گزشتہ ہفتے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں دو فلائی اوورز کا افتتاح کیا، اگرچہ موضوعات بہت سے ہیں جن میں 26 ویں آئینی ترمیم سے لے کر ملکی اور غیر ملکی حالات اور خصوصاً امریکی صدر ٹرمپ کی واپسی شامل ہیں لیکن ملک بھر کے عوام کی توجہ اسموگ پر مرکوز ہے۔ جہاں بھی جائیے بس اِسی کا چرچا ہے۔
آسمان دھویں اور آلودگی کی چادر سے ڈھکا ہوا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آفتاب اِس کی تاب نہ لا کر غائب ہوگیا ہے۔ دھند اور دھویں کے بادل شروع میں ہلکے ہلکے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ گہرے سے گہرے ہوتے گئے۔ اِس صورتحال نے زندگی کے نظام کو درہم برہم اور چوپٹ کردیا۔نیلے آسمان نے سیاہی کا لباس پہن لیا، حد نگاہ تنگ سے تنگ تر ہوگئی۔ ٹریفک کا نظام معطل ہوگیا، سڑکیں ویران ہوگئیں۔ اِس کالم کے تحریر ہونے کے وقت تک صورتحال یہی تھی۔
ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی آسیب نے آن دبوچا ہو۔ اندرونِ ملک 39 پروازیں معطل ہوگئیں جس کی وجہ سے مسافروں کو بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس کے علاوہ اشیاء کی نقل و حمل بھی بُری طرح متاثر ہوئی اور بہت سی تقریبات کو بھی ملتوی کرنا پڑا۔اگرچہ کراچی اسموگ کے اثرات سے براہ راست متاثر نہیں ہوا لیکن پنجاب سے آنے والی سبزیوں اور ترکاریوں وغیرہ کی ترسیل کے نتیجے میں سپلائی شارٹ ہوجانے کی وجہ سے ان اشیاء کی قیمتوں کو پَر لگ گئے۔
اس کا دہرا نقصان ہوا یعنی ایک جانب سپلائر کو رسد کی ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی اٹھانی پڑی اور دوسری جانب طلب میں اضافے کی وجہ سے گاہکوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ابھی تو موسم سرما کا آغاز ہی ہوا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب موٹر گاڑیوں اور بھٹوں سے اٹھنے والا دھواں ہے۔ حکومت پنجاب نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے اور بھٹوں کو بند کر دیا ہے لیکن مختلف قسم کی مصنوعات کی تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بند کرنا آسان نہیں ہے،کیونکہ ان پر ملک کی معیشت کا انحصار ہے۔
باخبر ذرایع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی توجہ خط کے ذریعے اسموگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کی جانب مبذول کرائی ہے کیونکہ اسموگ کا یہ ریلا بھارتی پنجاب کی جانب سے آیا ہے لیکن اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہونا تھی اور نہ ہوئی۔
آج کی دنیا میں فلائی اوور اور سڑکوں کی تعمیر کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کی تائید لاہورکرتا ہے۔ لاہور جوکبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا، اب کنکریٹ کا شہر بن کر رہ گیا ہے۔ جگہ جگہ سڑکوں اور فلائی اوورزکی تعمیر نے شہر کو کشادگی سے ہٹا کر تنگ کر چھوڑا ہے۔ ہم پاکستانی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نباتات آلودگی سے محفوظ رہنے کا انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہے کہ جب سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں تو ان پر ٹریفک بھی آئے گا اور جوں جوں ٹریفک بڑھے گا سڑکیں تنگ ہوجائیں گی۔ مزید یہ کہ بڑھتے ٹریفک کے ساتھ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا جو کہ اسموگ کی ایک بہت بڑی وجہ ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی ہم سڑکوں کو کشادہ کرنے اور مزید فلائی اوورز بنانے میں مصروف ہیں تا کہ ٹریفک اس پر شاں شاں کرتا ہوا دوڑ سکے جیسا کہ شاہراہوں اور موٹر ویز پر دوڑتا ہے۔
نہ کوئی شکایت کرتا ہے اور نہ احتجاج کیونکہ یہ امراء اور پالیسی سازوں کے حق میں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو عدالت میں مونال، پتھر توڑنے اور مرگلہ کی پہاڑیوں کے تقدس کے لیے تو درخواست دائرکریں گے لیکن پورا شہر جو کنکریٹ کا شہر بنتا جارہا ہے اس پر خاموش رہیں گے۔ سڑکیں ان لوگوں کے لیے ہیں جنھیں گاڑی میسر ہے، اس لیے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ تو فضا کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ سڑکیں امراء کی طرف سے امراء کے لیے ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارے سامنے سب سے اچھی مثال چین کی ہے۔ چین میں بھی صنعتی ترقی کے باعث فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا۔ چینی حکومت نے صنعتوں پر اخراج کو کم کرنے کے لیے معیار وضع کیے، جدید ایئرکوالٹی مونیٹرینگ سسٹم بنایا گیا، پبلک ٹرانسپورٹ انفرا اسٹرکچر بھی بنایا گیا۔
چین میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی کو بہتر بنایا گیا۔ کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگا دی گئی۔ رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم بند کر دیے گئے۔ ڈیزل ٹرکس میں ایندھن اور انجن کے معیارکو بڑھایا گیا۔ آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کا استعمال بند کردیا گیا، لوگوں کو الیکٹرک وہیکلزکو اپنانے اور مختصر سفر کے لیے اپنی سائیکل چلانے کی ترغیب دی گئی۔ آلودگی پر قابو پانے کے لیے دنیا کے کسی اور شہر نے بیجنگ جیسی کامیابی حاصل نہیں کی۔