاست میں جو کچھ خامیاں ہیں، وہ فلاں فلاں اشخاص کی کرنی کا پھل ہے۔
یہ ایک ناخوشگوار اور منفی تشہیری رویّہ ہے جس کے سبب سیاسی مکالمہ باہم دشنام طرازی تک محدود ہو گیا۔ ’’ تو چور ہے‘‘ اور ’’ نہیں تیرا باپ چور تھا‘‘ قسم کے الزامات اور جوابی الزامات سے فضا پُر ہے۔ جو بھی حکمران آ جائے، ملک و قوم کی فلاح، معاشی ترقی اور عوامی بہبود کی بنیادی باتیں کم ہی کرتا ہے۔ غرض سیاسی اور معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما ایک بے مہار اونٹ ہے جس کے قول و فعل پر کسی قسم کی قدغن نہیں۔ ظاہر ہے یہ صورت حال نہ صرف جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے بلکہ معاشرے میں بد نظمی اور سیاسی انتشار کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
ماضی میں ہندوستان کے سیاست داں اور مدبر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر تہذیب وشائستگی ملحوظ رکھتے تھے چاہے اختلافات کتنے ہی سنگین ہوں۔اس ضن میں ایک سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران ممتازدیوبندی اکابرین، مولانا حسین احمدمدنیؒ اورمولانا اشرف علی تھانویؒ میں شدید سیاسی اختلاف تھا۔مولانا مدنیؒ کانگریس اورمولانا تھانویؒ مسلم لیگ کے مؤقف کے حامی تھے۔ مفتی اعظم پاکستان ، محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ اس اختلاف کے باوجود دونوں عالموںکے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے قدر و منزلت موجود تھی اور مولانا مدنیؒ حضرت تھانویؒ کے ساتھ اپنے بڑوں جیسا معاملہ ہی فرماتے ۔
اس دوران ایک مرتبہ حضرت مدنیؒ نے دیوبند کے بعض اساتذہ سے کہا کہ عرصہ ہوا ہمارا تھانہ بھون جانا نہیں ہو،اور حضرت تھانویؒ کی زیارت کو دل چاہتا ہے۔چنانچہ حضرت مدنیؒ اور دارالعلوم دیوبند کے بعض دوسرے اساتذہ تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوئے۔اتفاق سے گاڑی لیٹ ہو گئی اور رات گئے تھانہ بھون پہنچی۔ یہ حضرات ایسے وقت خانقاہ کے دروازے پر پہنچے کہ خانقاہ بند ہوچکی تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ خانقاہ کا نظام الاوقات مقرر ہے ، اس لیے نہ اِس نظام کی خلاف ورزی مناسب سمجھی اور نہ حضرت تھانویؒ کو رات گئے تکلیف دینا پسند کیا۔ چنانچہ حضرت مدنیؒ ساتھیوں سمیت خانقاہ کے دروازے کے سامنے چبوترے ہی پر لیٹ کر سوگئے۔
حضرت تھانویؒ فجر کی اذان کے وقت جب اپنے مکان سے خانقاہ کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ کچھ لوگ باہر چبوترے پر لیٹے ہیں۔ اندھیرے میں صورتیں نظر نہ آئیں۔چوکیدار سے پوچھا تواْس نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو حضرت مدنیؒ اور حضرت مولانا اعزاز علیؒ جیسے اکابر دکھائی دئیے۔
حضرت تھانویؒ نے اچانک انہیں دیکھا تو مسرور ہوئے اور اِس بات کا صدمہ بھی ہوا کہ یہاں پہنچ کر اِس حالت میں اْنہوں نے رات گزاری۔ اْن سے پوچھا کہ حضرت!آپ یہاں کیوں سو گئے ؟ حضرت مدنیؒ نے فرمایا، ہمیں معلوم تھا کہ آپ کے یہاں ہر چیز کا نظم مقرر ہے۔ خانقاہ اپنے مخصوص وقت پر بند ہوجاتی ہے اور پھر نہیں کھلتی۔حضرت تھانویؒ نے فرمایا ، خانقاہ کا تو نظم بلاشبہ یہی ہے ، لیکن غریب خانہ تو حاضر تھا، اور اِس پر توآپ جیسے حضرات کے لیے کوئی پابندی نہ تھی۔حضرت مدنیؒ نے فرمایا ، ہم نے رات گئے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ قومی سیاست میں معاصرین کے درمیان ایسے باہمی التفات اور شرافت کا چلن کافی کم ہو چکا۔
حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی اصول زندگی کے ہرشعبے میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ انہی کی مدد سے روزمرہ معاملات خوش اسلوبی سے انجام پاتے ہیں۔ مگر لگتا ہے، عالمی سطح ہو یا قومی سطح، حکمران طبقے خود کو اَخلاقیات کا پابند رکھنا ہی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے ، آج پوری دنیا میں انسانوں پر اتنا زیادہ ظلم ہو رہا ہے جس کی نظیر ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ اور طرفہ تماشا یہ کہ آج کا انسان خود کو تہذیب یافتہ ، جدید اور عالم فاضل کہتا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اْنہی سیاست دانوں کا زور ہے جو اپنی زْبان سے مخالفوں کے بخیے اْدھیڑ سکیں ۔
دنیا بھر کی پارلیمنٹوں میں بدزبانی،گالم گلوچ اورغلاظت میں لتھڑے الزامات معمول بن چکے۔کئی الفاظ غیرپارلیمانی قرار دے کر کارروائی سے حذف کرنے پڑتے ہیں۔ایسی عامیانہ زبان پہلے چوک کے تھڑوں پر بھی اِستعمال نہیںہوتی تھی۔
یہ زہریلے پھول اْن کے منہ سے جھڑتے ہیں جواَعلی تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کے دعوے دارہیں اورجن کے نزدیک علما اور دِینی طبقہ جاہل اوراْجڈ ہے۔خبر ہے ، فرانس کی حکومت ملکی سیاست بہتر کرنے کے لیے اَخلاقیات کا قانونی منصوبہ متعارف کرائے گی جس کے بعد حکمران طبقے کے لیے کرپشن کرنا مشکل ہو گی اور سیاست میں اخلاقیات کی اہمیت ’’قانونا‘‘بڑھ جائے گی۔کاش دنیا بھر کے سیاست دانوں کے لیے بھی کوئی ایسا قانون آ جائے تاکہ اْن کے اخلاقی رویّے اورکردارمیں تبدیلی جنم لے۔انھیں بھی علم ہوکہ ذاتی کرداراوراِجتماعی معاملات، دونوں میں انسان کو بے عیب اورشفافیت کاحامل ہونا چاہیے۔