دوا ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ کے بعد قابل استعمال ہے؟

امریکا میں طبی ماہرین کی تحقیق وتجربات سے ایک حیران کن نتیجہ سامنے آ گیا


سید عاصم محمود October 30, 2024
امریکا میں طبی ماہرین کی تحقیق وتجربات سے ایک حیران کن نتیجہ سامنے آ گیا ۔ فوٹو : فائل

یہ چند سال پہلے کی بات ہے، سان فرانسسکو میں بستے ڈاکٹر لی کنٹرل کو معلوم ہوا کہ ایک مقامی میڈیکل اسٹور کے گودام سے چالیس سال پرانی ادویہ برآمد ہوئی ہیں۔ وہ متجسس ہو گیا۔ لی کنٹرل (Lee Cantrell) معمولی شخصیت نہیں، وہ امریکا کا مشہور کیمسٹ اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے اسکول آف فارمیسی میں پروفیسر ہے۔

اُس کی تحقیق کا خاص میدان یہ اہم موضوع ہے کہ کیا ادویہ اپنی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ کے بعد بیکار ہو جاتی ہیں؟ کمپنیاں اپنی بنائی دواؤں پر ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ یا تاریخِ تنسیخ درج کرتی ہیں۔ یہ تاریخ عموماً ایک تا تین سال بعد آتی ہے۔ جب یہ تاریخ گزر جائے، تو کمپنی کی رُو سے دوا قابلِ استعمال نہیں رہتی، اُسے پھر پھینک دینا چاہیے۔ لیکن کیا یہ دعویٰ درست ہے؟ لی کنٹرل تحقیق و تجربات سے یہی سچائی جاننا چاہتا تھا۔

لی کنٹرل مقامی میڈیکل سنٹر جا پہنچا جو قریب ہی واقع تھا۔ اُس نے پھر ساری پرانی ادویہ خرید لیں۔ اُن کی تاریخِ تنسیخ چالیس سال قبل گزر چکی تھی۔ اور مروجہ سوچ کی رو سے تو اُن ادویہ کو ردّی ہو جانا چاہیے تھا۔ بہرحال لی کنٹرل اُنھیں اپنی لیبارٹری میں لے آیا جو جدید ترین طبی آلات سے مزین تھی۔ اپنی مدد کے واسطے اُس نے ایک دوست کیمسٹ، رائے جینا (Roy Gerona) کو بلا لیا۔ یہ کیمیائی مادوں پہ تحقیق کرنے والا ماہر خصوصی ہے۔

تجسّس پیدا ہوا

لی کنٹرل دس سال قبل ایک دوا کی ایکسپائری ڈیٹ کے بارے میں متجسّس ہوا۔ قصّہ یہ ہے کہ اُس کی ایک عزیزہ تھی۔ اُس نے بخار اَور نزلہ زکام کی حالت میں ایسی دوا کھا لی جو دو سال ہوئے ایکسپائر ہو چکی تھی مگر دوا نے اُسے تندرست کر ڈالا۔ جب یہ معاملہ لی کنٹرل کے علم میں آیا، تو اُسے محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

اُس نے پھر فیصلہ کر لیا کہ وہ تعلیم حاصل کر کے اِس موضوع پر تحقیق ضرور کرے گا۔ ویسے بھی یہ معاملہ اُس کے پیشے سے تعلق رکھتا تھا۔ چناں چہ جب لی کنٹرل نے میڈیکل سنٹر میں پرانی ادویہ دریافت ہونے کا سنا، تو اُسے اپنا فیصلہ یاد آ گیا۔دونوں دوست لیبارٹری میں ادویہ کے اجزا کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے لگے۔ اُنھوں نے پھر اُنھیں مختلف ٹیسٹوں سے گزارا۔ اجزا کی کُل تعداد 41 تھی۔ یہ اجزا مختلف طبی کیمیائی مادوں مثلاً اینٹی ہسٹامائنز (Antihistamines)، درد کش (Pain relievers) اور تحرک انگیز (Stimulants) سے تعلق رکھتے تھے۔

حیرت انگیز نتیجہ

ٹیسٹوں کے نتائج نے لی کنٹرل اور رَائے جینا، دونوں کو حیران کر دیا۔ یہ افشا ہوا کہ چودہ مادوں میں سے ادویہ کے بارہ مادے اپنی پوری طاقت (Potency) برقرار رَکھے ہوئے تھے۔ بقیہ دو مادوں کی طاقت کچھ کم پائی گئی لیکن وہ بھی قابلِ استعمال تھے۔ گویا اُن ادویہ کو بظاہر ضائع ہوئے چالیس برس کا طویل عرصہ گزر گیا تھا… لیکن وہ اَب بھی قابلِ استعمال تھیں۔ یہ حیران کُن انکشاف تھا۔

دونوں محققوں کی تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ بیشتر ادویہ کے اجزا تاریخِ تنسیخ کے بعد بھی طویل عرصہ طاقتور یعنی قابلِ استعمال رہتے ہیں۔ جو مریض یہ ادویہ لے، اُسے تندرستی حاصل ہوتی ہے۔ لی کنٹرل نے فیصلہ کیا کہ وہ اَپنی تحقیق امریکی میڈیا تک پہنچائے ۔ وجہ یہ ہے کہ امریکا میں اسپتال اور عام لوگ بھی ہر سال اربوں ڈالر کی ادویہ ایکسپائر ہونے کے بعد پھینک دیتے ہیں۔ اُن میں کئی ادویہ مہنگی اور نایاب ہوتی ہیں۔ مگر اب تحقیق سے افشا ہوا تھا کہ اِن مہنگی ادویہ کو مزید کچھ عرصہ استعمال کرنا ممکن ہے۔

 پیسے کو ترجیح

امریکی میڈیا نے مگر لی کنٹرل اور رَائے جینا کی تحقیق کو نظرانداز کر دیا۔ صرف کچھ رسائل اور وَیب سائٹس نے تحقیق کا نتیجہ شائع کیا۔ وجہ یہ ہے کہ تحقیق بنیادی طور پر ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف تھی جو امریکی میڈیا کو ہر سال کروڑوں ڈالر کے اشتہار دَیتی ہیں۔ لہٰذا اَوّل اور دوم درجے کا امریکی میڈیا لی کنٹرل کی تحقیق چھاپ کر گھر آئی دولت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔ گویا امریکی میڈیا نے سچائی و نیکی پر پیسے کو ترجیح دی۔ افسوس کہ پیسے سے محبت و لگاؤ دُنیا بھر میں اخلاقیات و سچائی پر غالب آ رہا ہے۔

دنیا کی بیشتر بڑی ادویہ ساز کمپنیاں یورپ و امریکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ طویل تجربات اور تحقیق پر کروڑوں ڈالر خرچ کر کے نئی دوا تیار کرتی ہیں۔ اِس لیے اُنھیں یہ حق دیا گیا کہ اُن کی تیار کردہ دَوا خاص مدت تک کوئی اور دَوا ساز کمپنی تیار نہیں کر سکتی۔ جب یہ خاص مدت گزر جائے، تو پھر اُس دوا کو دیگر کمپنیاں اجزا کے مطابق تیار کر سکتی ہیں۔ اصل دوا کی نقل ادویہ پھر ’’جینرک‘‘ کہلاتی ہیں۔ جینرک ادویہ کی تیاری میں بھارت اور چین کی کمپنیاں سرِفہرست ہیں۔

پیسے کی پوجا

ایک زمانے میں امریکی کمپنیاں اپنی دواؤں کی قیمت کم سے کم رکھتی تھیں۔ تب اُن کے مالکوں میں نیکی و ہمدردی کا جذبہ موجود تھا۔ وہ قیمتیں کم رکھ کر مریضوں اور اُن کے لواحقین پر مالی بوجھ کم رکھتے تھے۔ مگر جب مغربی معاشرے میں مادہ پرستی پھیلی اور پیسے کو پُوجا جانے لگا، تو کمپنیاں بھی اُس رو کا شکار ہو گئیں۔آج بیشتر کمپنیاں نہ صرف دواؤں کی قیمت زیادہ رَکھتی ہیں، بلکہ مختلف ہتھکنڈے اپنا کر سعی کرتی ہیں کہ مخصوص ادویہ کی مارکیٹ میں وہی اجارہ دار رہیں۔

مثلاً بعض بڑی کمپنیاں چھوٹی کمپنیوں کو ہر سال معقول رقم بطور ’’رشوت‘‘ دیتی ہیں، تاکہ وہ اُن کی ادویہ جینرک شکل میں نہ لا پائیں۔ وجہ یہ کہ جینرک ادویہ کی قیمت حقیقی ادویہ سے کافی کم ہوتی ہے۔ اِسی لیے جلد مارکیٹ پر جینرک ادویہ غلبہ پا لیتی ہیں۔ ان پہ یہ بھی الزام ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو مختلف مراعات اور آسائشیں دیتی ہیں، مثلاً بیرون ممالک کے دورے کرانا، نئی گاڑیاں تحفے میں دینا اور دِیگر قیمتی اشیا عطا کرنا۔ مقصد ہے ہے کہ ڈاکٹر اُن کی تیارکردہ اَدویہ ہی نسخوں میں تحریر کریں۔ اِس طرح اُن کا کاروبار پھلتا پھولتا ہے۔

معاملہ سنگین ہے

لی کنٹرل اور رَائے جینا کی رو سے ایکسپائری ڈیٹ کا معاملہ بھی ایک دھوکا ہے جو زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کی خاطر اختیار کیا گیا۔ بیشتر امریکی کمپنیاں اپنی ادویہ کی تاریخِ تنسیخ کم رکھتی ہیں تاکہ وہ جلد ضائع ہو جائیں۔ یہ ایک طرح کا جرم ہے مگر انھیں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ اَپنی کارروائی قانون کے تحت انجام دیتی ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ہر دوا اِیکسپائری ڈیٹ گزرنے کے بعد بیکار ہو جاتی ہے۔ کوئی کمپنی پھر اُس کی افادیت اور کارآمد ہونے کی ضمانت نہیں لیتی۔ مگر امریکی محققین کے تجربے نے ثابت کر دیا کہ اکثر ادویہ کے بیشتر اجزا برسوں بعد بھی طاقتور اَور قابلِ استعمال رہتے ہیں۔ لی کنٹرل کی بھاگ دوڑ کے بعد یہ نتیجہ ضرور نکلا کہ اب امریکی و یورپی طبی ویب سائٹس میں دوا کی ایکسپائری ڈیٹ کے بارے میں خاصی معلومات مل جاتی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وَاقعتاً بیشتر ادویہ تاریخِ تنسیخ کے بعد بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اُن کے اجزا اِتنے موثر رہتے ہیں کہ بیمار کو تندرست رکھ سکیں۔

ایک ہمہ گیر منصوبہ

حکومتِ امریکا نے 1986ء میں ایک ہمہ گیر منصوبہ ’’شیلف لائف ایکسٹینشن پروگرام‘‘ شروع کیا تھا۔ منصوبے کے ذریعے امریکی حکومت یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ کون سی ادویہ ہیں جو ایکسپائری ڈیٹ کے بعد بھی کارآمد رہتی ہیں اور کتنے عرصے تک؟ مقصد یہ تھا کہ جو اَدویہ ایکسپائری ڈیٹ کے بعد بھی اپنی طاقت برقرار رَکھتی ہیں، اُنھیں ذخیرہ کیا جا سکے۔ یہ ادویہ پھر کسی ایمرجنسی کی صورت شہریوں اور فوجیوں کے کام آئیں۔ اس سرکاری منصوبے میں ’’122‘‘ ادویہ پر تحقیق کی گئی جو تین ہزار لوٹ (lots) رکھتی تھیں۔ دورانِ تحقیق ادویہ کی طاقت، پی ایچ (pH)، پانی کے حصّے، طبعی حالت اور فطری ملاوٹوں کا جائزہ لیا گیا۔

یہ تحقیق بیس سال بعد 2006ء میں انجام کو پہنچی۔اُس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ’’88 فی صد‘‘ ادویہ نے ایکسپائری ڈیٹ کے بعد کم از کم ’’چھیاسٹھ‘‘ ماہ تک اپنی طاقت برقرار رَکھی۔ صرف ’’12 فی صد‘‘ ادویہ کی طاقت مختلف وُجوہ کی بنا پر کم ہوئی۔ بعض ادویہ تو اپنی تاریخِ تنسیخ کے چار سال بعد بھی قابلِ استعمال پائی گئیں۔ جن ادویہ پر تحقیق کی گئی، اُن میں اموکسیسلین (Amoxicillin)، سائپروفلوکسین (Ciprofloxacin)، ڈپہن ہائڈرامائین (Diphenhydramine) اور مارفین سلفیٹ انجکشن شامل تھے۔

یہ ادویہ اپنی ایکسپائری ڈیٹ کے بعد 12 ماہ سے 184 ماہ (پندرہ سال) تک قابلِ استعمال رہیں۔ جون 2020ء میں امریکی محکمہ صحت نے اعلان کیا کہ کوویڈ۔19 وبا میں استعمال ہونے والی ادویہ مثلاً تامی فلو اور رِیلینزہ (Relenza) ایکسپائری ڈیٹ کے بعد بھی قابلِ استعمال رہتی ہیں۔ درحقیقت انکشاف ہوا کہ ریلینزہ دَس سال جبکہ تامی فلو اِیکسپائری ڈیٹ کے بعد پندرہ سال تک استعمال کے قابل رہتی ہے۔

مضر اثرات موجود نہیں

شیلف لائف ایکسٹینشن پروگرام سے یہ بھی افشا ہوا کہ ایکسپائری تاریخ گزرنے کے بعد ادویہ استعمال کی جائیں، تو وہ اِنسان پر کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں کرتیں۔ یہ بھی اہم انکشاف ہے کیونکہ تاریخِ تنسیخ کے بعد عام طور پر ادویہ اِسی لیے پھینک دی جاتی ہیں کہ وہ انسانی صحت کو نقصان پہنچائیں گی۔

ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ ایک دوا کا ایکسپائری ڈیٹ کے بعد قابلِ استعمال رہنے کا انحصار اِن باتوں پر ہوتا ہے: دوا کے اجزا، تحفظ دینے والے اجزا (Preservatives) کی موجودگی، درجہ حرارت میں کمی بیشی، روشنی، نمی اور ذخیرہ کرنے کے حالات۔ تحقیق سے پتا چلا کہ گولیاں (ٹیبلٹ) اور کیپسول ایکسپائری ڈیٹ کے بعد بھی طویل عرصہ اپنی طاقت برقرار رَکھتے ہیں۔ جو ادویہ محلول یا مائع حالت میں ہوں اور جنھیں ریفریجریٹر میں رکھنے کی ضرروت ہو، ایکسپائری ڈیٹ کے بعد اُن کی طاقت کم ہوسکتی ہے۔ واضح رہے، دوا کی طاقت کم ہونا اہم مسئلہ ہے کیونکہ وہ پھر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔

دوا کی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ پر جدید تحقیق کے بعد امریکی ماہرینِ طب شہریوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ کو علم ہے، دوا حفاظت سے خصوصاً فریج میں رکھی گئی تو اسے تاریخ تنسیخ کے بعد بھی چند ماہ استعمال کر لیں۔ لیکن آپ نہیں جانتے کہ دوا کن حالات میں پڑی رہی ہے تو بہتر ہے، ایکسپائری ڈیٹ کے بعد دوا اِستعمال نہ کی جائے۔

یہ استعمال نہ کریں

ایکسپائری ڈیٹ کے بعد یہ ادویہ استعمال نہ کریں:

٭ انسولین جو ذیابیطس میں خون کی شکر قابو کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ ایکسپائری ڈیٹ کے بعد انسولین کی طاقت کم ہونے لگتی ہے۔

٭ انجائنا (سینے کے درد) میں نائٹرو گلیسرین نامی دوا عموماً کھائی جاتی ہے۔ جب اُس کی بوتل کھل جائے، تو دوا کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔

٭ ویکسینیں بھی ایکسپائری ڈیٹ گزرنے کے بعد اپنی طاقت کھونے لگتی ہیں۔

٭ جو ادویہ پرانی دکھائی دیں، جن سے بدبُو آئے اور جو خشک ہو جائیں، اُنھیں استعمال نہ کیجیے چاہے ایکسپائری ڈیٹ بھی نہیں آئی ہو۔

ادویہ محفوظ کرنے کا طریقہ

ہر قسم کی دوا نمی اور زیادہ گرمی و سردی سے پاک جگہ پر محفوظ کریں۔ کار اور کسی ڈبے میں دوا رَکھنا مناسب نہیں۔ اگر دوا کو مناسب طریقے سے محفوظ کیا جائے، تو وہ اِیکسپائری ڈیٹ کے بعد بھی کچھ عرصہ ضرور کارآمد رہتی ہے۔ 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں