ان دونوں الفاظ کا مطلب تقریباً ایک ہی ہے لحاظ، تہذیب، شائستگی، زبان دانی، ادبی شان وغیرہ۔ لیکن فی زمانہ ادب اور ادبیت کا معانی بدل چکے ہیں۔ ادب، تہذیب اور منصفانہ رویہ عنقا ہو چکا ہے۔ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا ہے۔
اس کی وجہ شرم و حیا ان کے باطن سے نکل چکی ہے اب یہ ادب کے ٹھیکیدار دھڑلے سے وہ امور انجام دیتے ہیں جس کی انسانیت اجازت نہیں دیتی ہے، اوچھی حرکتیں اور دوسروں کی پگڑی اچھالنا اس کا حق غصب کرنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔
لیکن جہاں ایسے لوگ ہیں جو اداروں پر قابض ہیں وہاں اچھے لوگ بھی بے شمار ہیں۔ جنھیں پرواہ ہی نہیں ہے کہ ان کے لیے ان خاص مواقعوں پر ایک مضبوط سیٹ کا انتظام کریں ہر اچھا شخص عزت و وقار کا متمنی ہوتا ہے لیکن ایسے مواقع اپنے لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔ خوشامدی لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
خوشامدی شخص اپنے مطلب کے حصول کے لیے صاحب اختیار کے جوتے چاٹنے کے لیے ہر لمحہ اپنے آپ کو تیار رکھتا ہے نہ جانے کب صاحب کی کال آ جائے؟ اپنے مطلب کے لیے اسے وہ کام بھی انجام دینے پڑتے ہیں جو اس کے منصب کے خلاف ہیں لیکن اسے پرواہ نہیں، اس کی دوسروں کے سامنے بے عزتی بھی اکثر اوقات کر دی جاتی ہے۔
طنز اور توہین آمیز جملوں کو بھی امرت سمجھ کر خوش اخلاقی کے ساتھ پی جاتا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کی پروموشن اور ایک طاقت ور سیٹ کے کھونے کا احتمال رہتا ہے۔ وہ انا، عزت نفس اور اپنے ضمیر کو سلا کر ہی بڑا مقصد حاصل کر سکتا ہے اور وہ کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ادب کے ٹھیکیداروں کی کمی ہرگز نہیں ہے بلکہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں ایسا کرنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے لیکن ان تمام معاملات میں حق دار اپنے حق سے محروم رہتا ہے، باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اس طرح کے حالات میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، دل ضرور دکھتا ہے لیکن اس کا اظہار کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔
وقت کے انتظار کو وہ بہترین حربہ سمجھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ مقولہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبان اقتدار تنہا نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ فوج ظفر موج چلتی ہے۔
ہر بار اور ہر موقع پر اپنے حریف کو شکست فاش دینے کے لیے اسلحہ سے لیس رہتے ہیں اس طرح بدعنوان اور کم ظرف لوگوں کے اقتدار کا دورانیہ طویل ہو جاتا ہے یہ اقتدار حکومت کے علاوہ اداروں کے سربراہان کی گرفت میں بھی رہتا ہے۔
ادبی و علمی ادارے بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی طاقت ور ہیں اور اخلاق و تہذیب کا جنازہ دھوم دھام سے نکالتے ہیں۔ چہرے پر نخوت، آنکھوں میں نفرت کا سیلاب ان خاص مواقعوں پر ضرور امڈ آتا ہے جب ان کے قدر دانوں یا خوشامدیوں کی بڑی تعداد انھیں سلام یا ہاتھ ملانے کے لیے بے چین ہوتی ہے ان میں وہ لوگ گیہوں میں گھن کی طرح پس جاتے ہیں۔
علمیت و لیاقت میں وہ بے مثال ہوتے ہیں ان کے نام کا طوطی بول رہا ہوتا ہے ایسے لوگوں سے وہ گھمنڈی اور مغرور لوگ زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں کہیں وہ اعلیٰ حضرات کی نگاہوں میں نہ آ جائیں اور ان کی عزت میں چار چاند لگ جائیں یا پھر ان کا اقتدار انھیں مل جائے لیکن یہ ان کا خوف یا وہم ہوتا ہے وہ اپنی سیٹ پکی اور اپنے باس کا اعتماد حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔
علم و ادب سے وابستہ کچھ حضرات میں ایک بڑی بیماری یہ بھی ہے کہ بہت تنگ نظر اور اخلاقی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بھی محض اپنے مفاد کے لیے قابل لوگوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
ادبی سیمینار اور کانفرنس کے مواقعوں پر باہر سے تشریف لانے والی خواتین و حضرات کو شرکا محفل اور خاص لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کرنے کے لیے خاص مقام پر لے جا کر چھپا دیتے یا بٹھا دیتے ہیں کہ کہیں کسی اور سے دوستی نہ ہو جائے۔
یہی نہیں بلکہ باصلاحیت ادیبوں، شعرا اور ناقدین سے نفرت کی فضا کو پروان چڑھاتے ہیں اور انھیں اس قدر متنفر کر دیتے ہیں کہ وہ چھوٹے قد کے لوگ ان کی تحریروں کا ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی کتابیں وصول کرتے ہیں بلکہ ان کا اپنا گروہ ہوتا ہے جو آپس میں ہی شیر و شکر رہنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔
لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ علم و ادب کے اعتبار سے قدآور اور اعلیٰ فکر کے لوگ بھی اس دنیا میں بستے ہیں وہ لوگ کتابوں اور صاف اور سچے لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں، ان کا نام اور کام بادصبا کے ساتھ سفر کرتا ہوا دور دراز کے ملکوں میں جاتا ہے، لوگ ہر لمحہ ان کے استقبال کے لیے تیار رہتے ہیں، منہ پر بھی تحسین آمیز کلمات ادا کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بھی ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ادب کی خدمت کم کی جا رہی ہے، نفرت، تعصب کو فروغ دینا ایک روایت بن چکی ہے۔ یہ کام سب نہیں بلکہ چند لوگ انجام دیتے ہیں، جھوٹے الزامات اور تمسخر اڑا کر اچھے بھلے لوگوں کو بدنام بھی کرتے ہیں اور محفلوں سے دور رکھنے کے حربے بھی آزماتے ہیں۔
اناپرست اور عزت دار لوگ اپنا کام کرکے خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ یہ رویہ انسانیت اور تہذیب کے خلاف ہے ادبی ماحول کو پراگندگی بخشتا ہے۔
ادب کے ٹھیکیداروں کو اپنے انداز فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ نوآمیز ادبا و شعرا اور قابل قدر سینئر قلم کاروں کو بھی خوشگوار ماحول میسر آئے اور مل جل کر علم و ادب کے چراغ جلائیں اور پھر اس کی روشنی سے ادب کے طالب علموں کے دماغوں میں اندھیرے کی جگہ اجالا ہو جائے۔
رویوں کی بازگشت دور دور تک جاتی ہے اور وہ دانشور بھی اچھی طرح جان لیتے ہیں کہ اوپر چڑھنے کے لیے کس نے کون سی سیڑھی استعمال کی ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ پیٹھ پیچھے لوگ برے القاب و آداب سے نوازتے ہیں اور اگر ان کے کانوں میں اپنے لیے ذلت بھرے الفاظ پہنچ جائیں تب اگر ضمیر زندہ ہے تو ماتم اور گہرے دکھ کا احساس اگر مردہ ہے تب اسی طرح دن عید اور رات شب برات کے مزے لوٹتے ہیں۔