دہشت گردی پاکستان کے لیے حقیقی خطرہ

بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی (را) اور این ڈی ایس کے ڈانڈے آج بھی ملتے نظر آرہے ہیں


مخدوم ارشد حسین November 17, 2024

پاکستان 2001سے حالت جنگ میں ہے، پاک فوج نے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کر کے ملک میں جو امن قائم کیا تھا، کچھ اندرونی و بیرونی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر اس کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

بلوچستان میں گزشتہ8ماہ کے دوران دہشت گردی کے کئی واقعات میں120افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اگست، ستمبر اور اکتوبر دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بد ترین ماہ ثابت ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کا بنیادی ہدف عام شہری، مزدوراور مسافر ہیں۔ دہشت گرد گاڑیوں کو ویرانے میں روک کر مسافروں پر حملے، ترقیاتی سر گرمیوں کے کارکنوں اور کوئلے کی کانوں کے محنت کشوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر واقع دو ممالک پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور سازشوں کا مرکز بن چکے ہیں۔ امریکا، بھارت اور دیگر ممالک کے اس خطے کے حوالے سے مفادات کسی سے پوشیدہ نہیں، بھارت کی پاکستان دشمنی پوری دنیا پر عیاں ہے وہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں پوری طرح ملوث ہے جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

بھارت اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان میں دہشت گردوں کی ہر قسم کی معاونت کر رہا ہے، اس بارے اقوام متحدہ میں پاکستان کا پیش کردہ ڈوزیئر موجود ہے جس میں تمام تفصیلات شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ درج ہیں لیکن افسوس ابھی تک اقوام متحدہ نے بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جب کہ وہ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔

بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی (را) اور این ڈی ایس کے ڈانڈے آج بھی ملتے نظر آرہے ہیں اور ٹی ٹی پی و دیگر کالعدم دہشت گرد گروپوں کو ان کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال کیسے کیوں اور کہاں سے ہورہا ہے مگر طالبان انتظامیہ ان کے خلاف آپریشن سے گریزاں ہے اور اس کی بڑی وجہ دہشت گرد گروپوں کے ساتھ طالبان انتظامیہ کا فکری اور فطری تعلق ہے۔

اس پیچیدہ صورت حال میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟ کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے پاکستان مخالف قوتیں شر پسندی کو ہوا دے کر ملک کو کھوکھلا کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔

دہشت گردی کی نئی لہر کے ذریعے ملک میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ روکنے کی بھی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان اربوں ڈالر کے چین، پاکستان اقتصادی راہداری کا اہم ترین روٹ ہے۔

بلوچ عوام کے حقوق اور بلوچستان کی ترقی کے لیے اعلانات تو کئی بار کیے گئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کی رفتار بہت سست ہے اس صورت حال کا فائدہ بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند عناصر بھی اٹھا رہے ہیں جب کہ بھارت سمیت کئی ممالک بھی اس سلسلے میں اپنا منفی کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔

افغانستان سے اس کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اس میں1468کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ اس طویل سرحد پر افغانستان کے چار صوبے ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل لگتے ہیں۔

ایسے میں کچھ عرصہ سے سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگار ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان کی صورت حال کا براہ راست اثر بلوچستان پر پڑنے کے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے وہ درست ثابت ہورہے ہیں۔ مزاحمتی سیاست کے پلیٹ فارم سے متاثر ہو کر زمانہ طالب علمی میں کئی نوجوان بھٹک گئے اور انھیں لگا کہ بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا حل پہاڑوں میں بیٹھ کر ریاست کے خلاف لڑنا ہے اور یوں کئی نوجوان ریاست اور اپنی ہی قوم کے خلاف بندوق اٹھانے لگے جس سے بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے گئے۔

بلوچ عوام کی محرومیوں، مایوسیوں اور پسماندگی نے عوامی اور سیاسی حلقوں میں جس ناخوشگوار رد عمل کو جنم دیا، ماضی کے حکمرانوں کی جانب سے اسے نظر اندازکرنے کے نتیجے میں آج صورتحال تشویش ناک ہوچکی ہے۔

حکومت کو درپیش مسائل اور چیلنجزکا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ملک گیر سطح پر ہونیوالے دہشت گردی اور مالیاتی بحران کے بعد بلوچستان کا مسئلہ سر فہرست دکھائی دیتا ہے۔ بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے بھی ملک دشمن عناصر کی نیندیں اڑا رکھی ہیں، دو ملکوں کے درمیان تجارتی مقاصد کے لیے بنائے جانے والے اس منصوبے سے وسط ایشیائی ملکوں سمیت دنیا کے تقریباً 60 ممالک فائدہ اٹھائیں گے۔

گوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر اور پاکستان کی معیشت پر اس کے گہرے اثرات کے ساتھ وسط ایشیائی سے اقتصادی تعلقات شاندار مستقبل اور ایشیائی خطے کی سیاست میں پاکستان کو جس مقام پر لے جائیں گے وہ بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کو قبول نہیں اس لیے انھوں نے بلوچستان کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں کسی کو مداخلت نہ کرنے دے اور ان قوتوں کا خاتمہ کیا جائے جو پاکستان کے حقیقی چہرے اور معاشرے کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک دہشتگردی کے اسباب کو سمجھ کر سویلین حکومت اور ادارے اس کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حل کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کریں گے، دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

فوج کی تربیت دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے کسی بھی درست یا غلط نظرئیے کو ختم کرنا ریاست کے دیگر اداروں کا کام ہے۔ فوج، پولیس اور سیکیورٹی ادارے کسی جگہ موجود دہشت گردوں کو گرفتار یا ختم تو کرسکتے ہیں لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی یہ مسئلہ بھی جوں کا توں رہے گا-

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ کا ہمیشہ سے کردار رہا ہے لیکن ان بیرونی ہاتھوں کو سہولت کار ملک کے اندر سے ہی ملتے ہیں۔دہشتگردی کی اس نظریاتی لڑائی میں ملک کے علمائے کرام اور مذہبی طبقے کو آگے بڑھ کر ریاست کی بقاء کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،دنیا کا کوئی بھی مذہب بے گناہ لوگوں کی جانیں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔

جب کہ اسلام تو ہے ہی فلاح کا دین مگر کچھ انتہاء پسند تنظیمیں اپنی تنگ نظری کی وجہ سے دہشتگردی اور خوف وہراس کا سبب بن رہی ہیں جن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ناگزیر ہوچکا ہے۔سرحد پار سے سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ اور ملک کے اندر دہشتگردی کی نئی لہر پاکستان کے لیے جن خدشات وخطرات کو جنم دے رہی ہے، ہمیں اس سے ا یک لمحہ کے لیے بھی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے-

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں