اسلام آباد:
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ختم ہوگیا جبکہ اگلا اجلاس 25 نومبر کو ہوگا۔
جوڈیشل کمیشن کے آج کے اجلاس میں سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچز کی نامزدگی کے لیے غور کیا گیا۔ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور آئینی بینچز کے سربراہ جسٹس امین الدین خان بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ محمد شفیع صدیقی، سینیٹر فاروق نائیک، ممبر قومی اسمبلی شیخ آفتاب احمد، روشن خورشید بروچہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان شریک تھے۔
اسکے علاوہ، وزیر قانون سندھ ضیاء الحسن، شبلی فراز، عمر ایوب اور ممبر سندھ بار کونسل قربان علی بھی اجلاس میں موجود تھے جبکہ نمائندہ پاکستان بار کونسل اختر حسین شریک نہ ہو سکے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی گفتگو
اجلاس کے بعد سپریم کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 25 نومبر تک مؤخر کیا گیا ہے اور اس دوران تمام ججز آئینی مقدمات سن سکتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں سول اوریجنل اختیار کے تحت ہائیکورٹ مقدمات بھی سن سکتی ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ ابھی سندھ ہائیکورٹ میں ججز کی 12 آسامیاں بھی خالی ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں سالوں سے مقدمات زیر التوا ہیں اس لیے ناموں پر آج بحث ہوئی ہے اور ابھی ججز کی تقرری کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
انہوں نے واضح کیا کہ بینچز بنانا اور ججز کو کام سونپنا جوڈیشل کمیشن کا کام نہیں ہے، کون سے بینچ میں کون سا جج بیٹھے گا یہ معاملہ تین ججز کی انتظامی کمیٹی نے دیکھنا ہے، نامزد ججز میں سے تین سینیئر ترین جج مقدمات کو مقرر کرنے کی ذمہ دار ہوں گے۔ تمام ججز ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں، اب ججز کی تعیناتی کا ایک شفاف میکانزم دیا گیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے تھوڑی دیر کے لیے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی، پھر جسٹس جمال خان مندوخیل کی فلائٹ کا ٹائم ہوگیا تھا۔ ممبر جوڈیشل کمیشن اختر حسین کی اہلیہ کی طبعیت ناساز تھی اس لیے شرکت نہیں کر سکے۔
صحافی نے سوال کیا کہ سنا ہے اجلاس میں دہشت گردی کا بھی ذکر ہوا ہے؟ وزیر وانون نے جواب دیا کہ ایسے ہی ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو میں ہوئی آپ شرارت نہ کریں۔
صحافی نے ن لیگی رکن اسمبلی شیخ آفتاب سے سوال کیا کہ آپ کے پی ٹی آئی کے دوستوں نے شکایت کی کہ ہم تو دہشت گرد ہیں؟ شیخ آفتاب نے جواب دیا کہ نہیں وہ تو ملک کے اچھے شہری ہیں، شکایت نہیں کی گئی بلکہ ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو ہوئی ہے اور وہ اتنے ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو ہوئی کہ کسی نے جواب ہی نہیں دیا۔