آدھے ایمان سے محروم مسلمان

اسلام دینِ فطرت اور اس کے تمام احکامات انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہیں



زندہ دلان کا شہر لاہور جسے سٹی آف گارڈن بھی کہا جاتا ہے آج کل اسموگ کی وجہ سے سٹی آف ڈیتھ بنا ہوا ہے، کہا جارہا ہے کہ اسموگ نے اس شہر کے باسیوں کی زندگی اوسطاً پانچ سال کم کردی ہے۔

اسموگ سال کے 365 دن ہوتا ہے مگر سردیوں میں اس کی شدت عروج پر ہوتی ہے۔ اگر آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش، سینے میں درد اور طبیعت میں بوجھل پن محسوس ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ اسموگ کا شکار ہوچکے ہیں۔ آج کل لاہور شہر کا ہر باسی اسموگ کی وجہ سے بیمارنظر آرہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے لاہور کے شہری گیس چیمبر میں بند ہیں اور ان کے سروں پر اسموگ موت کی طرح منڈلا رہی ہے جب کہ بچنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔

دنیا کے آلودہ ترین ممالک کی فہرست میں بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے اور بھارت کا تیسرا نمبر ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق بہترین ایئرکوالٹی انڈکس (اے کیو آئی) 50 ہے، معتدل ایئر کوالٹی انڈکس 150 ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق اس سال لاہور میں ہوا کا معیار دو ہزار سے اوپر اور کچھ کے مطابق ایک ہزار سے اوپر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ صرف لاہور کی کہانی نہیں اس بار ملتان میں ایئر انڈکس دو ہزار سے اوپر تک گیا۔

اسموگ کے زہریلے باریک ذرات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں بآسانی داخل ہوکر خون کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے باعث یہ ذرات پھیپھڑوں کے ٹشوز کو متاثر، کینسر کا سبب، سانس کے امراض کا باعث اور بچوں میں لاتعداد امراض پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش اپنی اپنی فضائی آلودگی کے علاوہ کراس باڈر اسموگ کے بھی شکار ہیں اس لیے اس پورے خطے میں اسموگ ایمرجنسی کا نفاذ عقل و شعور کا تقاضا ہے سب کو مل کر اس سے لڑنا ہوگا۔ اسموگ نے لاہور سمیت ملک کے بیشتر بڑے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، مگر زندہ دلان کے شہر کی فضاؤں پرخوف کا راج ہے۔ اسکول، کالج بند، مارکیٹوں، شادی ہالوں، ہوٹلوں کو اوقات کار کا پابند بنا دیا گیا ہے۔

وہ لاہور جس کی راتیں بھی دن کے اجالے کا منظر پیش کرتی تھیں آج اسموگ کی وجہ سے اس کے دن، راتوں سے تاریک ہیں، کئی روز سے سورج نے چہرہ نہیں دکھایا، دن کے وقت ہیڈ لائٹس آن کرکے گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لینا محال اور اسپتالوں میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔ شہری کینسر، دمہ،گلے میں خارش، آنکھوں میں جلن، بخار،کھانسی، فلو اور پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا ہو رہے ہیں مگر نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد کے لیے یہ زہر قاتل ہے کھلی فضا میں سانس لینا ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

 ماہرین طب کے مطابق اسموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ آلودگی میں اضافے کی وجہ سے بڑی عمر کے لوگوں میں ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسموگ نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہے بلکہ جانوروں، پودوں کی افزائش اور جنگلات کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ گزشتہ دس سال سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مگر اس بار اس کی شدت اور تباہ کاریوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی مشینری حرکت میں آچکی ہے مگر حکومتی اقدامات اسموگ کے مستقل بنیادوں پر خاتمے کے بجائے وقتی طور پر اس کی تباہ کاریوں سے بچنے پر ہے اور حسب سابق اپنے آپ اور قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ان میں دس روز تعلیمی اداروں کی بندش، گرین لاک ڈاؤن، ہوٹل، شادی ہال اور مارکیٹوں کو رات آٹھ بجے بند کرنے کی پابندی وغیرہ شامل ہیں۔ کیا ان اقدامات سے اسموگ ختم ہو سکتی ہے؟ عوام کو اسموگ تر نوالے کی طرح ہر بیماریوں کو پیش کرے گا، وہ تو بستروں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے مگر ریاست کے ذمے دار اللہ رب العزت کو کیا جواب دیں گے؟

اسموگ کی بگڑتی صورت حال اور حکمرانوں کی بے حسی پر لاہور کی 3 سالہ بچی امل سکھیرا نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن کی عدالت میں ان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ امل سکھیرا نے درخواست میں نشاندہی کی کہ ایئر کوالٹی انڈیکس میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، محکمہ ماحولیات اور پنجاب حکومت فضائی آلودگی پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں، آئین کے آرٹیکل 99 اے کے تحت حکومت شہریوں کو صاف ستھرا اور صحت مند ماحول دینے کی پابند ہے۔

پنجاب حکومت آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کر پارہی۔ یہ استغاثہ تو ایک تین سالہ بچی نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیا ہے، جہاں سے حکومت اور ادارے ہیرا پھیری کرکے بچ جائیںگے مگر اسموگ کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والے لوگ جب اپنا استغاثہ قہار و جبار اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے تو وہاں ہیرا پھیری نہیں چلے گی، کائنات کی سب سے بڑی عدالت میں صرف انصاف ہوگا۔ حکمران کیوں حشر کے میدان میں لگنے والی اس عدالت عظمٰی سے بے خوف ہیں؟

 اسموگ کی روک تھام اور بیخ کنی جہاں ریاست کی ذمے داری ہے وہاں عوام کی بھی کچھ ذمے داریاں ہیں۔ اسموگ کی وجوہات میں فصلوں کی کٹائی کے بعد گھاس پھوس کو جلانا سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ آگ اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ زمین کو اگلی فصل کے لیے جلد تیار کیا جاسکے، دھان کی باقیات کو آگ لگا کر تلف کرنا آسان اور سستا ترین طریقہ ہے۔

لاہور میں اسموگ کی وجوہات میں کارخانوں، بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والا اور سڑکوں پر لاکھوں موٹر سائیکل، رکشے، چنگچی اور گاڑیوں کے دھویں کے علاوہ شہر میں بکھرا کوڑا کرکٹ اور گندگی فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے کوڑا کرکٹ کو آگ لگانا جرم ہے مگر ہمیں جب اور جہاں موقع ملتا ہے اس جرم کا ارتکاب کرنے سے باز نہیں آتے، دھان کی باقیات یا کوڑا کرکٹ کو آگ ریاست یا حکومت تو نہیں لگاتی، یہ تو ہم عوام خود کرتے ہیں۔ اگر دھواں چھوڑتی موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور کارخانوں سے بڑی مقدار میں کاربن خارج ہوکر فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے تو اس کے بھی ہم ذمے دار ہیں۔

 اگر صفائی کو نصف ایمان قرار دینے والے دین اسلام کے نام لیواؤں کا شہر لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے تو فی الحال آدھے ایمان سے تو ہم ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسلام دینِ فطرت اور اس کے تمام احکامات انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہیں اس لیے ہمیں پاکیزگی اور صفائی کا حکم بھی ہے، اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہمیں صفائی ستھرائی اور طہارت کا جو درس دیا تھا آج میڈیکل سائنس صحت مند رہنے کے لیے صفائی اور ستھرائی پر زور دیتی ہے۔ صحت مند معاشرہ صحت مند افراد پر موقوف ہوتا ہے، صحت اور تندرستی کی بقا درحقیقت صفائی پر موقوف ہے، اگر انسان کو جراثیم سے پاک غذا اور ہوامہیا ہو تو وہ صحت مند رہتا ہے، اور صحت مند افراد مل کر صحت مند معاشرہ بناتے ہیں۔

اگر غذا یا ہوا صاف ستھری نہ ہو تو افراد کھبی صحت مند نہیں رہیں گے اور صحت مند معاشرے کا تصور خواب و خیال بن کر رہ جائے گا۔ جیسے آج اسموگ کی آلودگی کی وجہ سے بیماروں سے ہمارے اسپتال بھرے پڑے ہیں۔ اسلام نے ہر اس کام سے منع کیا ہے جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنے مگر آج اس کے نام لیواؤں کے کرتوتوں کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں لوگ صاف فضا میں سانس لینے سے محروم ہیں، اور بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرنے سے معذور ہیں۔

آج دین اسلام کے ماننے والے دھان کی باقیات اور کوڑے کو آگ لگا کر فضا میں کاربن کا زہر گھول رہے ہیں، اپنی گاڑیوں، کارخانوں اور بھٹوں کے ذریعے فضا کو زہر آلود کررہے ہیں۔

کھبی ہم نے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ کیا ہمارے رویے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں؟ اسلام طہارت اور صفائی کو نصف ایمان قرار دے کر ہمیں اپنے جسم کے ساتھ اپنے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کرتا ہے، فضائی آلودگی کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ درخت ہیں اس لیے اسلام شجر کاری پر زوردیتا ہے، ہمیں درخت کاٹنے پر پابندی لگا کر سال کے 365 دن شجرکاری ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنا ہوگی۔ اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے تو پھر "ہم آدھے ایمان سے محروم مسلمان ہیں"۔ ہم نے اگر اپنا آدھا ایمان بچانا ہے تو زمینی اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ریاست کوبھی سال کے 365 دن 7/ 24 اسموگ کے مکمل خاتمے کے لیے پروگرام بنانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔