اسلام آباد:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلیے استعمال کیے جانے والے معاشی مفروضوں کا حصول اس کی منظوری کے ایک ماہ کے اندر ہی ناکامی سے دوچار ہوگیا ۔ جس سے حکومت کے پاس صرف 2 راستے بچے ہیں کہ وہ معاہدہ پر دوبارہ مذاکرات کرے یا مزید ٹیکسوں کے ذریعے معیشت کا گلا گھونٹتے رہیں۔
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں قریباً 13 ہزار ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلیے4 اہم بنیادی مفروضے اقتصادی ترقی کی شرح، افراط زر، بڑے پیمانے پرپیداوار اور درآمدات دیے گئے تھے مگران میں سے 3 مفروضے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک غلط ثابت ہو چکے ہیں۔
وفاقی حکومت نے چاروں صوبائی حکومتوں کی طرف سے حد سے زیادہ وعدے کرلیے اورصوبائی حکومتیں بھی معاہدے کے نفاذ سے ہی ان شرائط کو پوری کرنے کیلیے مسلسل تگ ودو ہی کر رہی ہیں ۔
پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے سرکاری اعدادوشمار سے سامنے آیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس وصولی کے ہدف سے لے کر صوبائی کیش سرپلس رہنے تک کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہو سکا ۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی مارکیٹ کے ذریعے طے شدہ شرح مبادلہ کے نظام کے خلاف کھلے عام بات کی ہے جو 7 ارب ڈالر پروگرام کا ایک اور بنیادی ہدف ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان پر پھر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ روپے کی قدر میں مزید کمی کرے حالانکہ اسحاق ڈار کے مطابق روپے کی قدر پہلے ہی کم از کم 16 فیصد تک زیادہ گر چکی ہے۔
کئی لوگوں نے آئی ایم معاہدہ ہوتے ہی آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درامد کے حوالے سے سنگین مسائل کی پیش گوئی کردی تھی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں نے اسے کتنے برے طریقے سے انجام دیا تھا ۔
ایکسپریس ٹریبیون نے پہلے ہی رپورٹ کر دیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک غلط معاہدے کو حتمی شکل دے ہے جو پٹڑی سے جلد اتر سکتا ہے۔ ذرائع نے بتایا جی ڈی پی کی شرح نمو 3 فیصد رہنے کے مفروضے کے سوا باقی تین ترقی کے خود مختار اشارئے افراط زر، درآمدات اور بڑے پیمانے پر پیداوار پہلی سہ ماہی میں نمایاں طور پر اہداف سے بہت پیچھے رہے ہیں ۔
12.9 فیصد کی متوقع افراط زر کی شرح کے برعکس پہلی سہ ماہی میں اوسط افراط زر 9.2 فیصد پر رہا۔ وزارت خزانہ کی اکتوبر کیلئے مہنگائی کی نئی پیش گوئی کے درمیان یہ پیش رفت سامنے آئی۔اس نے ماہانہ آؤٹ لک رپورٹ میں بتایا "توقع ہے اکتوبر میں افراط زر 6 اور7 فیصد کی حد میں رہے گا اور نومبر تک 5.5سے6.5 فیصدتک مزید کم ہو جائے گا"۔
اسی طرح درامدات میں17 فیصد اضافے کو 13 کھرب روپے کے ٹیکس وصولی ہدف تک پہنچنے کیلئے استعمال کیا گیا لیکن طلب میں کمی کی وجہ سے پہلی سہ ماہی میں درآمدات میں صرف 8 فیصد اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر پیداواری نمو بھی پہلی سہ ماہی میں 1.3 فیصد رہی جبکہ اسکا تخمینہ 3.5 فیصد لگایا گیا تھا ۔
ایف بی آر نے پہلے ہی پہلی سہ ماہی میں 90 ارب روپے کی ٹیکس کمی دکھائی ہے ۔ اندرونی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے ٹیکس کی کمی رواں سال دسمبر تک 350 ارب سے 400 ارب روپے تک جا سکتی ہے۔پہلی سہ ماہی کے نتائج اور دوسری سہ ماہی کے ابتدائی آثار دیکھنے کے بعد حکومت کو مالیاتی فریم ورک کیلئے استعمال کئے گئے مفروضوں کو دوبارہ کھولنا ہو گا یا پھر غیر حقیقی اہداف کا تعاقب کرتے رہنا ہو گا۔
رواں مالی سال کیلئے آئی ایم ایف نے 12 ہزار 902ارب روپے کے ٹیکس اہداف دیئے ہیں ،جس پر حکومت نے عملدرآمد کرتے ہوئے تاجروں اور کاروباری اداروں سے اضافی وصولی کے وعدے کے ساتھ کم از کم 1002 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے ۔
قیمتوں میں معمولی اضافے (افراط زر کے علاوہ جی ڈی پی نمو) کے اثرات کا تخمینہ رواں مالی سال کیلئے 1057 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس میں سے پہلی سہ ماہی میں مہنگائی کے اثرات کا تخمینہ 281 ارب روپے تھا لیکن سنگل ڈیجیٹ افراط زر کی وجہ سے اس کا حقیقی اثر بمشکل 130 ارب روپے رہا۔
دوسری سہ ماہی کیلئے خود مختار ترقی کے اثرات کا تخمینہ 484 ارب روپے لگایا گیا ہے لیکن اس کی حقیقی قیمت 230 ارب روپے سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ عوامی سطح پر دستیاب اشارئے بتاتے ہیں ایف بی آر کوسیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 125 ارب روپے کی اضافی کمی ہوسکتی ہے۔
درآمدی دباؤ کے اثرات کا تخمینہ تمام درآمدی ٹیکسوں کے حساب سے 320 ارب روپے ہے۔ان میں سے کچھ منفی اثرات ٹیکس کی بلند شرحوں کی وجہ سے قریباً 225 ارب روپے کی اضافی آمدنی سے دور ہوں گے۔
صوبائی حکومتیں بھی 342 ارب روپے کی مطلوبہ نقدی سرپلسز ظاہر نہیں کر سکیں اور پہلی سہ ماہی میں ہدف سے 182 ارب روپے کم رہیں۔ جس کے باعث بنیادی بجٹ کے اضافی ہدف کو مزید نقصان پہنچے گا۔ صوبائی حکومتوں نے بھی قومی مالیاتی معاہدے پرہچکچاتے ہوئے دستخط کئے جبکہ آنے والے ہفتوں میں کچھ مزید اہم شرائط چھوٹ جائیں گی۔