مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک میاں نواز شریف کی شخصیت کی بنیاد پر قائم ہے ۔ وہ تین بار پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن وہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے، ان کی حکومت برطرف کردی گئی یا ان کو وزارت عظمی چھوڑنی پڑی۔ بادشاہ گر ٹولے کی درباری سازشوں اور مفادات کے ٹکراؤ کے نتیجے میں انھیں اور ان کی جماعت کو اقتدار سے الگ ہونا پڑتا رہا ۔
ان کو اقتدار سے نکالنے والوں اور ان کے درمیان جو لڑائی ہوئی ، اس کی بنیاد معتدل سیاست ، جدید جمہوریت، آئین وقانون کی سربلندی یا عوامی مفادات کا تحفظ نہیں تھے اور نہ اب ہیں بلکہ یہ اقتدار کی لڑائی تھی جو اب بھی ہورہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی ہوں، نواز شریف ہوں یا کوئی لیڈر ہو، کسی کا مقصد عوام کے مفادات بچانا نہیں ہے ۔
یہ طاقت کے حصول کی ذاتی اور گروہی بالادستی کی جنگ تھی جو مختلف قسم کی منفی عصبیتوں کی نفرتوں سے لتھڑی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ محض نواز شریف کے ساتھ ہی نہیں قومی سیاست میں اقتدار کے کھیل کے مجموعی سرکس کو دیکھیں تو ہر سیاسی لیڈر، بیوروکریٹ، سماجی رہنما، اہل علم اور علماء تک مختلف قسم کے تنگ نظر نظریات اور تعصبات کا شکار ہیں جب کہ یہ لوگ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو بطور ہتھیار اور ڈھال استعمال کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کا معاشی و سماجی ارتقاء سست رفتار ہے ۔
پی ٹی آئی کی اقتدار سے پہلے اور دوران اقتدار طرز سیاست اور طرز حکمرانی اور اقتدار سے محرومی کے بعد سیاست کا موازنہ کیا جائے تو نواز شریف اور مسلم لیگ کی طرز سیاست ، طرز حکمرانی اور ترجیحات انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک جیسی ہی ہیں۔ دونوں ہر صورت اقتدار چاہتے ہیں۔ دونوں اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھتے ہیں،دونوں اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور بیوروکریسی کا غیرمشروط تعاون چاہتے ہیں۔ دونوں اپنی غلطیوں کا ذمے دار اپنے مخالفین کو قرار دیتے ہیں اور اپنے آپ کو حق سچ کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کے حامی ہیں جب کہ نواز شریف اینٹی اسٹیبلیشمنٹ ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کی مجموعی سیاست اور اس سے جڑے فیصلوں کو کیا واقعی نواز شریف کی حمایت یا رضامندی کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے تو جواب نفی میں ہوگا۔
نواز شریف کو جب بھی اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے ریلیف ملا ،اس میں ان کی حمایت کے ساتھ شہباز شریف نے اپنا حصہ ڈالا۔ اس لیے شہباز شریف کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت اور نواز شریف کو ہم اینٹی اسٹیبلشمنٹ دیکھیں یا ہمیں دکھایا جائے تو یہ معصومانہ تجزیہ ہوگا۔ یہی معاملہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی کا ہے۔ وہ تو برملا کہتے ہیں کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے لیکن اپنے حامیوں کو تاثر دیتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور ان کے حامی بانی پی ٹی آئی کو انقلابی لیڈر قرار دیتے ہی نہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔
اس وقت پاکستان داخلی، علاقائی اور عالمی سیاست میں چار بڑے مسائل سے دوچار ہے ۔جن میں سیاسی عدم استحکام ، خراب معیشت، اچھی حکمرانی یا گورننس کا بحران ، ادارہ جاتی محاذ پر اداروں میں جاری لڑائی ، سیکیورٹی کے حالات ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات یا عالمی سیاست سے جڑے مسائل درپیش ہیں ۔
نواز شریف کی جماعت اس وقت قومی اقتدار کی سیاست میں بڑی حیثیت رکھتی ہے ۔ مرکز کی سطح پر وفاقی حکومت ، پنجاب میں حکومت ، بلوچستان کی سطح پر گورنر، اسپیکر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نمایاں ہے ۔ ایسے میں اگر ہم دیانت داری سے مجموعی سیاسی صورتحال اور اس میں نواز شریف کے سیاسی کردار کو دیکھیں تو ہمیں روایتی تضادات ہی نظر آتے ہیں۔ ایک جانب یہ بھی لگتا ہے کہ نواز شریف تھک گئے ہیں ، سیاسی تنہائی کا شکار ہیں یا اقتداری مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ اس کی ایک جھلک ہمیں قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں ان کی شاعری بھی تھی ۔
مسلم لیگ ن کی حکومت پر شہباز شریف اور مریم نواز کی گرفت ہے تاہم جماعت کا ووٹ بینک نواز شریف کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی پالیسیوں پر تحفظات پائے جاتے ہیں ۔اس لیے قومی سیاست میں اگر ہمیں نواز شریف کی خاموشی یا سیاسی تنہائی دیکھنے کو مل رہی ہے یا وہ مختلف سیاسی نوعیت کے اہم معاملات سے الگ تھلگ ہیں تو ہمیں ان کی سیاسی مجبوریوں اور ترجیحات کو بھی سمجھنا ہوگا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں یقینی طور پر پہلے سے طے شدہ ایک اسکرپٹ کا حصہ نظر آتا ہے ۔
مسلم لیگ اور ان کے ہم خیال تجزیہ نگاروںکا خیال تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد وہ جلد ہی غیر اہم ہوجائیں گے اورمسلم لیگ نواز عوامی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردے گی ۔مگر ایسا نہیں ہو سکا اور عام انتخابات میں مسلم لیگ سنگل میجارٹی پارٹی بھی نہ بن سکی اور اسے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا پڑی۔اگرچہ اس وقت مسلم لیگ ن اقتدار میں ہے مگر جب وہ اقتدار کی سیاست سے باہر نکلیں تو پارٹی کو ایک حقیقی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کی سیاست پنجاب تک محدود ہے اور اب پنجاب میں ان کی سیاسی برتری بھی وہ نہیں جو ماضی میں سمجھی جاتی تھی۔
نواز شریف کا کردار موجودہ حالات میں محض چند ملاقاتوں یا اجلاسوں میں شرکت یا خود کو مری کے پر فضا مقام تک محدود ہو گیا ہے۔ بعض لوگ میاں نواز شریف کی مبینہ لندن یاترا کے امکان کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ لندن یاترا کب تک ہوگی یا وہ وہاں لمبی مدت رہتے ہیں، اس کا کوئی جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں اور ایسے لگتا ہے کہ وہ خاندان اور جماعت کے معاملات کی بڑی ذمے داری شہباز شریف اور مریم نواز پر ڈال کر خود کو آزاد کرنا چاہتے ہیں ۔
نواز شریف نے اقتدار کے کھیل میں بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھویا ہے، پیرانہ سالی کے باعث کافی کمزور بھی ہیں، ان کا یہ طرز عمل ہمیں ایک مزاحمتی سیاسی راہنما کے مقابلے میں مصلحت اندیش سیاست دان کے طور پر سامنے نظر آتا ہے ۔اگر وہ ملک سے باہر جاتے ہیں تو بھی افواہوں کا بازار تو گرم ہونا ہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ، وہ جو سیاسی کردار ادا کررہے ہیں، یہ انھوں نے خود اختیار کیا ہے ۔