میڈیا میں آج کی سب سے بڑی خبر امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ہے۔ ایک طویل کیمپین اور سخت مقابلے کے بعد ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں واپسی کا ہنگامہ برپا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدور کملا ہیرس نے بلاشبہ خوب مقابلہ کیا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران فیورٹ کا درجہ بھی حاصل کیا۔ لیکن یہ سیاست ہے، نمبروں کا الٹ پھیر کسی کی ہار اور کسی کی جیت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اور یہی ہوا کہ صدارتی انتخابات میں 538 ووٹوں میں سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حصے میں 277 ووٹ جبکہ کملا ہیرس کو 226 ووٹ حاصل ہوئے۔
اب جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر سپر پاور امریکا کے منصب صدارت پر فائز ہونے کےلیے جیت کی خوشی منا رہے ہیں، ایسے میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی اور عالمی سیاست پر ان کے اثرات کے حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔
صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور صدارت بھی مختلف تنازعات کے باعث خبروں میں رہا تھا۔ امریکی صدر نے کئی ایسے احکامات جاری کیے تھے جنھیں مختلف کمیونٹیز کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اپنے پہلے دورِ صدارت میں ٹرمپ نے ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے اپنی خارجہ پالیسی کا واضح اعلان کردیا تھا، اور ان کے بعد کے فیصلوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ ٹرمپ کے نزدیک انسانی اقدار اور اخلاقیات سے زیادہ سب سے پہلے امریکا ہی تھا۔ صدر ٹرمپ نے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے نزدیک امریکا کا مفاد سب سے پہلے ہے۔
اپنی اسی سوچ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں امریکا کو کئی عالمی معاہدوں سے الگ کیا، جن میں ٹرانس پیسیفک پارٹنر معاہدہ، کلائمیٹ چینج سے متعلق پیرس معاہدہ اور ایران کے ساتھ طے پانے والا جوہری معاہدہ بھی شامل تھا۔
ٹرمپ نے تارکین وطن کے حوالے سے بھی قوانین میں سختی کی۔ جبکہ وہ دیگر ممالک کی سیکیورٹی پر خرچ ہونے والے امریکی سرمایے پر سوال اٹھانے کے علاوہ نیٹو کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ٹرمپ کے ان ہی سب اقدامات کے باعث عالمی طور پر یہ سوچ پختہ ہوئی کہ ٹرمپ امریکا کےلیے تو بے شک اچھے صدر ہیں، لیکن عالمی سطح اور دیگر کمیونٹیز کے لیے ان کے خیالات مناسب نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں ہی اپنے خلاف کئی محاذ کھول لیے تھے۔
اپنے پہلے دورِ صدارت میں ٹرمپ کو کورونا کے باعث معاشی مشکلات، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے علاوہ اپنے مواخذے کی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
صدر ٹرمپ کی امریکا کےلیے مستقل سوچ اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے ان کے فیصلوں کے روشنی میں اس بات کے امید تو نہیں رکھی جارہی کہ وہ پاکستان کے لیے اچھے ثابت ہوں گے۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سپر پاور امریکا کے انتخابات کے نتائج پوری دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وقت کیا کروٹ لیتا ہے یہ تو آگے ہی پتا چلے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔