اسلام آباد:
اسلام آباد میں وزیرِاعظم شہباز شریف کی سربراہی میں معیشت کی صورتحال پر جائزہ اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف وفد سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں اور ملکی معاشی صورتحال کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔
شہباز شریف نے کہا ملک معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہے، معیشت کی ترقی کیلئے حکومتی اقدامات کی بدولت سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔
بیرونی سرمایہ کار حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ عوامی ریلیف حکومت کی اولین ترجیح ہے، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر7 فیصد، شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر15 فیصد ہو چکی ہے جس سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ زرعی شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے وزیرِاعلیٰ پنجاب اور پنجاب حکومت کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا عوامی ریلیف کو ہر دوسرے اقدام پر ترجیح دی جائے، عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے ہرممکن اقدام کر رہے ہیں۔
شرح سود میں کمی سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملکی معیشت کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب سب اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں، تمام شعبہ جات کو ٹیکس ادا کرکے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اجلاس کو معیشت کے اشاریوں، مہنگائی کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ ٹیکس چوری اور ان کی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے بھی آگاہ کیا گیا۔
اجلاس کے شرکاء کے مطابق آئی ایم ایف مشن کے بارے میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اس حوالے سے کوئی بڑے خدشات نہیں ہیں تاہم چند معاملات کو جلد حل کرنے کی ضرورت ہے ان میں ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال، بیرونی فنانسنگ گیپ اور قومی مالیاتی معاہدے کا مکمل نفاذ شامل ہیں۔
پاکستان نے اس سال آئی ایم ایف کے تخمینہ کے مطابق 2.5 ارب ڈالر کے مالیاتی فرق کو پورا کرنے کیلئے اپنے فنانسنگ پلان میں سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر 1.2 ارب ڈالر کے تیل کو شامل کیا ہے۔ .
ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ سعودی سہولت کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ شہباز شریف پہلے ہی اس سہولت کی منظوری کیلئے سعودی عرب کو خط لکھ چکے ہیں۔ معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کیلئے اب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سعودی عرب سے بات کرینگے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کو رواں مالی سال کے صرف چار مہینوں میں 190 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ نومبر کیلئے آئی ایم ایف نے1.03 ٹریلین روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا جس کے مقابلے میں ایف بی آر پیر تک صرف 390 ارب روپے اکٹھے کر سکا۔ ہدف پورا کرنے کیلئے باقی12 دنوں میں تقریباً 610 ارب روپے اکٹھے کرنیکی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف نے جنوری تک صنعتوں کے ان ہاؤس پاور جنریشن پلانٹس کے گیس کنکشن منقطع کرنے کا معاملہ اٹھایا۔ حکومت نے ڈیڈ لائن پر نظرثانی کی درخواست کی تاہم آئی ایم ایف اس پر راضی نہیں ہوا۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ اس معاملے پر حتمی فیصلہ لے کر اس مسئلے کو ختم کیا جائے اور گیس کنکشن منقطع کرنے کے حوالے سے منصوبہ پیش کیا جائے۔ پاکستان کے پاس اضافی بجلی اور فاضل درآمدی ایل این جی موجود ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ صنعتوں کو نیشنل پاور گرڈ پر منتقل کیا جائے۔
حکومت کا اب یہ موقف ہے کہ فاضل درآمدی ایل این جی صنعتوں کو پوری قیمت پر فراہم کی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم کو وزارت خزانہ نے31 اکتوبر تک چاروں صوبوں کی طرف سے زرعی انکم ٹیکس قوانین کی منظوری کیلئے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل درآمد کی صورتحال کے بارے میں بتایا اور کہا پنجاب نے قانون منظور کر لیا ہے لیکن سندھ نے ابھی تک بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا، وزیر اعظم کو یقین دلایا گیا کہ سندھ بھی جلد قانون منظور کر لے گا۔
آئی ایم ایف کی شرط کا مقصد زرعی انکم ٹیکس کی شرح کو 45 فیصد تک بڑھانا ہے تاہم پنجاب کے قانون میں کسی شرح کا ذکر نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایکس پر ایک پوسٹ میں شہباز شریف نے بنگلہ دیش میں ڈینگی کی وبا کے باعث قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ہرممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان اس مشکل وقت میں بنگلہ دیش کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم ان کی ہرممکن مدد کیلئے تیار ہیں۔