پراسرار حویلی
زیر نظر کتاب ’’ پراسرار حویلی ‘‘ اپنے نام کی طرح اسرار وتجسس سے بھرپور ایک کہانی ہے۔ یہ بچوں کے ادب کے معروف لکھاری ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کی تصنیف ہے ۔ عام طور پر تجسس اور پراسرار واقعات سے بھر پور کہانیوں میں بچوں کی تربیت واصلاح کا فقدان ہوتا ہے ۔ یا پھر اسرار وتجسس کے نقطہ نظر سے لکھی گئی کہانیاں بچوں کو جرائم کی راہ پر لے جاتی ہیں لیکن دارالسلام کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کی شائع کردہ کتابوں میں بچوں کے لیے اسرار وتجسس بھی ہے، اسلامی معلومات بھی ہوتی ہیں ، اصلاح وتربیت اور سچائی وصداقت کا بھی بھر پور اہتمام ہوتا ہے۔ جیسا کہ پیش نظر کتاب ’’ پراسرار حویلی ‘‘ ہے ۔
یہ کتاب ایک حویلی کے گرد گھومتی ہے جو کسی وقت میں آباد تھی ۔ ایک باپ ، دو بیٹوں اور دیگر اہل خانہ پر مشتمل ایک خاندان اس حویلی میں پیار و محبت کے ساتھ رہ رہا تھا لیکن پھر اس کے مکین ایک دوسرے کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے ۔ یہی حسد گھر کی خواتین کو جادو ٹونہ کرنے والے آستانوں پر لے گیا ۔ پھر ایک وقت آیا جب جادو کی نحوست سے یہ خاندان بکھر گیا ، حویلی اجڑ گئی اور نشان عبرت بن گئی۔ یہاں سے تہہ در تہہ خوفناک واقعات رونما ہونے لگے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کا ماحول ایسے جھوٹے عاملوں سے بھرا پڑا ہے جو شیطان کے ساتھی ہیں، شیطان کی مدد سے لوگوں کو جادو میں مبتلا کرتے ہیں ۔
شیطان ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ صرف جاہل ہی نہیں، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ان جعل ساز فقیروں ، نقلی پیروں اور کالے جادو کا علم رکھنے والے عاملوں اور نجومیوں کے ہتھے چڑھ کر آخرت اور دنیا دونوں برباد کر لیتے ہیں ۔ ان لوگوں کے شیطانی حربوں نے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر دیا ہے ۔ گھروں سے اطمینان اور سکون رخصت ہو گئے ہیں ۔ لڑائی جھگڑے اور بے رخی عام ہوگئی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فساد کا کوئی علاج بھی ہے ۔ اگر ہم غور کریں تو ہر بیماری کا علاج ، ہر مسئلے کا حل ہمیں اللہ تعالیٰ نے ضرور عطا کیا ہے ۔ جادو ٹونے کا حل بھی قرآن وسنت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ اگر ہم قرآن وسنت کی حفاظتی تدابیر پر عمل کریں تو نہ صرف جادو اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہم پر محافظ بھی مقرر کر دیے جاتے ہیں ۔ پرابلم یہ ہے کہ ہم وہم کا علاج جادو کے ذریعے سے کر تے ہیں ۔ جھوٹے عاملوں ، جعلی پیروں اور نجومیوں کے آستانے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں نادان لوگ اپنے ہی رشتوں کو ، اپنے ہی پیاروں کو جادو کی بھینٹ چڑھانے کے لیے چلے آتے ہیں ۔ شیطان کے ساتھیوں نے دنیا میں دکھ پھیلا دیے ہیں ان دکھوں کا بس ایک ہی علاج ہے اللہ کی طرف اپنا رخ موڑا جائے ۔ یہ کتاب ’’ پراسرار حویلی ‘‘ ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ حسد و بغض واضح تباہی و بربادی کا راستہ ہے اور اس سے بچاؤ صرف قرآن کی طرف رجوع میں ہے ۔
کتاب میں جادو کی مختلف اقسام ، جادو اور اس کے اثرات اور جادو سے بچاؤ کی تدابیر بیان کی گئی ہیں ۔ گویا یہ کتاب محض ایک کہانی ہی نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں جادو ، ٹونے سے بچاؤ کے لیے رہنما کتاب ہے ۔ اس وقت جعلی عاملوں ، پیروں ، فقیروں نے جس طرح سے معاشرے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں اور لوگوں کے ایمان ، مال اور عزتیں برباد کر رہے ہیں ان حالات میں اس کتاب کا مطالعہ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے بھی بے حد مفید ہو گا، انشاء اللہ ۔ آرٹ پیپر 4 کلر کے ساتھ طبع شدہ اس کتاب کی 670 روپے ہے ۔ یہ کتاب دارالسلام انٹر نیشنل ، لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ سے حاصل کی جا سکتی ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کیلئے درج ذیل نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔
Paradise and other stories سورگ
مصنف: خوش ونت سنگھ، مترجم: یاسر جواد، پبلشر: نگارشات، لاہور
خوش ونت سنگھ کا نام اردو ادب پڑھنے والوں کیلئے نیا نہیں ہے۔ 2004 میں چھپنے والی کتاب Paradise and other stories کو اردو قالب میں یاسر جواد نے ڈھالا ہے ۔ اس میں پانچ افسانے / کہانیاں ہیں بلکہ انہیں مختصر ناول کہنا زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ ہر کہانی وسیع پلاٹ پر مبنی ہے۔
-1 Paradise سورگ، -2 Horoscope Life's جنم کنڈلی، -3 Singh Zora زورا سنگھ، -4 Son A : Wanted ضرورت ہے: ایک بیٹے کی، -5 Tree Mulberry The شہتوت کا درخت
خوش ونت سنگھ نے اپنے طنزیہ انداز میں ہمارے معاشرے (پاک و ہند) پر اچھی تنقیدی کہانیاں ذہانت سے لکھی ہیں ۔ شہوانی ، شہوت انگیز مناظر انہیں بہت سے لوگوں کے لیے ناقابلِ مطالعہ بنا دیتے ہیں ۔۔ ورنہ یہ ہمارے برصغیر کے معاشروں کی حقیقی عکاسی ہیں ۔
سورگ ایک مغربی عورت کی کہانی ہے جو جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر ڈپریشن میں چلی جاتی ہے اور ذہنی آسودگی کے لئے بھارت میں راماکرشنن آشرم میں آجاتی ہے ۔ وہاں مقیم ایک طلاق یافتہ عورت کے ساتھ ہم جنس پرست جنسی تعلقات میں مشغول ہو جاتی ہے ۔
جنم کنڈلی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو قدیم مذہبی کتابوں اور بنیادی ہندو عقائد میں ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے میں اعتقاد رکھتا ہے ، جس کا نتیجہ ایک ناکام استاد اور ناکام شوہر کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
زورا سنگھ ، بدعنوان سرکاری ملازم اور سیاست دان ہے جو معزز معاشرے کا دکھاوا رکھتا ہے ۔ بیوروکریسی کے جھمیلے ، کمیشن اور رشوت کے انداز سے مزین افسانہ جس میں بنیادی کردار مذہبی ہے ، رشوت خور ہے ، کمیشن خور ہے ، بڑے سیاستدانوں کا کارندہ ہے اور ہر کام نکلوانے کا ہنر جانتا ہے اور لوگ اسے دوسروں کو خوش رکھنے کے عوض سرکاری اعزاز دلواتے ہیں ۔ زورا سنگھ ، ایک ممتاز بلڈر کے ایک طاقتور کابینہ وزیر کے ساتھ تعلقات میں ، شاید خوشونت سنگھ کے اپنے والد کی بازگشت ہے جس نے دہلی کی زیادہ تر تعمیرات میں حصہ لیا تھا ۔ دراصل یہ افسانہ ہمارے بدبْودار معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔
’ ضرورت ہے: ایک بیٹے کی‘ میں ایک عورت اولاد ( بیٹے) کے لئے مندروں، گردواروں اور مزاروں میں بھٹکتی پھرتی ہے اور اس کے لئے زنا تک میں ملوث ہو جاتی ہے اور بالآخراپنی مراد پا لیتی ہے ۔ اس افسانے میں ہمارے یہاں پائے جانے والے مذہبی تصورات، توہمات اور اولادِ نرینہ کے حصول کیلئے ہر ممکنہ حد تک جانے کی کہانی بیان کی گئی ۔
شہتوت کا درخت، پچاس کی دہائی کے ایک کالم نگار کے بارے میں ہے ۔ ایک شہتوت کا درخت ایک عجیب عورت سے محبت کرتا ہے اور صرف اس عورت کو حاصل کرنے کے لیے شہتوت سے دھوکہ کھا جاتا ہے حالانکہ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا۔
تمام کہانیوں میں دو چیزیں مشترک ہیں ۔ شہوانی/ شہوت انگیزی اور مذہبی عقائد کا مذاق اڑانا ۔ جیسا کہ خوش ونت سنگھ خود ایک ملحد تھے اس لیے انہوں نے بنیادی مذہبی عقائد کو معاشرے کی گراوٹ سمجھا اور ان کہانیوں میں بھی بیان کیا ۔ ان کہانیوں میں پیش کیے گئے خیالات اور شہوانی ، شہوت انگیز مواد کے کثرت سے استعمال سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے ، لیکن ایک بات طے ہے کہ مصنف ایک لاجواب کہانی کار تھا ۔
انہوں نے اس مجموعہ کو تیار کرنے کے لیے اپنے دو موضوعات کو یکجا کیا ہے ۔ "سورگ" میں ، وہ ان مغربی باشندوں پر طنز کرتے ہیں جو نجات کی تلاش میں ہندوستان آتے ہیں ، جبکہ وہی حالات یہاں بھی ہیں بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں ۔ جنم کنڈلی میں وہ علم نجوم ، زائچہ پر اوسط ہندوستانی کے اندھے اعتماد اور مرد وارث کی شدید خواہش کو ختم کرتے ہیں ۔ اگرچہ کہ مباشرتی بیان خوش ونت سنگھ کا مخصوص انداز ہے ، لیکن اس مجموعہ کا زیادہ متاثر کن پہلو یہ ہے ، کہ مذہب کی آڑ میں ان معاملات پر بحث کی گئی ہے جن پر انگلی اٹھانا ٹیبو سمجھا جاتا ہے اور یہ بڑی حد تک ہندوستانی معاشرے کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے ۔ یہی اصل خوشونت سنگھ ہے ، جو ہندوستانیوں اور ان کی سماجی زندگی میں دوغلے پن پر تنقید کر رہا ہے کہ شاید کبھی تو ان فرسودہ توہمات سے جان چھوٹ سکے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی فاؤنڈیشن کی جانب سے جامع اردوکتابیات سیرت کی تعارفی تقریب
ڈاکٹر جمیل جالبی فاؤنڈیشن کی جانب سے جامع اردوکتابیات سیرت کی تعارفی تقریب جامعہ کراچی میں ڈاکٹر جمیل جالبی فاؤنڈیشن میں منعقد ہوئی ، جامع اردو کتابیاتِ سیرت دو جلدوں اور ایک ہزار سولہ صفحات پر مشتمل ایسی تحقیقی کاوش ہے جس میں دس ہزار سینتالیس اردو کتبِ سیرت کی تفاصیل درج کی گئی ہیں ، یہ کتاب محققین کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ، اس تقریب کے مہمان خصوصی محترم جناب ڈاکٹر روف پاریکھ (سابق صدر نشین ادارہ فروغ زبان اسلام آباد ) تھے ، جب کہ صدارت ڈاکٹر زاہد علی زاہدی (رئیس کلیہ اسلام معرف اسلامی جامعہ کراچی ) نے کی۔ کتابیات یا اشاریات کے فن پر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ، ڈاکٹر محمد طاہر قریشی اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے گفت گو کی ۔ تقریب کی نظامت ڈاکٹر نوشابہ صدیقی نے انجام دی۔
نامورمحقق اور چالیس سے زائد کتب کے مصنف ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنی گفت گو میں کہا کہ : دنیا کی پہلی فہرستِ کتب یا ’’کتابیات‘‘ مصر کے شہر اسکندریہ میں قاری محفوظ نے تیار کی تھی ، اس کی وفات 240 ق م میں ہوئی ، اس زمانے میں اسکندریہ کی لائبریری میں چار لاکھ کتب تھیں ، تب لکھائی کے لیے دورِ حاضر جیسا کاغذ نہیں ہوتا تھا ، بل کہ بڑے سائز کے اوراق پر کتب لکھی جاتی تھیں اور ان کو لپیٹ کر رول بنا کر رکھا جاتا تھا ، قاری محفوظ نے ایسی ہی 120 جلدوں پر مشتمل فہرست کتب تیار کی ، جس میں اسکندریہ کی لائبریری کی کتب کا اندراج تھا ۔اْن کے بعد ابن ندیم (م ۲۹۸ھ) نے الفہرست نامی کتابیات تیار کی ۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ : بیسویں صدی تک مسلمانوں میں کتابیات کا فن فروغ نہیں پا سکا ، لندن یونیورسٹی کے لائبریرین جیمز ڈگلس کیرسن نے اسلامی کتب کی فہرست تیار کی ، اگرچہ آج کتابیات جیسے کام کو یونی ورسٹیوں میں تحقیق شمار نہیں کیا جاتا، لیکن دراصل کتابیات تیار کرنے والے محققین کے محسن ہوتے ہیں ۔
تقریب کے صدر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی نے کہا کہ : کتابیات پر عربی ، فارسی اور پھر اردو میں گراں قدر کام ہوا ہے ، جامع اردو کتابیات سیرت کو سراہتے ہوئے کہا کہ : یہ اردوسیرت نگاری میں بہترین علمی اضافہ ہے اور اس کتاب کو ہر لائبریری میں ماخذ کے طو ر پر موجود ہونا چاہیے ۔ پروفیسر نوشابہ صدیقی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پچھلے سال ہمارے ادارے نے جمیل جالبی ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا تھا ، اب دوسرے ایوارڈز ان کتب کو دئیے جائیں گے جو 2023 ء میں شائع ہوئیں ۔ یہ ایوارڈ تحقیق، تراجم اور بچوں کی کتابوں کو دئیے جاتے ہیں ۔ دوم یہ کہ جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ نے جمیل جالبی چیئر کے قیام کی قرارداد منظور کر لی ہے ۔ کتابیات سیرت کے مؤلف ڈاکٹر سید عزیز الرحمن 1977 ء میں کراچی میں پیدا ہوئے ۔
حفظ قرآن کریم اور 1996ء میں درس نظامی کی تکمیل کے بعد 2005ء میں کراچی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ۔ 2009ء سے دعوۃاکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام اباد کے کراچی کیمپس ریجنل دعوۃ سینٹر سے بہ طور انچارج منسلک ہیں ۔ اوائل عمر میں ہی سیرت طیبہ پر اعزازات اپنے نام کیے ۔ سیرت طیبہ کے حوالے سے پہلے تحقیقی مجلے ششمائی السیر عالمی کے نائب مدیر اور ماہنامہ تعمیر افکار کے مدیر کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ تعمیر افکار کے مختلف موضوعات پر 18 خاص نمبروں کی اشاعت کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہے ، جن میں پانچ اشاعتیں سیرت طیبہ کے حوالے سے ہیں ۔ سیرت طیبہ پرآپ کے شائع شدہ مضامین کی تعداد 70 سے زائد ہے۔ مجموعی طور پر 20 کتب کے مؤلف اور 30 کتب کے مرتب ہیں ۔
آپ کی متعدد کتب انڈیا سے بھی شائع ہو چکی ہیں ۔ بہ طور منتظم اب تک 700 سے زائد ورکشاپس ، لیکچرز ، سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد بھی کر چکے ہیں ۔ آپ کے اختصاصی مضامین میں سیرت طیبہ کے علاوہ تعلیم ، تحقیق اور تربیت شامل ہیں ۔ پاکستان بھر کی اہم ترین جامعات میں سال بھر آپ کے لیکچرز کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس سے پہلے اپنے خطاب میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمن نے کہا کہ رسول اللہ کی سیرت مبارک پر گزشتہ بارہ سوسال سے کتب لکھی جا رہی ہیں ۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ عربی میں 16جلدوں پر مشتمل کتابیات سیرت لکھی گئی ، انہوں نے اپنی کتاب جامع اردو کتابیات سیرت کے حوالے سے بتایا کہ کتابیاتِ سیرت کے اس پروجیکٹ کی تیاری میں پندرہ سال لگے اور گزشتہ اڑھائی برس اس کام کی ترتیب میں صَرف ہوئے ، انہوں نے کہا کہ یہ پوری کاوش ٹیم ورک کا نتیجہ ہے ، اور ہمارے اس عمل میں ہمارے ساتھ خاص طور پر جناب محمد محسن مرزا اور عزیزم محمد اویس شاہد مکمل طورپر شریک رہے ، اس لیے انہیں ہم اس کتاب کا شریک مرتب تصور کرتے ہیں ۔
اپنی اس کتاب جامع اردو کتابیاتِ سیرت کے مقدمے میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن لکھتے ہیں کہ اردو عالم اسلام کی واحد زبان ہے ، جس کی پیدائش اور پرورش دونوں ہی مذہبی شخصیات کے ہاتھوں میں اور مذہبی ماحول میں ہوئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حمد و نعت اور سیرت طیبہ اردو زبان کے ابتدائی اور اساسی مضامین اور مباحث ہیں ۔ اسی بنا پر اردو کی ابتدائی کتب میں سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتب سر فہرست دکھائی دیتی ہیں ۔ پھر جو کتب دیگر موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثناکے بعد نعت اور سیرت کا بیان کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ، اردو میں سیرت نگاری کی ابتدا کے حوالے سے یہ نہایت اہم پہلو ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان کی علمی عمر کم ہونے کے باوجود دیگر علوم اسلامی کی طرح سیرت اور متعلقات سیرت پر لکھی جانے والی اردو کتب دیگر تمام زبانوں سے زیادہ ہیں، اور عربی کے بعد اس حوالے سے اردو کا کوئی ثانی اور مثل نظر نہیں آتا ۔ اب الحمد للہ ایک مدت کی ریاضت کے بعد آج ہم اردو کتب سیرت کی ایک جامع فہرست مرتب کر کے قارئین کی خدمت میں ہدیہ کرنے میں کام یاب ہو رہے ہیں ۔ یہ محض اللہ کا کرم ہے کہ اس دقیق پہلو سے سیرت طیبہ کی اس خدمت کی سعادت ہمارے ادارے’’ ایوان سیرت‘‘ کو حاصل ہو رہی ہے ، جو اسی نوعیت کی خالص تحقیقی اور اکیڈمک سرگرمیوں کے لیے مختص ہے ۔
جامع اردو کتابیاتِ سیرت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل ضخیم سے ضخیم فہرست کے اندراجات بھی تین ،ساڑھے تین ہزار سے زائد کتب پر مشتمل نہیں ہیں ۔ نیز ان میں کتب نعت ورجال وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں ، یا مطبوع کتب کے ساتھ ساتھ غیرمطبوع مقالات اور مخطوطات کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے ، نیز بعض فہرستوں میں مختلف رسائل و جرائد کے مضامین سیرت بھی شامل کیے گئے ہیں ، جو بہ جائے خود ایک کام ہے ، لیکن ان کی تعداد اس قدر ہے کہ ان کا استقصا ناممکن نہیں تو دشوار ترین ضرور ہے ۔ جامع اردو کتابیاتِ سیرت میں صرف مطبوع کتب کا ہی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس تعارفی تقریب میں جامعہ کراچی سمیت دیگر جامعات کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ تقریب کی میزبان تو پروفیسر نوشابہ صدیقی تھیں، مگر اصل روح رواں شعبہ اسلامی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل شفیق تھے۔ جن کی محنت ، مسلسل کاوش اور ذاتی دل چسپی کے نتیجے میں یہ تقریب منعقد اور کام یاب ہو سکی ۔
تقریب میں طلبہ و طالبات کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم اور معززین شہر بھی شریک ہوئے ۔ جن میں ڈاکٹر جمیل بندھانی (ڈائریکٹر شعبہ تصنیف و تالیف۔ جامعہ اردو کراچی) ۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر نشین شعبہ مسلم تاریخ) ۔ ڈاکٹر حمیرا ناز (استاد شعبہ مسلم تاریخ) ۔ ڈاکٹر عاطف اسلم راؤ (استاد شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ کراچی) ۔ ڈاکٹر نبیل زبیری (ڈائریکٹر ایوننگ اور سابق رجسٹرار) ۔ جناب نثار موسی (معروف تربیت کار ) ۔ عارف سومرو۔ جلیس سلاسل (قائد اعظم رائٹرز گلڈ) ۔ ارشد (علی گڑھ ایسوسی ایشن) ۔ شبیر ابن عادل (پی ٹی وی)۔ ڈاکٹر تسنیم احمد۔سابق رئیس کلیہ فنون اور صدر شعبہ مسلم تاریخ جناب ڈاکٹر نثار احمد کی صاحب زادی ممتاز نثار ۔ نثار اختر ( ادیب، دانش ور) ۔ شاکر حسین (شعبہ علوم اسلامیہ ، جامعہ کراچی) ۔ ڈاکٹر عباس حیدر و دیگر شامل ہیں ۔ تقریب کے ایک اہم منتظم ڈاکٹر داؤد عثمانی تھے ، جو نہایت خاموشی کے ساتھ ابتدا ہی سے اس تقریب کے انتظام میں ہر اعتبار سے شریک رہے ۔nا