آزادی اظہار رائے اور ذمے داری کا پہلو

جہاں حکومت کا نظام شفاف ہوگا وہیں لوگوں کا نظام پر اعتماد بڑھتا ہے


سلمان عابد November 19, 2024
[email protected]

ریاستی، حکومتی یا معاشرتی سطح پر ایک مسئلہ آزادی اظہار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیتا ہے۔لیکن اس کے باوجود اظہار آزادی کے حوالے سے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔بالخصوص ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں یہ مسلہ زیادہ ابھر کر سامنے آگیا ہے کیونکہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر کنٹرول کرنا آسان کام نہیں ۔ آج کی ریاستوں اور حکومتوں کا یہ ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

ریاست ، حکومت اور بعض سماجی حلقوں کا بیانیہ یہ ہی ہے کہ اگر ہم نے اس مادر پدر آزادی کو کنٹرول نہ کیا تو یہ معاشرے میں ایک بڑے انتشار اور بے راہ روی کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا اور اس کی وجہ سے ریاست کے نظام کو مختلف نوعیت کے خطرات کا بھی سامنا ہے۔

اس میں ایک بڑا مسئلہ غلط معلومات کے پھیلاؤ، فیک نیوز کی بنیاد پر سماج میں ایک ہیجانی کیفیت کو پیدا کرنا یا مخالفین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا شامل ہے ۔ یہ سب کچھ ایک منفی سوچ اور فکر کو ایک باقاعدہ شعوری یا منظم طور پر بھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے اور جب ٹرینڈ بن جاتے ہیں تو عام سوشل میڈیا صارف بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے۔

 پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے بقول ’’ غلط اور گمراہ کن معلومات ‘‘ کے تیز پھیلاؤ کو ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ جامع قوانین قواعد وضوابط کے بغیر غلط اور گمراہ کن معلومات اور نفرت انگیز بیانات سیاسی و سماجی ڈھانچے کو غیر مستحکم کرتے رہیں گے یا یہ اخلاقی قدروں کی تنزلی کا باعث بنیں گے ۔اس بات کا اظہار آرمی چیف نے ’’ مارگلہ ڈائیلاگ2024‘‘ کی خصوصی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فیک نیوز ہو یا گمراہ کن خبریں یا ایک منظم حکمت عملی کے تحت کسی کردار یا ریاست وحکومت کے نظام کی تضحیک کرنا یا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنانا یا حقایق کو برے طریقے سے مسخ کرنا اور ایک ایسی رائے عامہ کو بنانا جو ریاست کے نظام کے خلاف ہو کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔

مین اسٹریم میڈیا تو غیرذمے داری کا مظاہرہ نہیں کررہا البتہ سوشل اور ڈیجٹل پر کسی کا کوئی چیک نہیں ہے ، اس لیے یہاں بے احتیاطی کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اور اس کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ سے پسماندہ ملک ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تشویش پائی جارہی ہے ۔اسی بنیاد سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کی بے لگام آزادی کو روکنے کے لیے قوانین اور ادارے بنائے جارہے ہیں اور جہاں ایسے ادارے اور قوانین نہیں ہیں، وہاں بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

ہمیں اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ فیک نیوز یا گمراہ کن خبروں کا پھیلاؤ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ یہ حکومتیں بھی اس کا سہارا لیتیں ہیں جب کہ جرائم پیشہ گروہ بھی اس کا استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں چاہے وہ مذہبی یا سیاسی یا علاقائی جماعتیں ہو ں وہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اس عمل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

  فیک نیوز ہو یاگمراہ کن سوچ پر مبنی انتہا پسندی ، تعصب ،نفرت اور دشمنی پر مبنی خیالات کا مسئلہ محض پاکستان کو ہی درپیش نہیں بلکہ دیگر ممالک بھی ان مسائل سے دوچار ہیں ۔ ان ملکوں میں بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اسے کیسے کنٹرول کرنا ہے ۔ ایک بات تو تسلیم کی جانی چاہیے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں ڈیجیٹل میڈیا کا پھیلاؤ یا لوگوں کا اس پر انحصار بڑھ رہا ہے ،اس کی وجہ بھی ہمارا نظام ہے ۔کیونکہ ہم نے اپنے رسمی میڈیا کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔اگر ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مالی طور پر مستحکم ہوتاتو ڈیجیٹل میڈیاکا پھیلاؤ یا لوگوں کا بڑھتا ہوا انحصار بھی کم نظر آتا۔

یہ بات کافی درست ہے کہ مادر پدر کوئی اظہار آزادی نہیں ہوتی اور ہر آزادی اپنے اندر ایک ذمے داری کا احساس بھی رکھتی ہے اور کچھ حدود وقیود بھی ہوتی ہیں جس پر عمل کرنا ہر شہری کا حق بھی ہوتا ہے۔ ہمیں آزادی اظہار کے نام پر نفرت انگیز بیانیہ یا انتہا پسندی یا پر تشدد رجحانات پر مبنی بیانیہ سمیت ریاست کے مفاد کے خلاف کسی بھی عمل کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست کے مفاد کا تعین کون اور کیسے کرے گا۔

جہاں حکومت کا نظام شفاف ہوگا وہیں لوگوں کا نظام پر اعتماد بڑھتا ہے یا اس کی ساکھ کو ہرسطح ہر قبول کیا جاتا ہے ۔لیکن ہمار ے جیسے سماج میں حکومت ہر مسئلہ کا حل طاقت کے زور پر تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے یقینی طور پر لوگوں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر منفی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔بنیادی مسئلہ لوگوں کے سیاسی ، سماجی ،قانونی، معاشرتی اور معاشی حقوق کی پاسداری اور اس کے شفاف نظام سے ہے ۔جب ہمارا حکمرانی کا نظام حکومت کے ان بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرے تو لوگوں کا اس پر نہ صرف اظہار سامنے آئے گا بلکہ اس ردعمل میں یقینی طور پر غصہ بھی نمایاں ہوگا۔ویسے بھی پاکستان میں لوگوں کا حکومت کے نظام پر اعتماد کافی حد تک اٹھ چکا ہے اور ایسے میں جب ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری نہیں ہوگی تو ردعمل کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔اس کا علاج سیاسی اور مذہبی فتوؤں میں نہیں بلکہ عملی و فکری بنیاد پر تلاش کرنا ہوگا۔

 حکومت یقینی طور پر ڈیجیٹل میڈیا یا آزادی اظہار کے حوالے نئی پالیسیاں یا قانون سازی کرے یہ اس کا حق ہے ۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سب ہی فریقوں کو ایک جامع مشاورت کاحصہ بنا کر ایک بڑے اتفاق رائے کو پیدا کرے ۔ پاکستان کو آزادی اظہار یا ڈیجیٹل میڈیا کے تناظر میں دنیا کے تجربات سے سیکھنا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی کیا تھی اور کیا ایسے طریقے کار اختیار کیے گئے جو کارگر ثابت ہوئے۔

ایک طرف مکالمہ اور بات چیت یا تعلیم و تربیت کی بنیاد پر معاملات کو حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو دوسری طرف نئی نسل کی رہنمائی کے لیے ریشنل اپروچ کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یا گروہ یا تنظمیں فیک نیوز یا گمراہ کن خیالات کو فروغ دیتے ہیں، ان سے نمٹنے کا شفاف نظام بنائیں مگر اس کا یہ علاج نہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت سے انکار کردیا جائے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر پابندی نہیں بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کی کڑی نگرانی کا شفاف میکنزم بنانا چاہیے تاکہ ان گروہوں، تنظیموں اور لوگوں کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکے جو اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں